ماہرینِ نفسیات خود کشی کیوں کرتے ہیں؟


کیا آپ جانتے ہیں کہامریکہ میں ہر روز ایک ڈاکٹر خود کشی کرتا ہے ؟ ڈاکٹر سب پیشوں میں کام کرنے والوں سے زیادہ اور ڈاکٹروں میں ماہرینِ نفسیات سب سے زیادہ خود کشی کرتے ہیں.

جب ہم خودکشی کی شماریات کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ شمالی امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ لوگوں میں دس لوگ لیکن لاکھ میں سے بیس ڈاکٹر اور لاکھ میں سے چالیس ماہرینِ نفسیات خود کشی کرتے ہیں۔

جب ہم عوام میں خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں سے ایک بڑی تعداد یا تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی اور یا شراب اور نشہ آور ادویہ کا استعمال کرتی ہے۔

بعض ایسی جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن سے صحتیابی کی امید نہیں ہوتی ایسے مریض خود کشی کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں
جرمن فلاسفر شوپنہار سے جب ایک طالب علم نے پوچھا کہ لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا جب زندہ رہنا مرنے سے زیادہ تکلیف دہ ہو جائے تو انسان خود کشی کر لیتے ہیں۔

WHEN HORRORS OF LIVING OUTWEIGH THE HORRORS OF DYING PEOPLE COMMIT SUICIDE

بعض محبت اور کاروبار میں ناکامی سے بھی خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ پوری طرح ناامید ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب طالب علم میڈیکل کالج جانے کی خواہش کرتے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ مسیحا بننا کتنا مشکل کام ہے۔میڈیکل سٹوڈنٹس میں بھی خود کشی کاتناسب عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔

جب طالب علم ڈاکٹر بن جا تے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا کہ خاندان کا خیال رکھنا اور مریضوں کی نگہداشت کرنا دونوں فل ٹائم جوب ہیں اور ان میں توازن رکھنا بہت مشکل۔ اسی لیے نجانے کتنے ڈاکٹر ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر خود ھی خود کشی کر لیتے ہیں خاص طور پر اگر وہ ڈیپریشن کے مریض ہوں۔ ڈاکٹروں سے بھی زیادہ خود کشی کرنے والے ماہرینِ نفسیات ہیں۔

میری ایک دوست نے جب پوچھا کہ ماہرینِ نفسیات تو مریضوں کو خود کشی کرنے سے روکتے ہیں وہ خود کیسے خود کشی کر سکتے ہیں تو میں نے کہا کہ جب ماہرینِ نفسیات مریضوں کو قائل کر رہے ہوتے ہیں کہ خود کشی نہ کریں اگر وہ خود نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں تو وہ دل کی گہرائیوں میں اپنے مریضوں سے قائل ہونے لگتے ہیں کہ خود کشی زندگی کے مسائل کا ایک حل ہو سکتا ہے اور جب وہ خود ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں تو خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگتے ہیں ‘پھر اس سوچ پر عمل کرنے کا سوچتے ہیں اور ایک دن اس پر عمل بھی کر بیٹھتے ہیں۔بعض دوسروں کے دکھ سنتے سنتے خود بہت دکھی ہو جاتے ہیں۔

چونکہ ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کے لیے ادویہ حاصل کرنا آسان ہوتا ہے اس لیے ان سے OVERDOSEکرنا بھی آسان۔
بہت سے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے لیے یہ حقیقت قبول کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں انہیں بھی نفسیاتی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔نجانے کتنے بر وقت مدد لینے کی بجائے خود کشی کر لیتے ہیں۔

جہاں تک خودکشی کی روک تھام کا تعلق ہے عوام و خواص کو مندرجہ ذیل چیزیں مدد کر سکتی ہیں
۱۔ ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی مسائل کا بروقت علاج ہونا چاہیے
۲۔ شراب نوشی اور نشہ آور ادویہ سے احتراز کرنا چاہیے
۳۔نفسیاتی مسائل میں دوستوں سے مدد لینی چاہئے۔
۴۔ ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کو قبول کرنا چاہیے کہ وہ بھی انسان ہیں اگر وہ جسمانی بیماری کے لیے جسمانی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو انہیں نفسیاتی مسائل میں ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔

وہ تمام لوگ چاہے وہ مائیں ہوں یا نرسیں ڈاکٹر ہوں یا ماہرینِ نفسیات انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے اگر وہ خود ذہنی طور پر خوش نہ ہوں۔دوسروں کاخیال رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا خیال رکھنا بھی سیکھیں۔
جب میرے دوست میری خوشی اور میری پرسکون زندگی یعنی میرے گرین زون کا راز پوچھتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ جب میں کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں’ ہم سب‘ کے لیے کالم لکھتا ہوں اور اپنے ادبی دوستوں کے ساتھ ڈنر کرتا ہوں تو یہ سب اقدام میرے گرین زون میں رہنے کے مختلف طریقے ہیں۔ میں خود بھی گرین زون میں رہتا ہوں اور اپنے مریضوں کو بھی گرین زون میں رہنے میں مدد کرتا ہوں۔
فروری ۲۰۱۹ میں جب میں نے فیض احمد فیض کے نواسے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر علی ہاشمی کی دعوت پر لاہور میں لیکچر دیے تو مجھے ان طلبا و طالبات نے بتایا کہ پاکستان کے نجانے کتنے میڈیکل سٹوڈنٹس نے خود کشی کر لی ہے۔ مجھے وہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا کہ مسیحا خود بیمار ہو گئے اور ضروری مدد حاصل کرنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ ایک بد قسمتی کی بات ہے کہ نجانے کتنے ڈاکٹر اور ماہرینِ نفسیات اوروں کا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنا خیال رکھنا بھول جاتے ہیں۔
ظفر زیدی کا شعر ہے
؎ اوروں نے مجھے بانٹ لیا حسبِ ضرورت
پھر اپنی ضرورت کے لیے بھی نہ بچا میں
شمالی امریکہ میں اب مختلف ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں میں خاص پروگرام بنائے جا رہے ہیں جو دوسرے ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کا خیال رکھتے ہیں انہیں بر وقت نفسیاتی مدد پہنچاتے ہیں اور ان کے علاج کا اہتمام کرتے ہیں تا کہ ان مسیحائوں کو بیمار ہونے سے پہلے مدد مل سکے۔
کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان مریضوں پر کیا بیتتی ہوگی جن کو یہ خبر ملتی ہوگی کہ ان کے ڈاکٹر ’ان کے سائیکاٹرسٹ یا ان کے مسیحا نے خود کشی کر لی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail