مجھے بھانڈ ہی رہنے دو


”آموں کی پیٹی“ میں ہوئے ایک تاریخ ساز دھماکے کو ذہن میں رکھتے ہوئے محمد حنیف نے انگریزی کا ایک حیران کن ناول لکھ دیا۔ موصوف کا شمار دورِ حاضر کے ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کے ہنر سے میں حسد میں مبتلا ہوں۔ باتوں باتوں میں ”حساس“ موضوعات پر وہ جو کچھ کہہ جاتا ہے اس سے کبھی کبھار گھبرا بھی جاتا ہوں۔

بدھ کی صبح ”مڈل مین“ کی بابت میرا جوکالم چھپا اسے پڑھ کر محمد حنیف نے ٹویٹ کے ذریعے سراہا۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ ”آڑھتی“ کے بارے میں تفصیلی کالم لکھ ہی ڈالوں۔ اسے پڑھ کر شاید ہماری نوجوان نسل کو یہ جاننے میں تھوڑی مدد مل جائے کہ ”آڑھتی“ کئی صدیوں سے ہمارا مقدر کیوں ہے۔

محمد حنیف کا حکم سرآنکھوں پر۔ وطنِ عزیز کی سیاست سے ویسے بھی عرصہ ہوا جی قطعی طورپر اُکتا چکا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے نیند آنے سے قبل دو تین موضوعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے طے کرلیتا ہوں کہ صبح اٹھتے ہی ان کی بابت لکھاجائے گا۔ نیند ختم ہوتے ہی قلم اٹھاتا ہوں تو رپورٹر سے کالم نگار ہوئے دیہاڑی دار کو سیاست پر تبصرہ آرائی کے ذریعے ڈنگ ٹپانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ وہ بات جو سوچ رکھی تھی ان کہی ہی رہ جاتی ہے۔

سیاست سے مجھ جیسے دیہاڑی داروں کو اندھی محبت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے کا سوشل میڈیا ویسے بھی بھٹکنے نہیں دیتا۔ سمارٹ فونز نے ہمیں اس میڈیا کا غلام بنادیا ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک کو دیکھنا عادت نہیں بلکہ علت میں بدل چکا ہے اور منگل کی دوپہر سے اسے دیکھتے ہوئے دل کھول رہا ہے۔

بہت تگ ودو کے بعد نواز شریف کے بھائی اور بچے انہیں علاج کی خاطر بیرون ملک روانہ ہونے کو رضا مند کرپائے۔ انہیں لندن پہنچانے قطر سے ایئر ایمبولینس آئی۔ سابق وزیر اعظم کی اس کی جانب روانگی اور ان کی طیارے میں بیٹھے ہوئے تصویریں Viral ہونا شروع ہوگئیں۔ ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے ہماری ”انسان دوست“ تہذیب کے ”نمائندہ“ تصور ہوتے کئی اینکر خواتین وحضرات بھی بہت رعونت سے یہ سوال اٹھانا شروع ہوگئے کہ وہ مریض ”جس کی جان کو شدید خطرات لاحق تھے“ کہاں ہے۔

اس سوال کا اصل مقصد ہمیں یہ بتانا تھا کہ بیماری کا ”ڈرامہ“ رچایا گیا ہے۔ ”سزا یافتہ مجرم“ اس ”بہانے“ ایک بار پھر پاکستان کی ”سب پر نگاہ“ رکھنے والی ریاست کو ”دھوکہ“ دے کر ملک سے ”فرار“ ہوگیا۔ اس دعوے کے بعد وہی ماتم کنائی جو قانون کے سب کے لئے برابر نہ ہونے کا گلہ کرتی ہے۔ یقین مانیں ہمارے ”رائے عامہ بنانے والوں“ کی ایک کثیر تعداد کے مذکورہ رویے کو دیکھتے ہوئے میں پریشان ہوگیا۔

خلق خدا کی ”رہ نمائی“ کرنے والے ایسے ہی افراد نے برسوں کی محنت سے عمران خان صاحب کو ہمارے لئے ایسا مسیحا بناکر پیش کیا تھا جس کے انتظار میں ایکٹرس نرگس نہیں بلکہ اس نام کا پھول ہزاروں برس سے رورہا تھا۔ بلھے شاہ کے چرخے والی ”کوک“ تھی جس کی فریاد سے مجبور ہوکر ”رانجھا“ پہاڑوں سے اُتر آنے کو مجبور ہوجاتا ہے۔

بیماری کو ”ڈرامہ“ بناکر دکھاتے ہوئے میرے معتبر ذہن سازیہ حقیقت فراموش کرگئے کہ ان دنوں عمران خان صاحب اس ملک کے حکمران ہیں۔ انہوں نے بذاتِ خود یہ دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں انہیں جو رپورٹس فراہم ہوئیں انہیں دیکھ کر ان کے دل میں ”رحم“ آگیا۔ انہوں نے اپنی کابینہ کی مخالفت کے باوجود نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لئے بھجوانے کی درخواست مان لی۔ اس درخواست کو کمال مہربانی سے منظور کرتے ہوئے ان کی حکومت نے ساڑھے سات ارب روپے والے بانڈ کی شرط بھی عائد کی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس شرط کو نامناسب ٹھہرایا۔ نواز شریف صاحب بالآخر بیرون ملک چلے گئے۔

سابق وزیر اعظم کو ملی اجازت سے تلملائے ہوئے ذہن سازوں کو سفاکانہ نفرت میں یا دہی نہیں رہا کہ نواز شریف کو سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نا اہل بھی ہماری عدالتوں ہی نے ٹھہرایا ہے۔ وہ نا اہل ہوئے تو ہمارے مسیحا اور ا ن کے پجاریوں نے ”جشنِ تشکر“ بھی منایا تھا۔ ہمیں عدلیہ کی آزادی کی نوید سنائی۔ یہ امید دلائی کہ بالآخر وطن عزیز میں ”قانون سب کے لئے برابر ہوگیا“۔ اقتدار میں باریاں لینے والے ”مافیا“ قانون کی زد میں آنا شروع ہوگئے۔ انصاف کا بول بالا ہوگیا۔

نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لئے بانڈ کی جو شرط عائد ہوئی تھی لاہور ہائی کورٹ اس کے بارے میں حتمی حکم صادر کرنے کی مجاز تھی یا نہیں تھی۔ اگر اس کے فیصلے سے واقعتا اختلاف تھا تو رجوع کرنے کو سپریم کورٹ بھی اس ملک میں قائم ودائم تھی۔ بجائے یہ سوال اٹھانے کے ”قوم کی دولت لوٹنے والوں کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا“ کا دعوی کرنے والوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا، ہمارے ذہن سازوں نے لاہور ہائیکورٹ کی فراست پر طنز بھرے سوالات اٹھانے پر ہی اکتفا کیا۔

اب اپنے دل میں اُبلتے غصے کو نواز شریف کی ”بیماری“ کی بابت طنز کے نشتر برساتے ہوئے مٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ نواز شریف کو کوئی ایمبولینس سیٹیاں بجاتی اور لال بتی روشن کرتی جاتی امراء سے ایئرپور ٹ لاتی۔ نواز شریف اس ایمبولینس سے سٹریچر پر لیٹے ہوئے برآمد ہوتے۔ کئی دنوں سے شیو نہ کرنے کے باعث ان کا چہرہ پہچاننے میں دشواری ہوتی۔ طیارے کے اندر بھی وہ کسی سٹریچر نما شے پر لیٹے ہوئے کراہتے دکھائی دیتے۔ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے ”سزا یافتہ مجرم“ نے ان کے سینوں پر مونگ دل دی۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے پرستاروں کا رویہ بھی اس ضمن میں حیران کن تھا۔ عدالت کی وجہ سے نصیب ہوئی ضمانت کے بعد نواز شریف صاحب کئی روز تک لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے۔ ہسپتال کے باہر ان دنوں اپنے ”محبوب قائد“ سے ہمدردی کا اظہار کرنے کبھی سو سے زیادہ لوگ نظر نہیں آئے۔ وہ مگر رائے ونڈ سے ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار ان کے کانوائے میں شامل ہو گئی۔ ان کو لے جانے والی گاڑی پر گلاب کی پتیاں نچھاور ہوتی رہیں۔ میں، میری ماں اور باپ ”بارہ دروازوں اور ایک موری والے“ لاہور کے جم پل ہیں۔ میرے شہر میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ”رنگ بازی“۔ بسا اوقات اس ”بازی“ سے مجھے جماندرو لہوری ہوتے ہوئے بھی گھن آتی ہے۔ منگل کی صبح نواز شریف صاحب کا ایئرپورٹ جانے والا قافلہ دیکھتے ہوئے اس کیفیت کو بھگتا ہے۔

نواز شریف کے پرستاروں کی مگر اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر لکھے ٹویٹس کے ذریعے ہمیں آگاہ کرتے رہے کہ دوحہ ایئرپورٹ پر امیر قطر کے چیف آف پروٹوکول نے سابق وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ لندن پہنچنے کے بعد بھی انہیں وی وی آئی پیز کو میسر سہولتیں ملیں۔ ایک لطیفے والا ”ہمارا بابا“ ان ٹویٹس کی بدولت یاد آنا شروع ہوگیا۔

اندھی نفرت وعقید ت میں جنونی ہوئی قوم کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ محمد حنیف کے دیے حکم کو کیسے بجالاؤں۔ ”آڑھتی“ کے بارے میں تھوڑی تحقیق سے جو بیان کروں گا اسے پڑھنے کی فرصت کسی کو میسرنظر نہیں آرہی۔ آج کے نام نہاد ڈیجیٹل زمانے میں ہم کلکس اور بیٹس کی خاطر ہی تو لکھتے ہیں۔ فیس بک پر زیادہ سے زیا دہ لائکس اور شیئر کی تمنا۔ ٹی وی سکرینوں پر اگر نمودار ہوں تو ریٹنگز کی ہوس میں سب کو پچھاڑنے کی خواہش۔

ستائش کی تمنا سے آزاد ہوکر غالبؔ دلی کی گلی قاسم جان میں محصور ہوگیا تھا۔ شعروں کی ”آمد“ سے محروم ہوا وہ خطوط لکھتے ہوئے دل کے پھپھولے جلاتا رہا۔ ایک دیوانہ سعادت حسن منٹو بھی تھا۔ اپنے نامور ہم عصروں کو اس نے ”گنجے فرشتوں“ کی صورت دیکھا۔ انجام کیا ہوا۔ خون تھوکتا ہوا اس دنیا سے تقریباً جوانی میں رخصت ہوا۔ بیوی اور بیٹی کو لاوارث چھوڑ گیا۔ اس کی لکھی کتابیں آج بھی ہزاروں کی صورت چھپتی اور بکتی ہیں۔

اس کے لئے مگر کوئی ”منٹو میلہ“ بھی منعقد نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ نے اسے آج تک نہیں اپنایا ہے۔ محمد حنیف کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ منٹو کے بھیانک انجام سے سیکھنا ضروری ہے۔ لوگوں کی خواہش اور تعصبات کے مطابق ”جگتیں“ لگاؤ اور ذہن ساز سیلیبرٹی بن جاؤ۔ مجھے بھانڈ ہی رہنے دو۔ ”آڑھتی“ پر تحقیقی مضامین لکھنے کو مجبور نہ کرو۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).