گورنمنٹ کالج لاہور: غیر ملکی اساتذہ کے نام پر ایچ ای سی کے کروڑوں روپے کے فنڈز کہاں گئے؟


گورنمنٹ کالج یونیورسٹی

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی کرپشن کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں اعلی تعلیم کے نگراں ادارے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی طرف سے لاہور کی جی سی یونیورسٹی میں ریاضی کے ڈیپارٹمنٹ کو فارن فیکلٹی پروگرام کے تحت 64 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن جون 2019 کی ایک محکمہ جاتی رپورٹ کے مطابق اکثر غیر ملکی استاتذہ پاکستان آئے نہ انھیں تنخواہیں دی گئیں۔

تاہم ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اللہ دتہ رضا چوہدری نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کمیٹی کو جانبدار قرار دیا ہے۔ سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان کے مطابق یہ کیس ’تین ایچ ای سی چیئرمین اور تین ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز کے دور کا ہے۔‘

نامور ماہرِ فزکس ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے 9 نومبر 2019 کو پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں اس کمیٹی کی رپورٹ پر کالم لکھا تھا جس میں انھوں نے فارن فیکلٹی پروگرام کے حوالے سے اپنے تجربات کا بھی ذکر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

غریب ترین بچے، اعلیٰ ترین تعلیم

تعلیمی بجٹ میں اضافہ اساتذہ کی تنخواہوں اور پینشن کی نذر

’میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں‘

رپورٹ میں کیا ہے؟

لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ملحق عبد السلام سکول آف میتھمیٹیکل سائنسز (اے ایس ایس ایم ایس) کی ایک محکمہ جاتی رپورٹ میں ادارے کی سابق انتظامیہ پر ایچ ای سی کی جانب سے سکول کو جاری کیے گئے کروڑوں روپے کے فنڈز میں مبینہ غبن کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

گورنمنٹ کالج لاہور

ایک تین رکنی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2003 سے 2013 تک چلنے والے ایچ ای سی کے فارن فیکلٹی ہائیرنگ پروگرام (ایف ایف ایچ پی)، جس کے تحت غیر ملکی اساتذہ کو پاکستانی اداروں میں بھرتی کر کے پاکستانی اداروں کے طلبا کی صلاحیت بڑھانا تھا، کے تحت ایچ ای سی نے ادارے کو 15 دسمبر 2003 سے 30 جون 2013 کے دوران بھرتی کیے گئے اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے تقریباً 638 ملین روپے کی رقم فراہم کی تھی۔

رپورٹ مرتب کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ماہرِ فزکس ڈاکٹر عامر اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ سکول اپنے آفر کردہ کورسز کا ریکارڈ مکمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر سکول کے دفتر میں مکمل ریکارڈ نہیں تھا جس سے انھیں معلوم ہوا کہ ان غیر ملکی استاتذہ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ ریکارڈ کی تکمیل کی غرض سے ایک رپورٹ بنائی گئی جس میں تمام غیر ملکی اساتذہ کو جاری کردہ تنخواہوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ان اساتذہ کو کئی سالوں تک تنخواہیں باقاعدگی سے جاری کی جاتی رہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں انھیں سابق طلبا سے گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ زیادہ تر پروفیسرز صرف چند ہفتوں سے چند ماہ تک یہاں رہے اور جب اس چیز کو سکول کے ڈائریکٹر جنرل اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر کے علم میں لایا گیا تو ان ’تنخواہوں کی تصدیق‘ کے لیے یہ کمیٹی قائم کی گئی تھی۔

ان کی تحقیقاتی رپورٹ سے پتا چلا کہ جب کمیٹی نے اس رقم کی تصدیق کے لیے اس ادارے کے بھرتی کردہ 58 غیر ملکی اساتذہ میں سے کئی سے رابطہ کیا تو چند اساتذہ نے ادارے کی دستاویزات میں موجود رقم کو اس رقم سے کہیں زیادہ قرار دیا جو کہ انھیں حقیقتاً موصول ہوئی تھی۔

کمیٹی کے مطابق انھوں نے ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اللہ دتہ رضا چوہدری اور سابق ڈائریکٹر فنانس اعجاز ملک، جن کے دور میں یہ تمام اساتذہ بھرتی کیے گئے اور تنخواہیں جاری کی گئیں، کو اس حوالے سے ای میلز کیں لیکن انھوں نے ان ای میلز کا جواب نہیں دیا۔ دونوں ہی افسران سنہ 2014 میں یہ ادارہ چھوڑ چکے ہیں۔

لیکن اس وقت رومانیہ میں مقیم ڈاکٹر چوہدری نے بی بی سی سے ای میلز کے تفصیلی تبادلے میں تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔

اس کے علاوہ بی بی سی نے جب اس حوالے سے کئی پروفیسرز کو ای میلز کیں تو ان میں سے ایک نے اپنے جواب میں کمیٹی کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھیں دستاویزات میں درج رقم سے کہیں کم رقم ادا کی گئی۔

فارن فیکلٹی ہائیرنگ پروگرام کیا تھا؟

ایچ ای سی کی جانب سے 2003 میں یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا اور اس کے تحت پاکستان بھر کے 41 سرکاری تعلیمی اداروں کو یہ گرانٹ جاری کی گئی تھی تاکہ وہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر غیر ملکی محققین اور اساتذہ کو کانٹریکٹ پر بھرتی کریں۔

عبدالسلام سکول آف میتھمیٹیکل سائنسز کو اس ضمن میں ایچ ای سی کی جانب سے ان اساتذہ کی تنخواہوں اور فضائی سفر کے اخراجات کی مد میں تقریباً 638 ملین روپے (تقریباً 70 لاکھ ڈالر) کی گرانٹ جاری کی گئی تھی۔

بی بی سی کے پاس موجود کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی کی جانب سے یہ گرانٹ ان تمام بھرتی کیے گئے پروفیسرز کی ماہانہ تنخواہ کی مد میں تھی مگر کمیٹی نے جب 38 فیکلٹی ارکان کو تصدیق کے لیے ای میل لکھیں تو ان میں سے کم از کم 13 نے کمیٹی کو جواب دیا۔

جن 13 اساتذہ نے کمیٹی کو جواب دیا، ان میں سے نو غیر ملکی اساتذہ نے منسلک دستاویزات میں موجود رقم کے بارے میں کہا کہ یہ انھیں ملنے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ چند اساتذہ نے اپنے پاس ریکارڈ موجود نہ ہونے کا کہا یا کہا کہ جہاں تک ان کا اندازہ ہے یہ ریکارڈز ٹھیک ہیں۔

اس کے علاوہ زیادہ تر اساتذہ نے نشاندہی کی کہ انھوں نے پاکستان میں سالہا سال مستقل وقت نہیں گزارا ہے بلکہ وہ صرف چند روز سے لے کر چند ماہ کے لیے پاکستان آیا کرتے تھے۔

لیکن تحقیقاتی رپورٹ میں منسلک تمام دستاویزات میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ان پروفیسرز کو صرف چند ماہ پاکستان میں گزارنے کے باوجود کئی ماہ سے لے کر کئی سالوں تک ان کے بھرتی کے دورانیے کے لیے باقاعدگی سے ماہانہ تنخواہیں جاری کی جاتی رہی ہیں۔

مثال کے طور پر کمیٹی نے سلوواکیہ سے تعلق رکھنے والے ریاضی دان پروفیسر مارٹن باکا سے بذریعہ ای میل سوال کیا کہ سکول نے ان کے نام 1 اکتوبر 2007 سے لے کر 30 جون 2013 تک ماہانہ تنخواہ جاری کی ہے۔

سکول دستاویزات کے مطابق یہ تنخواہ ابتدا میں دو لاکھ 10 ہزار 250 روپے ماہانہ تھی جبکہ بڑھتے بڑھتے دو لاکھ 45 ہزار روپے ہوچکی تھی۔ چنانچہ یہ کُل رقم ایک کروڑ 55 لاکھ 16 ہزار روپے بنتی ہے۔

جواب میں پروفیسر باکا نے کمیٹی کو ای میل کی کہ یہ درست نہیں کہ انھیں پہلی اکتوبر 2007 سے 30 جون 2013 تک ماہانہ تنخواہ ملتی رہی ہے۔

اس کے بجائے وہ اس دورانیے میں صرف 10 مرتبہ پاکستان آئے جس میں انھوں نے کُل 316 دن پاکستان میں گزارے اور انھیں ہر دورے کے اختتام پر ویزا فیس، جہاز کے ٹکٹ اور گزارے گئے دنوں کے اعتبار سے تنخواہ ادا کی جاتی جو کہ ان کے مطابق 23 لاکھ 96 ہزار 300 روپے اور 9500 یورو تھی۔

اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں کبھی بھی ان کی تنخواہ کے بارے میں کوئی باقاعدہ دستاویز جاری نہیں کی گئی۔

اسی طرح فرانس سے تعلق رکھنے والے ریاضی دان پروفیسر الیگزاندرو ڈمکا کو سکول دستاویزات کے مطابق 19 نومبر 2004 سے لے کر 30 اکتوبر 2009 تک ماہانہ تنخواہ کی مد میں کُل 1 کروڑ 43 لاکھ 96 ہزار 989 روپے کی رقم جاری کی گئی۔

مگر انھوں نے کمیٹی کو اپنی ای میل میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے سنہ 2004 سے 2008 کے درمیان اے ایس ایس ایم ایس کا دورہ صرف پانچ مرتبہ کیا جس میں وہ ہر مرتبہ تقریباً دو ہفتے کے لیے وہاں رہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں ہر دورے کے لیے صرف چار ہزار ڈالر کا ’اعزازیہ‘ دیا جاتا یعنی انھوں نے کُل صرف 20 ہزار ڈالر کی رقم اے ایس ایس ایم ایس سے حاصل کی۔

جب بی بی سی نے اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر اللہ دتہ رضا چوہدری سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں یہ بات تھی کہ ادارے کے بھرتی کردہ زیادہ تر غیر ملکی پروفیسر کُل وقتی طور پر ادارے میں بذاتِ خود موجود نہیں ہوتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اس کے باوجود انھوں نے تمام پروفیسرز کو ماہانہ تنخواہیں جاری کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ ان کے مطابق یہ پروفیسر ادارے میں نہ ہوتے ہوئے بھی ادارے کے طلبا سے رابطے میں رہتے اور ان کے پی ایچ ڈی تھیسز مکمل کرنے میں مدد دیتے۔

ان کا کہنا تھا ’کچھ ذہین اور مشہور غیر ملکی اساتذہ کی کچھ ماہ کے لیے بھی اے ایس ایس ایم ایس میں موجودگی کسی اوسط ریاضی دان کی پورا سال موجودگی کے برعکس پاکستانی طلبا کے لیے زیادہ کارآمد ہوتی تھی۔‘

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی

پروفیسر الیگزاندرو ڈمکا نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ بات پہلے سے طے شدہ تھی کہ وہ صرف مختصر دورانیے کے لیے ہی پاکستان میں رہیں گے کیونکہ وہ فرانس کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں

مگر یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ پھر پروفیسرز کی جانب سے تنخواہیں موصول ہونے سے انکار کیوں کیا گیا ہے؟

جب یہ بات بی بی سی نے پروفیسر اللہ دتہ رضا چوہدری سے معلوم کی تو ان کا مؤقف تھا کہ زیادہ تر یورپی یونیورسٹیوں میں پروفیسرز پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ دوسری یونیورسٹی سے تنخواہ نہیں لے سکتے ورنہ ان کے اپنے ادارے سے ان کی تنخواہ رک جاتی ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ان پروفیسرز کو شاید اب تفصیلات یاد نہ رہی ہوں کیونکہ یہ معاملہ بہت پرانا ہوچکا ہے۔

ڈاکٹر چوہدری نے کمیٹی پر الزام عائد کیا کہ کمیٹی نے اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پروفیسروں سے اپنی مرضی کے مطابق جوابات حاصل کیے تاکہ اُن (ڈاکٹر چوہدری) کے خلاف رپورٹ بنائی جا سکے۔

مگر جب بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ اگر ان غیر ملکی اساتذہ نے تنخواہیں بند ہوجانے کے ڈر سے پاکستان میں اپنی ملازمت اپنے اپنے اداروں سے چھپائیں، تو کیا عبدالسلام سکول نے کبھی ان پروفیسرز سے یہ حلف نامہ طلب کیا کہ وہ یہاں غیر قانونی طور پر ملازمت حاصل نہیں کر رہے؟ تو ڈاکٹر چوہدری کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا کوئی حلف نامہ لینا ضروری نہیں سمجھا۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی

ایک اور پروفیسر دیومیترو ویرو کا کمیٹی کو لکھا گیا جواب

لیکن کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایچ ای سی سے ایس ایم ایس، اور اے ایس ایس ایم ایس سے غیر ملکی اساتذہ کے بینک اکاؤنٹس تک ماہانہ تنخواہیں باقاعدگی سے گئیں اور اساتذہ نے جانے انجانے میں دستاویزات پر دستخط کیے۔‘

’اس نے ڈاکٹر چوہدری اور اے ایس ایس ایم ایس سٹاف کو ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے بڑے گھوسٹ فیکلٹی پروگرامز میں سے ایک چلانے میں مدد دی جس سے پاکستانی ٹیکس دہندگان کو تقریباً 70 لاکھ امریکی ڈالر کا نقصان پہنچا۔‘

ڈاکٹر چوہدری اس الزام کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سنہ 2014 میں جب سکول سے گئے تو اکاؤنٹس میں 20 کروڑ روپے سے زائد کی رقم چھوڑ کر گئے۔

ایچ ای سی سے ریسرچ کی مد میں ملنے والی اساتذہ کے لیے فی محقق 10 لاکھ روپے کی گرانٹ میں سے بچ جانے والی رقم وہ ایچ ای سی کو واپس کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر چوہدری کے مطابق تمام غیر ملکی اساتذہ کے اکاؤنٹس حبیب بینک لمیٹڈ کی نیو مسلم ٹاؤن برانچ لاہور میں کھلوائے گئے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں منتقل کی جاتیں تھیں۔

بی بی سی کے پاس ڈاکٹر چوہدری کی دستخط شدہ کئی دستاویزات میں حبیب بینک لمیٹڈ کی مذکورہ برانچ کے مینیجر کو غیر ملکی اساتذہ کے اکاؤنٹس میں رقومات ٹرانسفر کرنے کے لیے کہا جاتا رہا ہے جس سے ان اکاؤنٹس کا وجود ثابت ہوتا ہے۔

مگر پروفیسرز کی جانب سے دستاویزات میں درج شدہ تنخواہوں کے نہ ملنے کا سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

اس سب میں جو چیز شبہات میں مزید اضافہ کرتی ہے وہ یہ کہ رپورٹ میں نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر پیٹر شینزل نے ریکارڈ پر یہ بات کہی کہ انھیں لگتا ہے کہ سکول کی ای میل میں دیا گیا تخمینہ درست ہے۔

مگر انھوں نے کہا کہ انھیں ’تدریس اور مقامی اخراجات کے لیے کبھی بھی واضح کنٹریکٹ نہیں ملا‘ اور یہ کہ انھوں نے اے ایس ایس ایم ایس سٹاف کی طرف سے پیش کیے گئے کئی سادہ [کاغذات] پر دستخط کیے تاکہ ’ان اخراجات کو کلیئر کیا جا سکے جو خود ان کے نزدیک مکمل طور پر واضح نہیں تھے۔‘

واضح رہے کہ سکول دستاویزات کے مطابق پروفیسر پیٹر شینزل کو 1 کروڑ 28 لاکھ 66 ہزار 887 روپے تنخواہ ادا کی گئی مگر انھوں نے کمیٹی کو اپنی ای میل میں کہا کہ وہ خود کو ملنے والی رقم کا درست تخمینہ نہیں لگا سکتے۔

یہ اس لیے ہے کیونکہ انھیں ادائیگی کیش کی صورت میں یوروز میں کی گئی۔

یہ بات ڈاکٹر چوہدری کے اس دعوے سے متضاد ہے کہ تمام اساتذہ کو ادائیگی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی اور پوری تنخواہ ادا کی گئی۔

بی بی سی نے پروفیسر پیٹر شینزل کو اس حوالے سے ای میل کرکے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی

ڈچ پروفیسر پیٹر شینزل کا کمیٹی کو لکھا گیا جواب جس میں وہ غیر واضح اخراجات اور سادہ کاغذ پر دستخط کی بات کر رہے ہیں

لیکن ایک اور غیر ملکی ریاضی دان پروفیسر نے بی بی سی کو بذریعہ ای میل رابطہ کرنے پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مندرجہ ذیل باتیں بتائیں۔ (واضح رہے کہ ان پروفیسر کو تقریباً آٹھ سال کے عرصے میں سکول دستاویزات کے مطابق کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔)

بی بی سی: کیا آپ خود کو ملنے والی تنخواہ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں؟

پروفیسر: تقریباً 70 ہزار ڈالر۔

بی بی سی: کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریکارڈز کے مطابق آپ کو لاکھوں ڈالر زیادہ ادا کیے گئے اور یہ فرق ‘انتہائی زیادہ ہے؟’

پروفیسر: جی ہاں، ان دونوں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔

بی بی سی: کیا آپ کو ادائیگی کیش میں کی گئی یا کسی اور ذریعے سے؟

پروفیسر: مجھے ادائیگی کیش میں کی گئی۔

بی بی سی: اگر آپ کے نام پر کوئی اکاؤنٹ موجود تھا تو کیا اپنے اکاؤنٹ کی چیک بک/اے ٹی ایم کارڈ ہمیشہ مکمل طور پر آپ کے پاس رہتی تھی؟

پروفیسر: نہیں۔

بی بی سی: کیا آپ کو واضح کنٹریکٹ ملا جس میں آپ کی خدمات کے عوض تمام معاوضے کی تفیصلات درج تھیں؟ کیا آپ کو یہ علم تھا کہ آپ کی ابتدائی تنخواہ اس وقت ماہانہ دو لاکھ 39 ہزار 250 روپے مقرر کی گئی تھی؟

پروفیسر: جی ہاں۔

بی بی سی: کچھ اساتذہ نے بیان دیا ہے کہ انھیں اے ایس ایس ایم ایس کے سٹاف نے سادہ کاغذات پر دستخط کے لیے کہا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ کبھی آپ سے ایسا مطالبہ کیا گیا ہو؟

پروفیسر: جی ہاں۔

بی بی سی: کیا آپ کو کبھی سٹاف نے یہ بتایا کہ وہ سادہ کاغذات پر دستخط کا مطالبہ کیوں کر رہے تھے؟

پروفیسر: سٹاف کو ہماری غیر موجودگی میں فوری ادائیگیاں کرنے کی ضرورت ہوا کرتی، مثلاً لاہور کے ڈیفینس میں ہمارے لیے کرائے پر حاصل کیے گئے گھروں کے کرائے کے لیے۔

بی بی سی: آپ اے ایس ایس ایم ایس میں ہر سال پورے سال کے لیے کیوں نہیں رہے؟ کیا ڈاکٹر چوہدری کو اس حوالے سے علم تھا اور وہ رضامند تھے؟

پروفیسر: میں بنیادی طور پر ایک اور یورپی یونیورسٹی سے منسلک تھا جہاں میں اس دوران پڑھاتا تھا۔ میں لاہور میں کچھ سالوں میں اے ایس ایس ایم ایس میں چھ ماہ یا اس سے بھی کم عرصہ رہا جس کی وجہ خاندانی مسائل (اہلیہ کی وفات) یا دہشتگردی کا خطرہ تھے۔ اس دوران میں اپنے پی ایچ ڈی طلبا سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے میں رہتا اور ان کے ساتھ مایہ ناز جرائد میں کئی سائنسی تحقیقی مقالے شائع کروائے۔

بی بی سی: کیا آپ کو اپنی یونیورسٹی سے اے ایس ایس ایم ایس میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت کی ضرورت تھی؟

پروفیسر: جی ہاں، یونیورسٹی نے اے ایس ایس ایم ایس میں ہماری سرگرمیوں کی منظوری دی تھی

بی بی سی کے استفسار پر ڈاکٹر چوہدری کی جانب سے اس بات سے واضح طور پر انکار کیا گیا ہے کہ اساتذہ میں سے کسی کو بھی سادہ کاغذات پر دستخط کے لیے کہا گیا تھا۔

کمیٹی پر جانبداری کا الزام

ڈاکٹر چوہدری کے مطابق یہ رپورٹ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عامر اقبال کے ان کے خلاف ذاتی عناد کا نتیجہ ہے جبکہ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمٰن، جن کے دور میں فارن فیکلٹی پروگرام شروع ہوا اور کئی سال تک اے ایس ایس ایم ایس کو فنڈز کی فراہمی جاری رہی، وہ بھی کمیٹی کو جانبدار تصور کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عامر اقبال خود بھی اسی ادارے میں اسی پروگرام کے تحت سب سے پہلے 2004 میں بھرتی کیے گئے اور 2008 تک کچھ کچھ عرصے کے لیے یہاں رہے جس کے بعد وہ امریکہ چلے گئے اور 2009 میں انھوں نے واپس آ کر لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں ملازمت اختیار کر لی۔

اس وقت ڈاکٹر عامر اقبال اس ادارے میں کنٹریکٹ پر کُل وقتی پروفیسر ہیں۔

ڈاکٹر چوہدری کا الزام ہے کہ انھوں نے ’کسی کو مطلع کیے بغیر اور کام ادھورا چھوڑ کر امریکہ جانے پر‘ ڈاکٹر اقبال سے ناراضگی کا اظہار کیا جس کے بعد سے وہ (ڈاکٹر اقبال) ان کے خلاف ہوچکے ہیں۔

مگر ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر چوہدری کو بتا کر امریکہ گئے تھے اور ’کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا‘ اور ان کے اس کے بعد بھی ڈاکٹر چوہدری سے نہ صرف اچھا تعلق رہا بلکہ ان کی کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں جس کے ثبوت میں وہ ڈاکٹر اللہ دتہ چوہدری کے ساتھ اپنے ای میلز کے تبادلے کو پیش کرتے ہیں جو بی بی سی کے پاس موجود ہے۔

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ اس پروگرام کے تحت ان کی تعیناتی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر عبدالسلام سکول آف میتھمیٹیکل سائنسز کے ڈائریکٹر جنرل کے علم میں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں خصوصاً اس پروگرام کے خلاف تحقیقات کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا جس میں وہ خود بھی تعینات رہ چکے ہیں بلکہ اس سے پہلے وہ ایک اور اندرونی تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی بھی کر چکے ہیں جس میں سکول کی جانب سے منعقد کروائے جانے والے ریاضی کے مقابلے انٹرنیشنل کینگرو میتھمیٹکس کانٹیسٹ میں مبینہ خورد برد کی تحقیقات کی گئی تھیں۔

ڈاکٹر چوہدری نے اسی پروگرام میں مبینہ فراڈ کا الزام عائد کرنے پر لاہور کی سیشن عدالت میں ڈاکٹر اقبال کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

سکول کی ویب سائٹ پر موجود اس رپورٹ میں بھی اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل اللہ دتہ رضا چوہدری کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے اور یہ رپورٹ ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کے مطابق قومی ادارہ برائے احتساب کو بھیجی جا چکی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فارن فیکلٹی پروگرام کے حوالے سے بھی رپورٹ بورڈ آف گورنرز نے نیب بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب جب بی بی سی نے ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان سے اس رپورٹ پر سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملہ تین ایچ ای سی چیئرمین اور تین ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز کے دور کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین ایچ ای سی براہِ راست مالی معاملات میں شامل نہیں ہوتا بلکہ یہ پروگرام پر عمل کرنے والے اداروں کا دائرہ کار ہوتا ہے جو کہ اس سلسلے میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر نیب نے تحقیقات کیں لیکن انھیں اس میں کچھ غلط نہیں ملا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اب بھی کوئی شکوک ہوں تو یہ معاملہ جی سی یو کے وائس چانسلر کی بنائی گئی ایک آزاد کمیٹی کے سپرد کرنا چاہیے جس میں غیر جانبدار اور مایہ ناز اکیڈمکس ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp