برطانیہ:’ہر پانچ میں سے تین بالغ افراد چھٹی لینے کے لیے بیمار ہونے کا بہانہ کرتے ہیں‘


بی بی سی کے ایک سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہر پانچ میں سے تین بالغ افراد چھٹی لینے کے لیے بیمار ہونے کا بہانہ کرتے ہیں۔

جب ایسے افراد کی اخلاقیات اور اقدار کے حوالے سے سوال کیا گیا تو لوگوں نے بیماری کے بارے میں جھوٹ بولنے، اپنے ساتھیوں کا کام چوری کرنے اور ان کے کاموں کا سہرا اپنے سر لینے کا اعتراف بھی کیا۔

سروے کے مطابق دفاتر میں نوجوان افراد اپنے سے بڑی عمر کے افراد کی نسبت زیادہ جھوٹ بولتے پائے گئے۔

برطانیہ کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق ہر برس اوسطاً ایک شخص چار دن بیماری کی مد میں چھٹی لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا جھوٹ بولنے سے سیکس ریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟

وہ ملازمتیں جہاں جھوٹ بولنا فائدہ مند ہو سکتا ہے!

نہ چھٹی، نہ تنخواہ، اور دنیا کی سب سے مشکل نوکری

سنہ 2018 میں چھٹی لینے کی بڑی وجوہات میں نزلہ زکام، کمر کا درد، دماغی حالت متوازن نہ ہونا اور ’دیگر‘ بیماریاں سرفہرست رہیں۔

تاہم حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں ’جھوٹ بولنے کی بیماری‘ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

چھٹی

سنہ 2018 میں چھٹی لینے کی بڑی وجوہات میں نزلہ زکام، کمر کا درد، دماغی حالت متوازن نہ ہونا اور ‘دیگر’ بیماریاں سرفہرست رہیں

برطانیہ میں کیے گئے اس سروے کے دوران 3655 بالغ افراد سے سوالات کیے گئے۔ یہ سروے تحقیقی کمپنی ’کامریس‘ کی مدد سے کیا گیا۔

ساتھیوں کے لیے ڈھال

یہ نتائج ایک بڑے سروے کا حصہ ہیں جس کے ذریعے یہ پتا چلانے کی کوشش کی ہے کہ برطانیہ میں لوگوں کا ’درست اور غلط‘ کا معیار کیا ہے۔

چھٹی کے لیے بیماری کا بہانہ کرنے کے علاوہ چند ملازمین اپنے ساتھیوں کے لیے ڈھال بننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، بعض اوقات یہ جانتے بوجھتے کہ ان کا ساتھی اپنی بیماری کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے۔

سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 66 فیصد لوگ اپنے باس کو کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ درحقیقت ان کا دوست بیمار نہیں بلکہ چھٹی کے لیے بہانہ بنائے ہوئے ہے۔

ماہر نفسیات ہیلے لوئس کہتی ہیں کہ آپ کو کافی ہمت درکار ہوتی ہے اپنے باس کو یہ بتانے کے لیے کہ آپ کو کام سے بریک چاہیے۔ اور اگر باس اور ملازم کا تعلق اچھا نہیں ہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملازم باس سے سچ نہیں بولے گا۔

ہیلے لوئس کہتی ہیں ’ایسا کہا جاتا ہے کہ لوگ ادارہ نہیں بلکہ باس کو چھوڑتے ہیں۔‘

چھٹی

ہم رول ماڈلز کی جانب دیکھتے ہیں۔ اگر آپ کے باس بلاوجہ زیادہ کام کر رہے ہیں، بریک نہیں لے رہے اور کھانا اپنی میز پر ہی کھا رہے ہیں تو ملازم کے ذہن میں یہ پیغام جائے گا کہ اسے باس سے ضروری بریک کی اجازت نہیں مانگنی چاہیے

انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اپنے باس کے رویے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

’ہم رول ماڈلز کی جانب دیکھتے ہیں۔ اگر آپ کے باس بلاوجہ زیادہ کام کر رہے ہیں، بریک نہیں لے رہے اور کھانا اپنی میز پر ہی کھا رہے ہیں تو ملازم کے ذہن میں یہ پیغام جائے گا کہ اسے باس سے ضروری بریک کی اجازت نہیں مانگنی چاہیے۔‘

ہیلے لوئس کہتی ہیں کہ ایسی صورتحال میں ملازم کے پاس صرف ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے اور وہ ہے بیماری کا ڈرامہ کرنا۔

مردوں میں خواتین کی نسب اس بات کا امکان دگنا ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کے کیے گئے کام پر اپنی تعریف کو پسند کرتے ہیں۔

جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو سٹیپلرز اور کاپیاں چوری کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

خواتین کے لیے کھڑا ہونا

کام کی جگہ پر (آفس) اس بات کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے کہ ملازم کی عمر جتنی چھوٹی ہو گی وہ اتنا ہی زیادہ ساتھی خواتین کی طرفداری کرے گا۔

سروے سے پتا چلا کہ 34 سال سے کم عمر ملازموں میں اس بات کا امکان بڑی عمر کے ملازموں سے دگنا ہوتا ہے کہ وہ خواتین کو درپیش کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مداخلت کریں گے یا اس حوالے سے اپنے سینیئر مینجر سے بات کریں گے۔

55 سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں ایسا کرنے کا تناسب صرف 16 فیصد پایا گیا۔

اگر کمپنی کا کوئی سینیئر اہلکار کسی نوجوان خاتون کے لیے نامناسب صنفی کلمات کہتا ہے تو 70 فیصد نوجوان ملازم اس کو رپورٹ کریں گے یا مداخلت کریں گے جبکہ 55 سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں یہ تناسب صرف آدھا رہ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp