کنوار (دلہن)۔


”واؤ مجید صاحب، آپ ڈبل ایم اے ہیں۔ اور اتنے سارے کورسز بھی، زبردست، آپ کی سادہ سی شخصیت دیکھ کے اندازہ ہی نہیں ہوتا نہ آپ اتنی عمر کے ہیں۔ “ وہ تیزی سے ٹائپ کرتے کرتے ٹھہر گئی اور توصیفی نظروں سے مجید کی طرف دیکھا۔ سلیقے سے تراشی گئی مونچھیں اور تازہ بنی ہوئی شیو میں بتیس سالہ مجید اپنی عمر سے کم از کم پانچ سال چھوٹا لگ رہا تھا۔

” جی میڈم ہم تو واقعی سادہ سے باراڑی (گاؤں ) کے لوگ ہیں یہ ڈگریاں تو بس ایسے ہی۔ “ مجید کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔

”ان فنڈ دینے والوں کو بڑی بڑی ڈگریوں سے مطلب ہوتا ہے انہیں ہمارے ’علاقے‘ کے مسئلوں کا کیا پتا۔ ہم یہ سب نہ لکھیں تو کیا کریں۔ مرنے دیں اپنی بیٹیوں کو؟ نہ پہنچائیں گھر گھر آگہی؟ “ مجید کے چہرے پہ تاریک سایہ سا لہرایا۔

” میرے بس میں ہو تو میں اپنی جیب سے خرچہ بھروں سب کا مگر مجبور ہوں، چھوٹے سے گاؤں کے ایک کمرے کے گھر میں رہنے والا کر ہی کیا سکتا ہے۔ “ اس نے جذبات میں ہونٹ بھینچ لیے۔

” آپ اب بھی بہت نیک اور ہمت والا کام کر رہے ہیں۔ اچھا مزید تفصیل بتا دیں تو می‍ں پراجیکٹ پروپوزل مکمل کردوں۔ فاروق صاحب آگئے تو نیا کام پکڑا دیں گے حالاں کہ خود ہی آپ کی ہیلپ کرنے کا کہہ کر گئے ہیں۔ “

اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مجید کا موبائل بجنے لگا۔ مجید نے کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگا لیا۔

” ہا مِحرَم علی۔ کاتھے؟ ٹھیک آ۔ می‍ں بس نکل رہا ہوں اُدھر کے ایس ایش او (SHO) کا نمبر میسج کردو میں یہاں شَہَر سے بھی ایک پولیس موبائل لیتا ہوا آؤں گا۔ “ وہ کال بند کر کے دوسرا نمبر ملانے لگا۔

”میڈم آپ اسے اپنے حساب سے بھر دینا میری تو انگریزی بس گزارے والی ہے۔ میں کل دوبارہ چکر لگاؤں گا۔ مہربانی“ اتنی دیر میں دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا اور وہ بات کرتا ہوا باہر نکل گیا۔

گاؤں کی چند گلیاں عبور کرتے ہی انہیں وہ گھر نظر آگیا، دروازے کے قریب ہی تین چار دائروں میں کوئلے پڑے تھے جن کے اردگرد کی زمین گیلی ہورہی تھی اور کچھ کوئلوں سے سفید دھوئیں کی لکیریں لہراتی ہوئی ہوا میں تحلیل ہورہی تھیں۔ دیوار پہ چند آدھی سی ڈوریاں ہوا سے ہلکے ہلکے لہرا رہی تھیں جنہیں بغور دیکھنے پہ اندازہ ہوتا تھا کہ رنگین جھنڈیاں شاید عجلت میں نوچی گئی ہیں۔ وہ پولیس والوں کے ساتھ اسی گھر میں گھستا چلا گیا۔

اندر بڑے سے صحن نما احاطے میں ایک طرف مویشی موجود تھے۔ فضا میں گوبر، گلاب اور بریانی کی ملی جلی بو بسی ہوئی تھی۔ ایک طرف چند درختوں کے نیچے کئی چارپائیاں بچھی تھیں جن کے اردگرد سستی بسکٹ پاپڑ کی تھیلیاں، اور گلاب کی پتیاں بکھری تھیں۔ ایک بمشکل سال بھر کا ادھ ننگا بچہ چارپائی کے سہارے کھڑا تھا اس کے کرتے کے رنگ کی ایک گیلی شلوار اسی چارپائی کے پائے پہ پڑی تھی۔ ایک چھ سات سالہ بچی اپنی جسامت سے کہیں بڑا میلا سا اسکارف زرق برق فراک پہ لپیٹے اس بچے کو عجلت میں اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی اور مر مڑ کے گھبراہٹ میں ایک دروازے کو دیکھ رہی تھی جس کی کنڈی آہستہ آہستہ جھول رہی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد وہ لوگ زرق برق کپڑوں میں موجود اس مجمع کے درمیان تھے۔

پولیس والوں نے سب سے پہلے نوٹوں کا ہار پہنے پچاس سالہ مرد کو گھیرے میں لیا اور ساتھ ہی اس کی بغل میں بیٹھے مولوی کوبھی۔

”اڑے کنوار کاتھے آ؟ (دلہن کہاں ہے؟ ) “
”بچی کہاں ہے اوئے؟ “ جواب نہ ملنے پہ ایس ایچ او نے دوبارہ ہوچھا۔

”سائیں یہ اٹھارہ سال سے بڑی ہے۔ اور ویسے بھی ہم صرف منگنی کر رہے تھے بچی کی مرضی سے۔ “ ایک تیز طرار دکھنے والی، ذرا بھاری جسامت کی عورت نے گوٹے کناری والے لباس میں موجود منحنی سے وجود کو اپنے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔

” اوئے مولوی بٹھا کے منگنی ہوتی ہے؟ پاگل سمجھا ہے مجھے؟ “ ایس ایچ او کو غصہ آگیا۔

ساتھ موجود لیڈی کانسٹبل نے بڑھ کے اس وجود کے چہرے سے دوپٹہ ہٹا دیا۔ چھوٹی سی ٹھوڑی پہ ہلکے بھرے بھرے گال لڑکپن کے اوائلی سالوں کا چیخ چیخ کے اعلان کر رہے تھے۔ لال لپ اسٹک سے رنگا چھوٹا سا دہانہ عجیب لگ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر دولہا، دلہن، دلہن کا باپ اور دولہا کا اس سے بھی ضعیف باپ مولوی سمیت پولیس موبائل میں موجود تھے۔ جتنی دیر میں مجید، محرم علی کے ساتھ بائیک پہ بیٹھا، موبائل تیزی سے آگے نکل چکی تھی۔ محرم علی بائیک اسٹارٹ کرنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے کسی نے مجید کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا۔

” کچھ زیادہ ٹانگ اڑانے لگے ہو تم گوٹھ کے معاملات میں۔ “ پیچھے علاقے کے جرگے کا بندہ کھڑا تھا۔ مجید بائیک سے اتر گیا۔
” سائیں میں تو بس اپنا رزق حلال کر رہا ہوں۔ “
”زیادہ شوق ہے تو بس اپنے علاقے تک کرو۔ “

”سائیں جہاں کا پراجیکٹ ہے کام بھی وہیں کرنا پڑتا ہے نا۔ “ مجید دھیمے سے مسکرایا۔
” یہ پراجیکٹ کے بہانے کسی اور سے کرنا۔ کیا فائدہ ڈونر کو نیا بندہ ڈھونڈنا پڑے پراجیکٹ پورا کرنے کے لیے۔ “

” سائیں اگر یہ دھمکی ہے تو یہ بھی کر کے دیکھ لیں۔ ویسے اس بار ماما شوکت کھڑا ہورہا ہے نا یہاں سے؟ ، ووٹ ضرور دیجیے گا۔ “ مجید نے آہستہ سے اس کا کندھا تھپتھپایا اور دوبارہ بائیک پہ بیٹھ گیا۔

جس وقت وہ اپنے پختہ دو منزلہ مکان میں داخل ہورہا تھا اسی وقت قریبی مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔

مجید کی بیٹی رخشندہ نے باپ پہ نظر پڑتے ہی اپنی پھولدار چادر سر پہ ٹکائی۔ اس کا چہرہ دیکھ کر مجید کو وہی دلہن یاد آگئی۔ ویسی ہی چھوٹی سی ٹھوڑی، ہلکے سے بھرے بھرے گال۔ وہ سر کی جنبش سے رخشندہ کے سلام کا جواب دیتا اندر بڑھ گیا۔ کمرے میں مجید کی بیوی الماری سے کچھ نکال رہی تھی۔ اس کی پشت دروازے کی سمت تھی سر سے دوپٹہ ڈھلکا ہوا تھا اور چاندی ہوتے بال واضح نظر آرہے تھے۔ آہٹ پہ اس نے پلٹ کے دیکھا اور مجید کو دیکھتے ہی سر دوبارہ ڈھانپ لیا۔

کھانا لگنے تک وہ مسلسل کسی سوچ میں تھا۔ دسترخوان لگا اور بیٹا ساتھ آکر بیٹھا تب وہ اپنے خیالات سے نکلا۔

وہ کھانا کھاتا جارہا تھا اور بیٹے سے دن بھر کی روداد سنتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ اسے کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ رخشندہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھا رہی۔ وہ پتا نہیں کیوں کھانا کھاتے کھاتے بیچین ہونے لگی تھی۔ دو نوالے کھا کے رکھ دیے۔

”بس میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے۔ اچھا نہیں لگ رہا کھانا۔ “

” کھانا پورا کر کے اٹھو۔ “ مجید نے بس اتنا کہنا مناسب سمجھا۔

رخشندہ نے مزید کھانے کی کوشش کی مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے کھانے کی خوشبو سے بھی کراہئیت آرہی ہے وہ ایک دم سب چھوڑ کے تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ چند لمحوں بعد ہی بیت الخلاء کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔

مجید کی نظریں وہیں سرخ نشان پہ جم گئیں جہاں سے رخشندہ اٹھ کے گئی تھی۔

اس نے موبائل نکال کے نمبر ملایا

”ہا مختیار بھائی، کیا حال ہے خوش ہیں؟ جی جی سب خیریت۔ خوش خبری ہے۔ جمعے کو اپنی امانت آکر لے جائیں۔ اور میری امانت کا بندوبست بھی کردیں۔ جی جی پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے فکر نہ کریں۔ “

جمعے کی دوپہر تین نکاح ہورہے تھے، رخشندہ کا، مجید کا اور پچھلے گاؤں میں ادھورا رہ جانے والا۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima