کراچی میں فینیزم کے موضوع پر مجوزہ مذاکرے کے پینل پر تنازع


مارچ

کراچی کی آرٹس کاؤنسل نے سوشل میڈیا پر سخت رد عمل کے بعد حقوق نسواں پر مجوزہ اپنے مذاکرے کا موضوع تبدیل اور مقررین میں خواتین کا اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان آرٹس کاؤنسل نے ‘فیمینزم ادر پرسپیکٹو‘ کے موضوع پر جمعے کو ایک مذاکرہ رکھا تھا، جس کی میزبان صحافی عظمیٰ الکریم ہیں جبکہ مقررین میں ہم ٹیلیویژن نیٹ ورک کے سی ای او دورید قریشی، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر، صحافی اور سماجی تجزیہ نگار محسن سعید، جیو نیوز کے ڈائریکٹر پروگرامنگ معاذ احسن اور فلم ڈائریکٹر نبیل قریشی شامل تھے۔

اس مذاکرے کے مقررین میں کوئی خاتون شامل نہ ہونے پر ٹوئٹر پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا، اس پروگرام کی میزبان عظمیٰ الکریم کا کہنا ہے کہ عوامی ناراضگی اور ان کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے مذاکرے کا موضوع ‘انڈر سٹینڈنگ فیمینزم ٹوگیدر‘ کر دیا ہے کہ ہم سب مل کر فیمینزم کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

عظمیٰ الکریم آرٹس کاؤنسل کی الیکٹرانک میڈیا شعبے کی سربراہ ہیں۔

ان کے ساتھ پینل میں مہتاب اکبر راشدی اور کترینا حسین کو شامل کیا گیا ہے۔ مہتاب اکبر راشدی بيوروکريٹ رہی ہیں اور کترینا حسین صحافی ہیں۔

مزید پڑھیے

’عورت مارچ میں شرکت پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی‘

‘عورت سے نفرت کو نارمل بنا دیا گیا ہے’

https://twitter.com/uzmaalkarim/status/1197153134684131328

عظمیٰ الکریم کا کہنا ہے کہ ’اس مذاکرے کا آئیڈیا یہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا میں جو فیصلہ کرنے والی حیثیت میں بیٹھے ہیں وہ فیمینزم کے بارے میں کیا جانتے ہیں کیونکہ یہ لوگ دیکھنے والوں کا ایک نکتہ نظر بناتے ہیں۔ دوسرا پوائنٹ یہ تھا کہ ہماری سوسائٹی کے مرد فیمینزم کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

‘مردوں کا فیمینزم پر نکتہ نظر کیا ہے تاکہ جب وہ اپنا نظریہ بتائیں تو بحیثیت عورت اس پر ہم بحث کرسکیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط، تو میں فیمینزم کا مفہوم مردوں سے سننا چاہتی تھی، یہی دوسرا رخ تھا، کیونکہ خواتین کا نکتہ نظر کیا یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہمیں مساوی حقوق چاہئیں۔‘

آرٹس کاؤنسل کو سوشل میڈیا نے موضوع تبدیل کرنے پر مجبور کیا، گذشتہ دو روز میں اس موضوع پر بحث جاری رہی، ٹوئٹر اس کا مرکز تھا۔

ٹوئٹر پر ایمن رضوی لکھتی ہیں کہ ’یہ مرد عورتوں اور نسوانیت کے بارے میں ‘دوسرا موقف’ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ معاشرے میں اپنے مقام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نسوانیت اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں لیکن کوئی اتحادی ایسے حمایت نہیں کرتا۔ ہاں، دوسروں کی جگہ پر حق مارنا ایسے ہی ہوتا ہے‘۔

https://twitter.com/Aimanfrizvi/status/1196749981991997440

ارم حیدر نے جبران ناصر اور محسن سعید کو ٹیگ کر کے لکھا ہے کہ ’جن مردوں کو میں جانتی ہوں جو فیمینسٹ ہیں انھیں اس پینل میں شامل ہونے پر شرمندہ ہونا چاہیے‘۔

جبران ناصر نے انھیں اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’مذاکرے کا موضوع گمراہ کن ہے‘ اور یہ کہ انھوں نے منتظمین کو اسے تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔

https://twitter.com/MJibranNasir/status/1197097652409815040

ان کا کہنا تھا ’مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پینل اس بارے میں ہے کہ بطور مرد ہم فیمینزم کیوں چاہتے ہیں، اس میں فیمینزم کی وضاحت کرنا اور خواتین کے اشوز پر بات کرنا شامل نہیں۔‘

انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر سے رابطہ کر کے جب یہ معلوم کیا گیا کہ کیا انھیں معلوم تھا کہ اس پینل میں کوئی خاتون موجود نہیں یا انھوں نے یہ معلوم کیا تھا؟ تو انھوں نے اس پر نو کمنٹس کہہ کر تبصرے کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ لوگوں نے کچھ اعتراض کیا تھا جس پر منتظمین نے کچھ تبدیلیاں کرلی ہیں اور وہ اس میں صرف مہمان ہیں۔

’ہیش ٹیگ مینل الرٹ‘

لاہور یونیورسٹی آف مینجنمنٹ سائنس کے شعبہ سماجیات کی پروفیسر اور حقوق نسواں کی سرگرم کارکن ندا کرمانی کا کہنا ہے کہ ’اس مذاکرے کا موضوع اگر یہ تھا کہ مردوں کا فیمینزم پر نکتہ نظر کیا ہے تو اتنا بڑا حساس معاملہ نہیں لیکن منتظمین نے اس کی وضاحت نہیں کی تھی اس لیے زیادہ رد عمل آیا۔

‘رد عمل اس وجہ سے بھی آیا ہے کہ ہم تنگ آگئے ہیں، اتنے پینل ہوتے ہیں جن میں مرد ہی ہوتے ہیں یا علامتی طور پر ایک خاتون کو شامل کردیا جاتا ہے، جو ہمیں ایک معمول سی بات لگتی ہے کہ صرف مرد ہی بات کریں، انھیں نہیں لگتا کہ عورتوں کی جو آواز ہے اس کو شامل کیا جائے۔‘

پاکستان میں حقوق نسواں کی تحریکیں گذشتہ چار دہائیوں سے جاری ہیں لیکن آبادی میں نوجوان نسل کے اضافے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے اس میں نئے رجحان سامنے آئے ہیں۔

پاکستان

اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو ملک بھر میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین کی بڑی تعداد مختلف شہروں میں باہر نکلی تاہم اس میں اٹھائے جانے الے بینرز پر لکھے نعروں پر بھی بہت تنقید دیکھنے کو ملی

ندا کرمانی کا کہنا ہے کہ ’نوجوان نسل پر سوشل میڈیا کا گہرا اثر ہے، وہ اس کا زیادہ استعمال بھی کرتی ہے۔ پہلے جب ایسی کوئی بات ہوتی تھی تو دو دوست یا چھوٹے گروہوں میں اس پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ ہماری سوچ تو اس وقت بھی یہی تھی لیکن اب جب ہم عوامی سطح پر یہ باتیں کر رہے ہیں تو اس میں بڑھاوا بھی ملتا ہے اور آپس میں رابطہ کاری بھی ہوجاتی ہے۔

’سوشل میڈیا پر ‘مینل‘ ٹرم ایک ہیش ٹیگ بن چکا ہے، جو پوری دنیا میں استعمال ہوتا ہے جب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی پینل ہے اس میں کوئی خاتون نہیں ہے تو اس کو ہیش ٹیگ ‘مینل‘ الرٹ کر دیتے ہیں۔ اس طرح مقامی معاملہ بین الاقومی سطح پر چلا جاتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp