جرمنی میں را کا مبینہ ایجنٹ جوڑا ’سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی کرتا تھا‘


جرمنی کی ایک عدالت میں دو انڈین شہریوں کے خلاف انڈیا کی انٹیلیجینس ایجینسی ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ (را) کے لیے سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی کرنے کے الزام میں مقدمے کا آغاز ہو گیا ہے۔

فرینکفرٹ کی ہائی کورٹ کی دستاویز کے مطابق، 50 برس کے منموہن اور ان کی 51 برس کی بیوی کنول جیت جرمنی میں رہنے والے سکھ اور کشمیری کمیونیٹیز کی جاسوسی کر کے فرینکفرٹ میں انڈین قونصلیٹ میں را کے ایک اہلکار کو اطلاعات فراہم کرتے تھے۔

جرمن قوانین کے مطابق جس طرح کے الزامات اس انڈین جوڑے پر عائد کیے گئے ہیں انھیں ایک برس سے دس برس تک کی سزا سُنائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کلبھوشن سے پہلے کتنے جاسوس

استغاثہ کے مطابق، منموہن نے سکھوں اور کشمیریوں کی معلومات ایک غیر ملکی انٹیلیجینس ایجینسی ریسرچ اینڈ اینیلیسز ونگ کے ایک اہلکار کو پہنچانے پر اتفاق کیا تھا۔

من موہن اور ان کی بیوی کنول جیت کو اس کام کے مبینہ طور پر ماہانہ 200 یورو ملتے تھے۔ ان کی گرفتاری تک انھیں را مبینہ طور پر کل ملا کر 7,200 یورو ادا کرچکی تھی۔

را کے ان مبینہ ایجنٹوں پر اس برس مارچ میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جرمنی کے قانون کے مطابق ان کے مکمل ناموں کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو صرف ان کے پہلے نام بتائے گئے ہیں۔

آج عدالت میں منموہن اور کنول جیت کی شناخت کے لیے ان کے نام اور دیگر معلومات پڑھی گئیں۔ اس کے بعد عدالت نے انھیں جرم قبول یا انکار کرنے کے لیے وقت دیا ہے۔

فرینکفرٹ کی عدالت کا تین رکنی بینچ اگلی سماعت 26 نومبر، 28 نومبر، تین دسمبر، دس دسمبر کو کرے گا اور امکان ہے کہ 12 دسمبر تک اس مقدمے کی سماعت مکمل کر لی جائے گی۔

انڈین اخبارات کے مطابق، جرمنی میں سکھوں کی دس ہزار سے بیس ہزار کی آبادی ہے۔ کسی سکھ یا کشمیری مظاہرے کی اطلاع بھی یہ پہلے سے انڈین قونصل خانے کو فراہم کرتے تھے۔

الزامات کے مطابق منموہن سنہ 2015 سے جاسوسی کر رہے تھے جبکہ ان کی بیوی کنول جیت اس کام میں سنہ 2017 میں شامل ہوئی تھی۔

منموہن کے خلاف گیارہ ٹیلیفون کالوں کی تفصیلات ثبوت کے طور پر پیش کی گئی ہیں جبکہ کنول جیت کے خلاف دو۔

جرمنی کے جاسوسی کے قانون کے مطابق، انٹیلیجینس یا جاسوسی کی سرگرمی کا مطلب جرمنی کے خلاف کسی غیر ملکی طاقت کو اطلاعات پہنچانا ہے جن میں حقائق، معلومات اور سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کسی غیر ملکی انٹیلیجینس ایجینسی کے درمیان ‘مڈل مین’ کا کردار اد کرنا یا اس کے کسی ‘مڈل مین’ سے اس سلسلے میں رابطہ قائم کرنا بھی جرم ہے جس کی سزا پانچ برس تک دی جاسکتی ہے۔

تاہم جرم کی سنگینی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مجرم کو ایک برس سے لے کر دس برس تک کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سنگین سمجھا جائے گا جب مجرم خفیہ معلومات غیر ملکی ایجینسی کو فراہم کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp