تسنیم کے خاندان کا راز: ’میرے باپ نے میری ماں کو قتل کیوں کیا؟‘


میرا بچپن خاصا مشکل تھا۔ میں اپنے نانا کے ساتھ رہتی تھی، اور جب پرائمری سکول میں تھی تو لوگ طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔ تم اپنے نانا کے ساتھی کیوں رہتی ہو؟ تمارے گھر والے کہاں ہیں؟ اصل میں ہوا کیا تھا؟

میں نہیں جانتی تھی کہ جواب کیا دوں۔ یہ تو کوئی جواب نہ ہوتا کہ ’ہیلو، میں ٹیز (تسنیم) ہوں، میرا باپ ایک قاتل ہے۔ تم مجھ سے دوستی کرو گی؟‘

جب میرے ابا، اطہر علی محمود، نے میری ماں کو قتل کر دیا، لیکن مجھے مرنے سے بچا لیا، تب میں 16 ماہ کی تھی۔ ابا نے مجھے ایک کمبل میں لپیٹا، اٹھا کر گھر سے باہر لے آئے اور باغ میں ایک سیب کے درخت کے نیچے لٹا دیا۔ اس آگ سے دُور جس میں میری والدہ لُوسی، ان کے پیٹ میں موجود بچہ، میری نانی لِنڈا لوئی اور میری خالہ سارہ، تمام جل کر مر گئے۔ لیکن میری ماں کو آگ میں مرنے کے لیے چھوڑنے کے بعد، میرے والد نے میری کوئی خاص پرورش نہیں کی۔

اگست 2000 میں شروپشائر کاؤنٹی کے ٹیلفرڈ نامی قصبے کے اس مکان میں آگ میرے والد نے ہی لگائی تھی۔ اگلے ہی سال ان کو عدالت نے تین افراد کے قتل کا مرتکب قرار دے دیا۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو مجھے لگتا نہیں تھا کہ میرے ماں باپ میرے والدین ہیں، میرے لیے وہ دونوں محض ایک کہانی تھے۔

اسی لیے جب 2018 میں مجھے اپنے پس منظر کے حوالے سے بی بی سی تھری کے لیے ایک دستاویزی فلم بنانے کا موقع ملا تو میں نے ہاں کر دی۔ میں اس بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی کہ آگ لگائی کیوں گئی تھی۔ میں اپنی ماں اور خود اپنی ذات کے بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی۔

مجھے لگتا ہے کہ میں لُوسی کی ہم شکل مگر گندمی رنگ کی لڑکی ہوں، کیونکہ میں جب ماں کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے ذہن میں ایک نوجوان لڑکی ہی آتی ہے۔ میں نے اس لڑکی کو کبھی ماں کے طور پر دیکھا ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ میں انھیں امی نہیں کہنا چاہتی۔ جب میں پیدا ہوئی تو لُوسی کی عمر 15 سال تھی، لیکن جب میں چھوٹی تھی تو یہ بات میرے دماغ میں آئی ہی نہیں کہ لُوسی اور میرے باپ کے درمیان رشتہ، کوئی صحیح رشتہ نہیں تھا۔ اگر میں کبھی سکول میں ان دونوں کے بارے میں بات کرتی تو لوگ کہتے ’یہ تو عجیب سی بات بتائی تم نے، ہے ناں۔‘

میں جواب میں کہتی ’نہیں اس میں کوئی اتنی عجیب بات بھی نہیں، اُن دونوں کے درمیان ایک رشتہ (ریلیشن شِپ) تھا۔‘ میرے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا تھا کہ میں ان دونوں کے رشتے کے بارے میں یوں ہی سوچا کروں۔ یہ چیز مجھے میرے گھر والوں نے سکھائی تھی، اور شروع شروع میں مجھے نہیں پتہ تھا کہ لوگ ایسے سوال کر کیوں رہے ہیں۔ میرے نانا کے ساتھ میرا رشتہ بہت گہرا ہے، لیکن اس کے باوجود میرا بچپن مشکل رہا ہے۔ وہ بھی اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو اس آگ میں کھو چکے تھے۔ میرے والد پر مقدمہ چلنے کے بعد، نانا نے ہی مجھے پالا پوسا ہے۔ لیکن جہاں تک میرے ماں باپ کے درمیان رشتے کا تعلق ہے، ہم دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔

لیکن اُن دنوں میرے نانا، اور کچھ اور لوگ بھی، عمر کے فرق والے رشتوں کے بارے میں مختلف سوچ رکھتے تھے۔ میرے لیے یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جب میں لُوسی کے پیٹ میں تھی، اس وقت وہ خود ایک بچی تھی۔ لیکن جن دنوں میں دستاویزی فلم بنا رہی تھی تو میرے نانا کو بھی یہ بات سمجھ آنا شروع ہو گئی۔ وہ مجھ سے پوچھا کرتے کہ (رشتوں میں) ٹھیک رشتہ کیا ہوتا ہے اور کیا غلط ہوتا ہے۔ نانا کو یہ بات سمجھانا مشکل تھا، لیکن اب میں سمجھتی ہوں کہ اس قسم کے مسائل پر نانا اور میرے درمیان کسی حد تک اتفاق ہو گیا ہے۔

تسنیم

جب میں دستاویزی فلم بنا رہی تھی تو لُوسی کی کچھ دوستوں سے بھی ملی۔ جب لُوسی میرے باپ سے ملی تو اس وقت وہ بچی تھی، اپنی دوستوں کی طرح۔ یہ تو اب وقت گزر چکا ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ میرے باپ اور لُوسی کا رشتہ غلط تھا۔ لُوسی کی سہیلیوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ اُن دنوں میں اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا اور اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں سے ملنے ملانے کو ’کُول‘ سمجھا جاتا تھا۔ اگر لُوسی کی سہیلیوں کو نظر نہیں آیا کہ اُن دونوں کے درمیان کیا چل رہا تھا، تو ہو سکتا ہے کہ لُوسی بھی یہی سمجھتی ہو۔

یہ اتوار 11 مارچ 2018 کا دن تھا، ماؤں کا عالمی دن، جس دن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں ان چیزوں کے بارے میں سوچنے لگی جو مجھے میرے والدین کے بارے میں بتائی گئی تھیں۔ اس روز اخبار ’سنڈے مِرّر‘ کے صفحہ اوّل پر لُوسی کی ایک تصویر شائع ہوئی تھی۔ پہلی نظر میں مجھے اور میرے گھر والوں کو بالکل سمجھ نہیں آئی کہ یہ تصویر کیوں شائع ہوئی ہے۔ لیکن جب میں نے مضمون دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید کسی وجہ سے اخبار نے آگ والے واقعے کی خبر دوبارہ شائع کی ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔

تسنیم

اس وقت تک میرے خاندان، اور برطانوی معاشرے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرے ماں باپ کی کہانی سے منسلک بہت کچھ اور بھی ہے۔ اور اب جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا، اور ہمیں دکھائی ہی نہیں دیا۔

سنڈے مِرّر نے اپنی اس تحقیقاتی خبر میں بتایا تھا کہ سنہ 1980 کے عشرے میں ایک اندازے کے مطابق کم و بیش ایک ہزار بچوں کو ورغلا کر جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ خبر میں لکھا ہوا تھا کہ میرے باپ نے کیسے لُوسی کو اس وقت سے بہلا پھسلا کر اپنے قابو میں لینا شروع کر دیا تھا جب وہ صرف 14 سال کی تھیں۔ اس کے ساتھ جن دوسری لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا انہیں بھی دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ اگر انہوں نے زبان کھولی تو ان کا بھی ’لُوسی جیسا انجام‘ ہوگا۔

یہ پڑھ کر شروع میں تو میں بالکل ہکّا بکّا رہ گئی۔ جب آپ کو کوئی کہانی پڑھا دی جاتی ہے، تو آپ کو وہی کہانی معلوم ہوتی ہے، آپ اسی کہانی کو (سچ) سمجھتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ صرف یہی ایک کہانی درست ہو سکتی ہے۔ وہ خبر پڑھنے سے پہلے تک میں اپنے والدین کے بارے میں یہی سوچتی تھی کہ شاید ان دنوں عمر کے فرق کے باوجود (محبت کے) رشتے ہوتے تھے۔ لیکن جب اخبار میں مجھے ایک مختلف کہانی پڑھنے کو ملی تو پہلے میں نے سوچا کہ ’نہیں ایسا نہیں ہوا ہوگا، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اخبار کو غلطی ہوئی ہے۔‘ اس سارے معاملے کو مکمل طور پر ایک نئے زاویے سے قبول کرنا، میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اور یہ بات میری اپنی ذات سے بھی منسلک تھی۔ مجھے اس نئے زاویے کو قبول کرنے میں خاصا وقت لگا۔

اس تفصیلی خبر کی وجہ سے میں اپنے ماضی کی ہر چیز کے بارے میں سوال اٹھانے لگی اور میرے لیے ضروری ہو گیا کہ میں اپنے ماضی کی مزید تحقیق کروں۔ کیا مجھے کوئی اشارے مل سکتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے میں نے ان دستاویزات کو پڑھنا شروع کر دیا جو میرے والد پر چلنے والے مقدمے سے متعلق تھیں۔

عدالتی سماعت کے ریکارڈ کو پڑھ کر میری الجھن یا کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان دستاویزات میں میرے والد اور لُوسی کے درمیان عمر کے فرق کا ذکر موجود تھا، لیکن لگتا تھا کہ لوگوں نے سماعت کے دوران اس پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ یہ فرق کوئی دو یا تین سال کا نہیں تھا، بلکہ تقریباً دس برس کا تھا۔ میری ماں کی ایک سہیلی کے مطابق میرا باپ میری والدہ کے جسم کا معائنہ کر کے دیکھا کرتا تھا کہ وہ کہیں دوسرے مردوں کے پاس تو نہیں گئی تھی۔ وہ میری والدہ کو فون کر کے کہتا کہ ’میں نے تمہارے پیچھے آدمی لگائے ہوئے ہیں جو تم پر نطر رکھے ہوئے ہیں‘۔ یہ شکوک پائے جاتے تھے کہ ان دنوں میری ماں مقامی چرچ کے پچھواڑے میں دوسرے مردوں کے ساتھ سیکس کرتی تھی۔ چونکہ مقدمے کی کارروائی میں اس پہلو کو نہیں دیکھا گیا تھا، اس لیے ہمیں معلوم نہیں یہ کسی پورے گروہ کے ساتھ سیکس (گینگ سیکس) تھا یا کئی مرد لُوسی کو زبردستی اپنی جنسی تسکین کے لیے استعمال کر رہے تھے۔

اس حوالے سے میں اپنے نانا کے ساتھ کئی مرتبہ بات کر چکی ہوں۔ میں ہر بار ان سے یہی سوال کرتی کہ انھوں نے اس چیز کو روکا کیوں نہیں؟ وہ کیوں یہ سمجھتے تھے کہ میرے والد اور والدہ کے درمیان تعلق ایک معمول کا رشتہ تھا؟

نانا کا جواب ہوتا کہ انھوں نے کبھی ’میرے باپ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔‘ تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ لُوسی اور میرے والد کے درمیان بہت تکرار ہوا کرتی تھی۔ میں نے نانا سے پوچھا کہ اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ وہ میری ماں سے سیکس کا مطالبہ کرتا تھا۔

نانا کے بقول ’وہ اوپر والی منزل پر بہت جایا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ریپ، ریپ کا شور سنا۔ میں بھاگتا ہوا اوپر گیا، اور ٹھوکر مار کر دروازہ کھول دیا، وہ بھاگتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے اترا اور باہر نکل گیا۔ ہماری پڑوسن کا بوائے فرینڈ اس کے پیچھے بھاگا۔‘

میں نے نانا سے پوچھا کہ کسی نے یہ بات پولیس کو کیوں نہیں بتائی؟

’مجھے نہیں پتہ آیا وہ مدد کے لیے آواز دے رہی تھی۔ اگر وہ ہمارے پاس آتی تو ہم کچھ کر لیتے۔‘

’آپ اور لِنڈا نے اُسے ریپ ریپ کا شور مچاتے سنا، لیکن کچھ نہیں کیا۔ یہ تو (جنسی) استحصال ہو رہا تھا۔ مجھے یہ بات سوچ کر دُکھ ہوتا ہے۔‘

مجھے یہ چیز بھی پریشان کرتی ہے کہ اس کہانی میں اتنے زیادہ الزامات ہیں اور اتنے سوالات ہیں لیکن ان کے جواب نہیں ہیں۔ چونکہ میں اپنی ساری کہانی کو سمجھنا چاہتی تھی، اس لیے میرے لیے ضروری تھا کہ میں ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کروں۔

میں سمجھتی ہوں کہ میرے نانا کو بھی بہت پچھتاوا ہے اور وہ دلگرفتہ ہیں کہ وہ اور لِنڈا بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ اس زمانے میں معاشرے میں ہر کوئی یہی محسوس کر رہا تھا۔ کسی کے پاس اس قسم کی چیزوں سے نمٹنے کی تعلیم نہیں تھی۔ اگر میرے نانا نانی کچھ قدم اٹھا بھی لیتے تو کیا سرکاری اہلکار (پولیس، سوشل سروسز وغیرہ) اُن کی باتوں پر کان دھرتے؟

میں یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ میرے ابا کے احساسات کیا تھے۔ کیا وہ شرمندہ تھے؟ آگ لگانے کے واقعے کے بارے میں کیا سوچتے تھے؟ جب میں سولہ سال کی تھی تو میں ان سے ملنے جیل گئی تھی۔ یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا۔ میں اس سے پہلے بھی ان سے ملنے جا سکتی تھی، لیکن عدالتی حکم کی وجہ سے میں 16 برس کی عمر سے پہلے ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ میں صرف ان سے ملنا چاہتی تھی، ہلکی پھلکی بات کرنا چاہتی تھی اور ان کی صورت حال کو سمجھنا چاہتی تھی۔ میں ان سے مل کر (جیل میں) ان کے مشغلوں کے بارے میں جاننا چاہتی تھی، ان کی پسند ناپسند، ان کی شخصیت کو سمجھنا چاہتی تھی اور یہ بھی کہ میں خود کہاں سے آئی تھی۔ میں ان کے بارے میں اپنی رائے ان کی شخصیت کی بنیاد پر بنانا چاہتی تھی، نہ کہ ان دنوں کے واقعات کی بنیاد پر۔

تسنیم

تسنیم اپنی والدہ کے سکول کے دنوں کی ڈائری ہاتھ میں لیے ہوئے۔ یہ ڈائری پولیس کی تحویل میں تھی۔

میں اب ان کے بارے میں کیا سوچتی ہوں، یہ چیز مجھے سمجھ نہیں آتی۔ یہ کوئی سیاہ یا سفید جیسی بات نہیں ہے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے سوالوں کے جو جواب دیے وہ ایسے نہیں تھے جنھیں آپ مکمل جواب کہہ سکیں۔ مجھے ان جوابوں کو (ذہن میں) تقریباً ریکارڈ کرنا پڑا اور پھر بار بار ذہن میں دُھرا کر مجھے وہ باتیں سمجھنا پڑیں جو انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہیں تھی۔ کچھ چیزوں کے بارے میں انھوں نے کھل کے بات کی اور کچھ کے بارے میں نہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ میں پوچھ کیا رہی تھی۔ لیکن میں خوش ہوں کہ میں ان سے ملاقات کے لیے گئی۔ مجھے یہ کام کرنا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے زیادہ سے زیادہ باتیں بتاتے، لیکن کئی باتوں پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

میں سمجھتی ہوں کہ یہ نظامِ انصاف کی ناکامی ہے کہ اس نے میرے باپ کے خلاف تین افراد کے قتل کے علاوہ ان جنسی جرائم پر مقدمہ نہیں چلایا جس کا شکار اُس نے میری والدہ کو بنایا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کے ہر جرم پر الگ الگ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ میں نے اس بات پر غور کیا اور پولیس سے بھی پوچھا کہ میرے والد کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا، لیکن پولیس افسر ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں دے سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ نئے ہیں اور جب مقدمہ چل رہا تھا تو وہاں پر موجود نہیں تھے۔ سچ پوچھیں تو میں نے ان افسران کو زیادہ مددگار نہیں پایا، لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اگر وہ مجھے کچھ بتاتے تو وہ پولیس کے ان قوانین سے روگردانی کرتے جن کے تحت وہ ہر بات لوگوں کو نہیں بتا سکتے۔

لیکن اس کے باوجود میں بہت مشکور ہوں کہ افسران نے لوُسی کی ذاتی استعمال کی کچھ چیزیں ہمارے حوالے کر دیں۔ مجھے ان کی ذاتی ڈائریاں بھی مل گئیں، جو شاید آج سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھیں۔ یہ ڈائریاں پڑھنے کے بعد میں خود کو اپنی ماں کے زیادہ قریب سمجھتی ہوں کیونکہ ان ڈائریوں سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میرے ابا کس قسم کی چیزوں میں ملوث تھے۔

اب میرے ابا کو قانون کے تحت عارضی رہائی مل سکتی ہے۔ قانون کے تحت آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص قید ہو اور آپ اس پر کوئی نیا جرم عائد کر دیں۔ میں یہ بات سمجھ سکتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ان دنوں کے نظام اور معاشرے کی ناکامی ہے کہ میرے والد کو ان زیادتیوں کا مرتکب نہیں قرار دیا گیا جو انھوں نے میری ماں کے ساتھ کی تھیں۔

یہ وقت میرے لیے بہت مشکل اور درد بھرا وقت تھا، لیکن بی بی سی کے لیے دستاویزی فلم بنانے کے عمل کے بہت سے مثبت اثرات بھی ہوئے۔ میں لُوسی کے زیادہ قریب ہو گئی اور اب میں اپنے پس منظر اور اپنی شناخت کے بارے میں بہتر علم رکھتی ہوں۔ میں اپنے نانا کے بھی زیادہ قریب ہو گئی ہوں۔ اب میں بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات کو بھی بہتر سمجھتی ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں اب لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہوں۔

فی الحال میں صرف ان معاملات کو ذہن سے نکالنا چاہتی ہوں اور خود اپنی ذات اور اپنی ذہنی صحت پر توجہ دینا چاہتی ہوں لیکن میں مستقبل میں بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرسکتی ہوں۔

میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر کسی ایسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن میری امی کے ساتھ جو ہوا اس نے میری سمجھ بوجھ میں بہت اضافہ کر دیا۔

میں لُوسی کی وہ آواز بن سکتی ہوں جو اسے کبھی نہیں ملی۔

ویسٹ مرسیہ کی پولیس نے اس پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔

تسنیم لو نے یہ گفتگو بی بی سی کی نامہ نگار تھیا ڈی گیلیئر کے ساتھ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp