لکھنو کا وقار ملک!


\"waqarگذشتہ کالم ’پانچ بج کر سترہ منٹ…. انتظار کرو‘ پر سوشل میڈیا میں ایک تبصرہ نظر سے گزرا۔ یہ تبصرہ بہت ہی دلچسپ ہے بالخصوص ہمارے معاشرتی رویوں اور سیکھنے کی رفتار کے حوالے سے۔ لیکن پہلے تبصرہ پڑھئیے۔
”جانے کب ہوں گے کم ، اس دنیا کے غم۔ اب ہم اپنوں کے مارے جانے پر روئیں یا اس لڑکی کے ذبح کئے جانے کا ماتم کریں ؟ کوئی امید دلاتی پوسٹ لکھی ہوتی تو دل میں امنگ جاگتی ، دہشت گردوں سے مقابلے کا عزم بیدار ہوتا۔ ایسے مرثیے لکھنے سے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ میر انیس اور دبیر ایسے مرثیے لکھ کر قوم کو رلاتے رہے اور جب قوم کی آنکھ کھلی تو انگریز ملک پر قابض ہو چکے تھے۔ یہ وقار صاحب بھی لکھنوی لگتے ہیں مجھے تو…. “
تعلق اگر جائے پیدائش اور ایسی جگہ کانام ہے جہاں انسان پل کر بڑا ہوتا ہے تو میرا تعلق تلہ گنگ کے اعوانوں سے ہے یا بقول سید ضمیر جعفری محمد خانوں کی سرزمین سے ہے۔ سات پشتوں سے پیشہ سپہ گری ہے، پیشہ بھی ایسا لگا بندھا کہ کسی میں تخلیقی جرثومے کا شائبہ ہو بھی تو فوج میں شمولیت لازم تھی چاہے بعد میںکوئی محمد خان، کرنل محمد خان جیسا نابغہ بن جائے۔
انسانی تاریخ میں عقل و جذبات کی کشمکش آپ کے سامنے ہے، اہل خرد عقل کی وکالت کرتے نہیں تھکتے اور جذبات کے حامی عشق سے ایک ہی جست میں سفر تمام کرنے کی تمنا دل میں لیے بیٹھے ہیں۔ سائنس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کم از کم بطور آلہ یہ تعصبات سے بالا ہوتی ہے۔
علم نفسیات ان معاملات پر کیا رائے رکھتا ہے؟ اور جذبات اور عقل کو دماغ کی حیاتیاتی میکانیت میں کیا مقام دیتا ہے؟
پہلے دو عام فہم مثالیں دے سکتا ہوں۔
کسی بھی معاشرے کی مجموعی عقل کو ماپنے کے بڑے زبردست پیمانے ہوسکتے ہیں ، آپ نے اپنے ارد گرد بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا ، بالخصوص جب وہ کسی بچے کو کھیلتا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ’واہ کیا بادشاہی عمر ہے۔کوئی فکر نہیں۔بس جی عمر یہی ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آپ نے آس پاس بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہو گا ، خود نہیں کہا ہو گا کہ آ پ تو ذہین آدمی ہیں۔
اب یہ فقرہ میں جب بھی سنتا ہوں یقین جانئے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ جس معاشرے میں empathy کا یہ مقام ہو، وہاں جلد کسی بہتری کی امید کیوں کر باندھی جا سکتی ہے۔ (میں لفظ empathy کو اسی طرح انگریزی میں لکھنے پر مجبور ہوں کہ اردو میں اس کا نعم البدل نہیں ہے، ہمدردی اور احساس قریب ترین الفاظ ضرور ہیں لیکن empathy ایک سائنسی ترکیب ہے جس کا تعلق Mirror Neurons سے ہے)
بچے کے متعلق اس طرح کے فقرے کے پیچھے چھپے فکری مغالطے کو سمجھنے کے لیے ماہر نفسیات ہونا ضروری نہیں۔ فقط اگر آپ کے تجربات کے تنوع میں اضافہ ہو اور آپ زندگی کو دوسرے کی نظر سے دیکھنے کے اہل ہو جائیں تو یہ فکری مغالطہ دور ہو جاتا ہے۔
انسان کی تین عمروں کو فرض کر لیں۔ یہاں ساتھ ہم یہ بھی فرض کر رہے ہیں ان کی پرورش ایک نارمل ماحول میں ہوئی ہے جہاں علم پر کوئی پابندی نہیں ہے اور سیکھنے کا عمل جاری ہے۔ ایک انسان کی عمر چار سال ہے۔ایک انسان کی عمر چالیس سال ہے اور ایک انسان کی عمر ایک سو بیس سال ہے۔
چار سالہ انسان (بچے) کا ایک کھلونا ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ رو رو کر ہلکان ہورہا ہے۔ اس کے نزدیک دنیا ختم ہو چکی ہے اور جینے کا کوئی متبادل نہیں رہا۔ بچے کا دکھ (جذباتی شدت) انسانی عمر میں سب سے بڑا دکھ ہے۔ تجربات کے نتیجے میں ہم متبادل راستوں کا علم سیکھتے ہیں لیکن چار سال میں یہ تربیت نہ ہو نے کہ برابر ہوتی ہے۔ اس کو فرائیڈ سگمنڈ کی اصطلاح میں یو ں جانیے کہ بچہ ایک مکمل اِڈ ID ہوتا ہے۔ اسی ID کا کچھ حصہ ایغو (Ego) بن رہا ہوتا ہے اور متبادل راستے دکھانے والے سپر ایغو  Super Ego کے پاس ڈیٹا تقریبا صفر ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے بچے کے دکھ کا۔ یہی بچہ یا بچی ٹین ایج میں محبوب کی کسی اور جگہ منگنی پر قتل اور خود کشی کرنے سے نہیں چوکتے۔
چالیس سالہ انسان بچے کو دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ بھلا ایک کھلونے کے ٹوٹنے پر اس قدر رونے کی کوئی منطق ہے؟
آپ کو معلوم ہے آپ اس بچے کی ہتک اور بے عزتی کر رہے ہیں سائنسی حوالے سے اس کی عزت نفسSelf Esteem کو بری طرح مجروح کر رہے ہیں۔
آپ ہنستے ہوئے بہت بد تر لگ رہے ہیں (میں لکھنے لگا تھا آپ ہنستے ہوئے جانوروں سے بد تر لگ رہے ہیں۔اچانک آنکھوں کے سامنے شریف گدھا، معصوم خرگوش ، مغرور مور، عبادت گزار بگلا ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئے کہ جناب ہم نے کیا کیا ہے؟)
بہر حال آپ بہت برے لگ رہے ہیں کہ دکھ کی اس شدت کا جو اس عمر میں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، مذاق اڑا رہے ہیں۔
چالیس سالہ انسان کے دکھ کی شدت کیا ہو سکتی ہے، کار چوری ہو گئی۔ ٹینشن ہو گئی۔ شدید پریشانی لاحق ہو گئی۔ ہو سکتا کھانے پینے کو بھی دل نہ کرے لیکن چالیس سالہ تجربے نے آپ کو سکھا دیا ہے کہ زندگی رکتی نہیں ہے۔ آپ متبادل سوچنے لگتے ہیں۔  super ego  آپ کو خواب میں ایسے اشارے دینے لگتا ہے جس سے پریشانی میں کمی ہو۔
اب آئیے ایک سو بیس سالہ شخص کی طرف۔وہ چالیس سالہ شخص کو ایک بچے کی طرح ہی دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کار کا چوری ہونا بھی کوئی پریشانی ہے۔ کار چوری ہوئی تو کیا ہوا؟ اصل پریشانی تو یہ ہے کہ کوانٹم سطح پر کلاسیکل فزکس کے قوانین کی دھجیاں اڑ گئیں ہیں۔
نیوٹن سے آئن سٹائن تک سب پریشان کھڑے ہیں۔ جن قوانین کو بنیاد بنا کر جبریت کے حق میں دلائل اکھٹے کیے تھے اور گردن میں ایک سریا آگیا تھا اور انسان کے اختیار اور Free Will  کو چیلنج کر دیا تھا۔ سب ہوا ہو رہا ہے۔
کمال ہے یہ کار کی چوری پر پریشان ہے۔
اس مثال سے نتیجہ کیا نکلا۔ علم صرف’ معلومات‘ میں اضافہ کا نام نہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے جذبات اور عقل کے تعامل سے پیدا ہونے والی empathy ضروری ہے جو پیدا ہوتی ہے تجربات میں اضافے سے اور اس کا بہترین ماخذ ادب ہے۔
دوسری مثال کی جانب آئیے۔ میں یہاں سے مری جانا چاہتا ہوں۔ مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا مجھے مری جانا چاہیے؟
میں یہ فیصلہ کرنے کے لیے عقل کی جانب رجوع کرتا ہوں۔ مری جانے میں کیا مسائل ہیں اور کیا فائدے ہیں۔
کمال بات یہ ہے کہ عقل سیکڑوں برس تک بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ بظاہر تو موٹی باتوں سے شروع ہو گی لیکن جذبات کی غیر موجودگی میں لامتناہی ڈیٹا میرے سامنے لا کھڑا کرے گی۔
اور لامتناہی میں لغوی معنوں اور ریاضیاتی معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ آپ قیامت تک یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ آپ کو مری جانا چاہیے یا نہیں۔
کالم کی حدود زیادہ تفصیلات میں جانے کی اجازت نہیں دیتیں لیکن آپ کو اپنی عقل پر اعتبار ہو تو مجھے ضرور ملیے اور مری جانے کا عقلی فیصلہ کر کے دکھائیے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف عقل سے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں مجھے اس کے لیے جذبات بہر صورت چاہییں۔
معذرت کے ساتھ اب تھوڑی سی تکنیکی اصطلاحات استعمال کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
Amygdala غصہ، تشدد ، خوف اور مایوسی جیسے جذبات کا مرکز ہے۔ اگر یہ حصہ نکال دیا جائے یا یہ صحیح کام نہ کر رہا ہو تو hypersexuality ، hyperorality اور behavior disinhibited کا باعث بنتا ہے۔ کچھ یہی اثر اس وقت ہوتا ہے جب آپ Benzodiazepines استعمال کرتے ہیں جو gamma-aminobutyric acid کے اثرات بڑھا دیتا ہے اور اسی طرح الکحل کے اثرات ہوتے ہیں۔
ضمیر کسی حد تک empathy کے نزدیک ایک جذبے کا نام ہے یا یوں سمجھئے الارم ہے جو ہمیں بے سکون کر دیتا ہے۔ ہمیں اس بے سکونی میں الکحل مدد دے سکتی ہے Benzodiazepines مدد دے سکتی ہے اور…. ایسا بیان مدد دے سکتا ہے جو ہمیں بری الذمہ قرار دے دے۔
جس معاشرے میں ایسے بیان کی کثرت ہو جائے وہاں بالعموم empathy کم ہو جاتی ہے۔
ایسا بیان بغیر کسی اور جاندار جذبے کی مدد کے بے اثر ہوتا ہے لیکن جس طرف میرا اشارہ ہے اس بیان کے ساتھ خوف نتھی کر دیا جاتا ہے جو دماغ میں راہ ہموار کرتا ہے اور معاشرے میں ایسے بیانات کے ہاضمے کے بعد آپ کو ایک بے عملی کی تصویر نظر آتی ہے۔
دہرے معیارات نظر آتے ہیں۔
میرے ایسے تمام مضامین جن میں آپ کو جذبات نظر آئے ان کے پیچھے ایک خاص مقصد کارفرما تھا۔ میں اپنی تحریر میں کچھ ایسے مقامات ڈالتا ہوں جہاں قاری میں empathy پیدا کرنا ہوتی ہے تا کہ وہ درد کی شدت کو محسوس کر سکے۔ مثال کے طور پر خلطی حوریہ کہتی ہے کونسی بیٹی ذبح ہوئی؟ لیکن میں نے اپنے پاس سے فقرے ڈالے کہ آخر کونسی والی۔وہ جو بچپن میں شرارتی تھی اور بڑی ہو کر سنجیدہ ہوئی یا وہ جو بچپن میں سنجیدہ تھی اور۔وغیرہ وغیرہ۔ تاکہ آپ اس واقعہ کو اپنی اولاد سے متعلق کر سکیں
کہانی کو بیان کرنے کا صحافیانہ مقام اور ہے۔ لیکن گہری نفسیاتی تبدیلیوں کے لیے ادبی کا وش کا مقام اور ہے۔
باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم اپنوں کو روئیں یا ایمل زینون کو۔
سیاسی تقسیم کے نتیجے میں بنی سرحدوں پر کوئی کیا کہے؟ آپ نیچے کی طرف جائیں تو اپنے گا?ں سے بڑھ کر کیا سوچنا۔ گا ﺅں ہی کیا، محلے سے باہر انسان کیوں نکلے؟
ساری بات کینوس کی ہے۔ آپ کا کینوس کس قدر وسیع ہے۔ ایک باقاعدہ نفسیاتی تحقیق ان سائنس دانوں پر ہو ئی جو خلا یا چاند پر گئے اور انہوں نے وہاں سے زمیں کو دیکھا۔ تحقیق کا مرکز یہ تھا کہ ان پر کیسے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ cognitive shift ہوا اور اس تحقیق کو overview effect کا نام دیا گیا۔
آپ کی دلچسپی کے لیے۔ Russell Schweickartکا یہ جملہ پڑھئیے۔
\”That makes a change. You look down there and you can\’t imagine how many borders and boundaries you cross, again and again and again, and you don\’t even see them. There you are — hundreds of people in the Mideast killing each other over some imaginary line that you\’re not even aware of, and that you can\’t see.\”

آخر پر ایک جملہ لکھنا چاہوں گا۔ اس overview effect کے لیے آپ کا خلا میں جانا شرط نہیں۔ انسانی دماغ کی صلاحتیں ایسی کمال ہیں کہ اکیلے کمرے میں بیٹھ کر آپ یہ حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر الجیریا کی ایمل زینون ہو یا ہنگو کا اعتزاز حسن۔میرا قلم تو تفریق نہیں کرے گا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments