ابھی نندن کی مونچھ اور حفیظ شیخ کے ٹماٹر


ابھی نندن وردھمان مگ 21 پر سوار ہو کر آزاد کشمیر آئے وہ حملے کی نیت سے آئے تھے اور بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ لیس تھے جب بھارت سے چلے تھے تو ان کو اپنی مونچھوا پر بہت فخر تھا، انھوں نے بطو خاص اپنی مونچھوں کا یہ آڑھا اور ترچھا بنوایا تھا۔ یہ مونچھوں کی دہشت سے پاکستان کا لڑاکو ومان ایف سولہ گرانے کی صلاحیت ارادہ تھے۔ اس لیے ابی نند ن نے اپنی مونچھوں پر سخت محنت کی۔ جب باربر نے ان کی مونچھ کو تھوڑا خراب کیا تھا تو وہ بہت بگڑے اس سے کہا تم ٹھیک سے مونچھ بناؤ ایسے لگے جیسے جنگی جہاز اُڑان بھر رہا ہے۔

آخر وہ دن بھی آگیا۔ 27 فروری کی صبح کو انھوں نے اپنی مونچھوں کی نوک پلک درست کی، ہیڈکواٹر سے پیغام آچکا تھا کہ پاکستانی ہوائی سینا مقبوصوضہ کشمیر میں داخل ہونے والی ہے۔ ابھی نندن نے مونچھوں کو آخری دفعہ شیشے میں دیکھا۔ ساتھ روم میں سرخ بتی جلی ابھی نندن نے ایک موٹی سی گالی دی اور اپنے جہاز پرسوار ہو گئے، وہ نہایت غصے میں تھے اور کیونکہ پاکستانی طیاروں نے ان کے ہیڈ کواٹر جو پر نشانہ سادھا تھا۔ اس غصے میں دشمن کے علاقے میں گھسے چلے آئے، لیکن جلد ہی انہیں محسوس ہوا ان کے جہاز کے ریڈار جام ہو چکے ہیں، پھر ان کے جہاز کی دم سے شعلے نکلنے لگے۔

وہ پاکستان جنگی پائلٹوں کے سامنے اپنی مونچھوں کی نمائش کرنا چاہتے تھے مگر افسوس سر پر ہیلمٹ کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا جہاز کی دم سے شعلے تیز ہو چکے تھے، اب ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا انھوں نے جہاز سے خارج ہونے کا بٹن بھی دبا دیا، ابھی نندن پیرا شوٹ سے لٹک رہے تھے اور خوش تھے کہ دشمن کا میزائل ان کے کاک پٹ سے نہیں ٹکرایاورنہ وہ مونچھوں سمیت تباہ ہو جاتے، وہ ایک اور بات سے بھی حیران تھے، وہ تو ایف سولہ کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے اور ادھر پاکستان نے گھر میں بنائے ہوئے طیارے جے ایف سیونٹین سے

سے انہیں نشانہ بنا ڈالا دل میں خیال بھی آیا ایف سولہ اور ایف سترہ میں ایک ہندسے کا ہی تو فرق ہے۔

اب وہ صرف فضا میں بھگوان سے یہی پرارتھنا کر رہے تھے کہ ان کا پیراشوٹ اورہوا انہیں بھارتی قبضے والے کشمیر میں لے جائے مگر آج ہوا بھی پاکستان کا ساتھ دے رہی تھی۔ ان کی مونچھوں سے نوعمر کشمیری لڑکے بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ لڑکوں نے شاید مونچھوں پر غصہ نکالتے ہوئے ان کی خوب خاطر بھی کی وہ توپاکستانی سینا موقع پر پہنچ گئی

جوانوں نے پہلے ابھی نندن کو اور پھر ان کی مونچھوں کو حراست میں لے لیا۔ وہ سرجھکائے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاکستانی سینا نے ان کی مونچھوں سمیت آنکھوں پر پٹی باندھی اور لے گئے ان کے خوب ٹیسٹ کیے گئے، ہاتھ واتھ لگا کر خوب چیک کیا ابھی نندن کو ایسا کرنا اچھا بھی لگا، اب پاکستانی سینا کے جوان سے ان سے باز پرس شروع کی، ابھی نندن کو بھی پتا چل چکا تھا کہ یہاں ان کی مونچھوں کے رعب کی دال نہیں گلنے والی انھوں نے سارا کچھ اگل دیا۔

اس کے بدلے میں انہیں ایک بڑھیا قسم کی چائے پیش کی گئی بہت فنٹاسٹک چائے تھی جس کی کل قیمت مگ 21 تھا۔ رات وہ سکون سے سوئے دن اور دل ہی دل میں ارادہ کیا کہ اب ان مونچھوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ جلد یہ صاف کر کے انسانی روپ اختیار کریں گئے۔ صبح ناشتہ کیا اخبار مانگا تو سب بڑی سرخی ہی ان کے جہاز کی تباہی تھی نیچے یہ بھی لکھا تھا کہ بھارت نے دعوی کیا ہے کہ ابی نندن نے اپنے میزائل سے ایف سولہ کو مار گرایا تھا ابی نندن نے خوفزدہ ہو کر پاکستانی سنتری کی طرف دیکھا اور بولے ماں قسم میں نے میزائل چھوڑا ہی نہیں تھا سنتری بھی ہنس کر بولا وہ ہم آپ کے طیارے کو چیک کر چکے چاروں میزائل محفوظ ہیں آپ کو میزائل چھوڑنے کا وقت ہی کہاں ملا۔

ابھی نندن نے گہرا سانس لیا اور کرسی سے ٹیک لگا لی پھر چند گھنٹوں بعد ہی انہیں سفید شرٹ اور نیلے رنگ کا کوٹ لا کر دیا گیا، آپ یہ پہن لیں آپ واپس اپنے ملک بھارت جا  رہے ہیں، ابھی نندن کے منہ سے بے اختیار نکا اتنی جلدی کچھ دن تو رہنے دیتے وہ منہ ہی منہ بڑبڑائے، چہرے پر پریشانی نمایاں تھی ابھی نندن نے سوچا اب کال کوٹھری اور ساری عمر طعنے کون سنے گا، رہائی کا وقت آیا تو پاکستانی آفسر نے ان کی مونچھوں کی تعریف کی جواب میں انھوں نے بس اتنا ہی کہامیں شرمندہ ہوں، افسر بولا آپ دوبارہ بھی آئے تو آپ کی اس سے بھی زیادہ خاطر ہو گی انھوں نے شکریہ ادا کیا، آپ لوگوں نے سادہ لوح کشمیریوں سے مجھے محفوظ رکھا۔

واہگہ بارڈر وہ پاکستانی سپاہیوں کے جھرمٹ میں بھارتی زمین کی طرف بڑھے وہ پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتے مگر سامنے ان کو لینے کے لیے بھارتی سینا کے جوان کھڑے تھے، وہ بہت پریشان تھے اب ان کی خوب بے عزتی ہوگی، سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹھے ان کے پیچھے میڈیا کے نمائندوں کے الفاظ گونج رہے تھے ہمارا بہادر ویر ابی نندن واپس آگیا۔ وہ کچھ حیران ہوئے، سینا کے کچھ لوگوں نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور پھر الفاظ چباتے ہوئے بولے آپ نے پاکستان کا ایف سولہ گرایا ہے اس لیے بھارت میں ہر جگہ آپ کی بہت تعریف ہو رہی ہے وہ کچھ بولنا چاہتے مگر خاموش ہوگئے انھوں نے عہد کر لیا تھا کسی سے کچھ نہیں کہیں گئے۔ اب چھ ماہ بعد وہ دوبارہ مگ 21 اُڑانے والے تھے اب ان کی مونچھیں چھوٹی ہو چکی تھیں، سچائی ان کے دل میں تھی ان کے علم میں تھا کہ بھارت کے پاس ایف سولہ کے ٹکڑے نہیں ہیں۔

ان کو جہاز اُڑانے سے پہلے یہ بات بھی کہی گئی کہ وہ جہاز ضرور اُڑائیں گئے پاکستانی سرحد سے کوسوں دور رہیں گئے پھر انھوں نے اپنے واٹس اپپ پر ایک پیغام موصول ہوا۔ ان کا مجسمہ بڑی مونچھوں والا اور ان کی وردی پستول اور مگ 21 کے ٹکڑے کراچی کے فضائیہ میوزیم میں رکھے گئے ہیں یہ خبر دیکھ کر اور سن کر وہ دل ہی دل میں خوش تھے کہ تو ان کی اشیاء اور بڑی مونچھوں والا مجسمہ رہتی دنیا تک ہمیشہ پاکستان کے پاس رہے گا۔ اب ان کو پھر سے اپنی مونچھوں پر فخر ہونے لگا تھا۔ ۔

ادھر ابھی نندن کا حملہ غیور اور بہادر پاکستانی فوج نے ناکام بنا دیا مگر ہمارے اپنے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے حملے ابھی اپنی ہی قوم پر پوری کامیابی سے جاری ہیں۔ اتنے پڑھے لکھے اور باؤ ٹائپ بندے کو مشیر خزانہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہ کھربوں کے حسابات تو جانتے ہیں مگر سبزی جیسی معمولی چیز ان کی نظر کہاں پڑتی ہے وہ حکومت کو یہ تو بتا سکتے ہیں کہ اگلے سال حکومت کو چھ ارب ڈالرقرض کی ضرورت پیش آئے گی مگر یہ نہیں بتا سکتے ایک غریب گھر کے چولہے پر چڑھی ہانڈی کتنے روپوں میں بنتی ہے وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں عوام کے منہ پر شاپر لپیٹ دیا جائے تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو سکتا ہے مگریہ نہیں بتا سکتے ٹماٹر لال اور پیلے کیوں ہوتے ہیں؟

اب حفیظ شیخ کے اس بیان کو ٹماٹروں نے اپنی بے عزتی مانا ہے۔ اب ٹماٹر ایسوسی ایشن نے اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے جس میں ٹماٹروں کے نئی نسل کے نمائندگان نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور حکومت سے درخواست کی ہے وہ دن کے لیے حفیظ شیخ صاحب کو ان کے حوالے کرے ہمارے بزرگ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اپنی اہمیت اور قیمت کی ان سے گارنٹی لینا چاہتے ہیں اگر حکومت نے ان حوالے نہ کیا تو پھر حکومت فیصل واڈا ور مراد سعید کے ہاتھوں شورٹی بانڈ بھیجے کہ آئند ہ ایسا نہیں ہو گا۔

اعلامیہ میں لکھا گیا کہ ہمارے بغیر کوئی سبزی ہانڈی میں اترنا پسند نہیں کرتی۔ ہم زیادہ آجائیں تو ہانڈی میٹھی ہو جاتی ہے کم ہوں تو بدذائقہ کہلاتی ہے ہم چاہتے ہیں ہماری مناسب قیمت ہو تاکہ ہم ہر سبزی اور گوشت میں شامل ہو کر عوامی خدمت کر سکیں۔ ہم ہرانسان کی ضرورت ہیں، ہم جس کھیت میں پیدا ہوتے ہیں اس کھیت کے مالک اور آڑھتی کی ملی بھگت کو ختم کیا جائے، ہم وہ ہیں جو بھلے دنوں میں دس روپے فی کلو بھی دستیاب ہو تے ہیں حکومت آڑھتیوں کو لگام ڈالے اس سے پہلے ہمارے شراکت دار پیاز کو یہی مسائل پیش آچکے ہیں۔

ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں ورنہ نہ چاہتے بھی مسئلہ کشمیر کے باوجود ہمسایہ ممالک کے ٹماٹروں سے الحاق کر نے پر مجبور ہو نگے یاپھر ہم گدھوں پر سوار ہو کر ایران کوچ کر جائیں گئے۔ اور آخری بات آئندہ حکومتی وزرا و مشیرران ہمارے متعلق بات کرتے ہوئے احتیاط کریں سپین میں ہمارا سالانہ میلہ آنے والا ہے اور ہم ہسپانوی حکومت سے آپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔

انجمن بہبود ٹماٹران


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).