خود اپنی تضحیک اور تذلیل پر کمر بستہ قوم


نواز شریف نے ائیر ایمبولینس سے جاتے جاتے بھی اہل وطن کے منورنجن کا خیال اپنے انگوٹھے کو اوپر کی طرف کرکے ًآل از ولً کا پیغام دے کر رکھا۔ جو کام اینجیوگرافی کی مشینیں، موسم کے حال کی طرح پنجاب کی بقلم خود ڈاکٹر وزیر صحت کی طرف سے صبح شام بتائی جانے والی پلیٹ لیٹس کی گنتی بھی نہ کرسکی وہ جہاز کی سیٹ پر رکھے سندر خانی انگور کے گچھے نے کردکھایا۔

جہاز کی میز پر سجائے انگور دیکھ کر کسی کے منہ میں پانی آیا تو کسی کی رال ٹپکنے لگی تو کئی ایک کی بانچھوں سے جھاگ ابلنے لگی۔ نواز شریف کو باہر بھیجوانے کی سفارش کرنے والے ڈاکٹر بشمول پنجاب کی وزیر صحت کے ایک دم سازشی، میڈیا میں دن رات نواز شریف کی صحت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جھوٹے اور سات ارب کے اینڈیمنٹی بانڈ کو شخصی ضمانت میں تبدیل کرنے والی عدالتیں مشکوک نظر آنے لگیں۔

خود حکومت کے تذبذب کا عالم یہ ہے ایک ہی سانس میں ایک جان بہ لب مریض کو رحم کا بھیک دیتی اور سسٹم کی طاقت کے آگے اہنی بے بسی کارونا روتی نظر آئی۔ عوام اس میں حکومت کی مہربانی یا نواز شریف کی چالاکی میں فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اب لندن سے نئی خبروں کا انتظار ہے تاکہ منورنجن کا سامان ہوسکے۔

خود نواز شریف کو حد سے زیادہ اعتماد ہے کہ ان کے خلاف دیا گیا نیب عدالت کا فیصلہ اور لگائے گئے الزامات اعلیٰ عدالتوں میں برقرار نہیں رکھے جاسکیں گے اور اعلیٰ عدالتوں میں کیس کی شنوائی اور فیصلے تک قید میں رہنا ہی ان کی سزا ہے۔

ملک میں اعلیٰ سطح پر سیاست دانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیاں اس تواتر کے ساتھ سنائی جاتی رہی ہیں کہ ہماری نئی نسل بالخصوص نوجوانوں کو اس پر یقین آگیا ہے۔ اگر کرپشن کے الزامات کی رقم کو جمع کرکے دیکھی جائے تو یہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی بڑھ جاتی ہے اور اس مبینہ لوٹ کی رقم کو واپس لانا ہی ملک کو سوئٹزر لینڈ بنانے کے خواب کی تعبیر بن گیا ہے۔ یہی ہماری موجودہ حکومت کا وعدہ ہے جس کے ایفا ہونے کی نئی نسل کو امید ہے۔

نواز شریف کے جانے پرکچھ یار لوگوں نے کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے نیب کی طرف سے جیل میں رکھے آصف علی زرداری کے بارے میں بھی باہر چلے جانے کی باتیں کرنی شروع کی ہیں۔ کسی بے خبر کروڑ پتی دودھ والا، فالودہ والا اور اومنی گروپ کی مبینہ کرپشن کی طلسماتی کہانیوں کے مرکزی کردار کے طور پر آصف علی زردادری پر ابھی تک نیب فرد جرم عائد نہ کر سکی ہے۔ یہ تب پتہ چلے گا جب نیب الزمات پر مبنی چالان عدالت میں جمع کروا دے کہ پاکستان کے اس سابق صدر کا جرم کیا ہے۔ مگر کیا زندگی ان کی بے گناہی ثابت ہونے تک ساتھ دے گی یا وہ بدنامی کا داغ لے کر پیوست خاک ہو جائیں گے؟

آصف علی زرداری کو پہلی بارایسے الزامات کا سامنا نہیں۔ ان کی زندگی جیل کی کوٹھڑی اور ایوان اقتدار کے بیچ گزرہے۔ اس بار انھوں نے ضمانت اور رہائی کے لئے درخواست بھی نہیں گزاری اور نہ ہی بیمار ہونے کے باوجود کسی قسم کی صلہ رحمی کے متمنی ہیں۔ آصف علی زرداری ذات کے بلوچ ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ زندگی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں ہوتی ہے مگر کہانی رہ جاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی کہانی کی تصحیح چاہتے ہیں جس کو بار بار سنا کر لوگوں کو یہ باور کروادیا گیا ہے کہ وہ ایک خائن، مجرم اور کرپٹ آدمی ہیں۔ اب یہ الزام لگانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی کہانی ثابت کریں یا پھر تاریخ کے صفحات پر درستگی کردیں۔

سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اورریلوے کو ایک بار پھر پٹڑی پر چڑھانے والے ریلوے کے سابق وزیر سعد رفیق کے علاوہ ایک اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اس کا وزیر خزانہ بھی جیل میں ڈالے گئے ہیں۔ ان پر قطر سے مائع گیس مہنگے داموں خرید کر ملکی خزانے کوکھربوں روپے کا نقصان اور خود کواربوں روپے کا فائدہ دینے کا الزام ہے۔ گو کہ ان دونوں پر بھی لگائے الزامات اور ثبوت اب تک کسی چالان کی شکل میں عدالت میں پیش نہیں کیے گئے ہیں مگر ملزمان کا مطالبہ ہے کہ ان پر مقدمہ کھلی عدالت میں ہی نہیں بلکہ میڈیا اور کیمروں کے سامنے چلایا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کا جرم کتنا سنگین ہے۔ بادی النظر میں ان کو اپنی بے گناہی کا اتنا یقین ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں ان کی بریت میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی رہے۔

پاکستان میں سیاسی مخا لفین پر الزامات لگانے اور مقدمے قائم کرنے کی روایت بھی پرانی ہے۔ کسی پر بھینس چوری کرنے کا الزام لگا ہے تو کسی پر بکری چرانے کا۔ ان دنوں پنجاب کے سابق وزیر رانا ثناللہ کو فوج کے زیر نگرانی کام کرنے والے انسداد منشیات کے محکمے نے ہیروئین سمگل کرنے کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔

رانا ثناللہ کے خلاف ایک باریش وزیر کی طرف سے جن ثبوتوں کا دعویٰ کیا گیا وہ عدالت میں اب تک پیش نہ کیے جاسکے۔ وزیر موصوف ابتدائی دنوں میں کیے اپنے بلند و بانگ داعویٰ کے بعد تو میڈیا سے غائب ہیں مگر اب لوگوں کی نظریں فوج کی زیر نگرانی کام کرنے والے ادارے پر ہیں۔ اگر رانا ثنا اللہ منشیات کے زہر کو ہماری نسلوں کی رگوں میں اتارنے والے قبیح گھناونے جرم میں ملوث ہے تو اس کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ اگر وہ کسی ایسے جرم میں ملوث نہیں تو کسی ادارے کا سیاسی رسا کشی میں ملوث ہونا ایک انتہائی افسوسناک مقام ہے۔

دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں سابق وزراء، وزرائے اعظم اور صدور زعماء اور مدبرکے درجے پر فائز ہوتے ہیں جن کی علم و دانش، فہم و فراست سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اگر ہمارے سابق صدور اور وزرائے اعظم کو اس قابل نہ بھی سمجھا جاتا ہے تو پھر بھی جب تک قانون کے روبرو کسی شخص پر جرم ثابت نہ ہو وہ بطور شہری لائق احترام رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی طرح کے جرم کا مرتکب ہو تو اس کو قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرکے بلا رعایت سزا دے دینا چاہیے۔ اگر کوئی سربراہ ریاست یا حکومت کسی جرم کا مرتکب ہو تو سزا بھی مثالی ہونی چاہیے۔

مگر گزشتہ 72 سالوں میں دیکھا یہ گیا ہے کہ اقتدار کی کرسی کا راستہ جیل کی کال کوٹھڑی سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ اگر جیل کی کال کوٹھڑی میں پہنچائے گئے لوگ واقعی مجرم ہوں تو ان پر شفاف طریقے سے مقدمہ چلاکر ان کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تاکہ عنان اقتدار کسی مجرم کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اگر وہ بے گناہ ہو اور صرف کسی شخص یا ادارے کی ذاتی نفرت کا شکار ہوا ہو تو یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس کا نظام اپنے راہنماؤں اور سربراہوں کی خود ہی تزلیل کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ اپنے شہریوں، مشاہیر، زعماء اورمدبرین کی عزت کیے بغیر اپنے لئے تکریم کا تقاضا کیسے کرسکتا ہے۔ خود اپنی تزلیل و تضحیک پر کمر بستہ قوم کی عزت کوئی دوسرا کیونکر کرے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan