احساس دلادو کہ زندہ ہوں ابھی


ہمارے یہاں رسہ کشی کے کھیل کو قومی کھیل ہونا چاہیے۔ کہ یہاں پر ہر فریق دوسرے کو کھینچ کر گرانا چاہتا ہے دونوں فریق پورا زور لگا کر رسہ اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر یہ کھیل ہر کوئی ہر جگہ کھیل رہا ہے مولوی سے لے کر مہہ فروش تک سب نے اپنے رسے پکڑ رکھے ہیں۔ کیسے بھی حالات ہوں رسہ کشی چلتی رہتی ہے ہم اپنی ہر ممکن کوشش سے دوسرے کو گرا کر خوش ہوتے رہتے ہیں کسی کی جان پہ بنی ہو، کوئی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو، کوئی حالات کامارا ہو، وقت کی بے رحم موجوں کے آسرے پہ ہو۔

دوسروں کی زبانیں شعلہ اگلتی رہتی ہیں، ہر فرد اپنی بولی بولتا ہے، کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا اپنا حق سمجھتا ہے، اس کی غفلت پر اپنی دانشمندی کے پتھر برساتا رہتا ہے۔ متاثرہ فریق کو باور کروایا جاتا ہے کہ سب مکافات عمل ہے، اس کے اپنے گناہوں کی سزا ہے۔ ایسے ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتے ہیں یوں لگتا ہے کہ یہاں انسانوں کی آبادی نہیں گدھوں کا مسکن ہے جدھر ہر طرف گدھ ہی گدھ ہیں جو نوچ ڈالنے کے لئے بے تاب ہیں دوسروں کو مردار سمجھ کر نوچتے جا رہے ہیں۔

معاشرے میں رہنے کی تہذیب بھلا دی گئی ہے۔ مذہبی اخلاقیات یاد ہیں نہ معاشرتی۔ ہم بغض سنبھال کے رکھتے ہیں، بغض پالتے ہیں، بغض بیچتے ہیں، بغض کا کاروبار کرتے ہیں۔ سب کچھ بھول چکا ہے سوائے بغض و عناد کے۔ بغض اور نفرت کی دلدل میں اس قدر دھنس چکے کہ ہمیں دوسرے کی تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ قطعی طور پہ بھلا دیا جاتا ہے کہ خدانخواستہ اگر یہ وقت ہم پر آجائے تو۔ ہم دوسروں کی اذیت کا تماشا لگا لیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہم پر یہ وقت کبھی نہیں آئے گا۔

جانے کیوں ہم غلطیوں سے سیکھتے نہیں غلطیوں کو دہراتے جاتے ہیں اجتماعی یا انفرادی سطح پر ہم دوسروں کو رعائیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ کوئی کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو ہم اس پہ انگلی اٹھانا نہیں بھولتے۔ ۔ جسمانی گھاؤ بھر جاتے ہیں زبان سے دیے جانے والے گھاؤ نہیں بھرتے۔ زبان کے دیے زخموں سے تادم مرگ خون رستا رہتا ہے۔ بولنے والے بولتے رہتے ہیں اچھی بری بات کی تمیز کے بغیر۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ شاید اس وجہ سے وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہو سکتے ہیں اس زبان کو وہ اپنا ہتھیار بھی بناتے ہیں اور پہچان بھی۔

لیکن اس سب میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بے تکان بولنا احمقوں کی نشانی ہے دانشمند تو بہت سوچ کے ناپ تول کر بولتا ہے۔ شاہ کے ایسے وفادار اخلاقی اقدار کا جنازہ تو نکالتے ہی ہیں سیاسی اقدار کو بھی دفن کر دیتے ہیں۔ بستیاں اجاڑ کر پھبتیاں کسنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کو گناہوں کی سزا کہہ کر بتایا جاتا ہے کہ بستی کے لوگ گناہگار تھے اس لئے آفت آئی۔ ہم ہمیشہ دوسروں کو قوم لوط سمجھتے ہیں اور خود ساختہ پارسائی کا لبادہ اوڑھے خود کو لوط کے گھرانے میں شمار کرتے ہیں یہ سوچے بنا کہ حضرت لوط علیہ اسلام کی بیوی کو قوم لوط میں شامل کر دیا گیا تھا۔

اپنے حوالے سے شاذ ہی کسی نے کہا ہو کہ مجھے میرے گناہوں کی سزا ملی بس دوسروں کے گناہ ازبر ہوتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے آئی مصیبتوں کی ذمہ داری بھی غیر ذمہ داروں پہ ڈال دی جاتی ہے۔ چاہے وہ انفرادی طور پہ نجی لمحات میں برتی جانے والی بے احتیاطی ہو یا اجتماعی سطح پر روا رکھے جانے والی غفلت ہو۔ اپنی مرضی سے بنائی جانے والی نیوڈ ویڈیو وائرل کر کے اس کا الزام دوسروں پہ ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

چار لڑکے لڑکی اٹھا کر ریپ کر ڈالیں تو بھی گناہ لڑکی کے حصے ڈالتے ہیں۔ کہ اس کے نا مناسب لباس یا اکیلے گھر سے نکلنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ ٹرین میں کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کے ذمہ داروں کے بھی غیر ذمہ دارانہ بیان آجاتے ہیں کہ مرنے والے اپنی غلطی سے مرے۔ محکمہ ملازمین کی کوئی ذمہ داری نہیں وہ تو آم بیچنے بھیٹے ہیں۔ کوئی بیمار ہو تو اس کو بھی مذاق کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے بیماری کو بہانہ کہہ دیا جاتا ہے۔

کسی کی بربادی کی خبر دوسرے کے دل میں ٹھنڈ ڈال دیتی ہے تو کہیں زندگی اور موت کی کشمکش میں جکڑے انسان پر جگاڑ لگانا فرض سمجھ لیا جاتا ہے۔ سفاکیت اتنی رچ گئی ہے دلوں میں کہ ہم مرتے ہوئے شخص کو بھی رعائیت دینے کو تیار نہیں۔ یہ چلن ہو چکا کہ سانحات پر بھی سیاست کرتے ہیں اور پھر سیاست کو بھی سانحہ بنا دیتے ہیں۔ اور جب اپنی غلطی سے سیاست پہ سانحہ گزر جائے تو اس کو فوجی بغاوت کہہ کر اپنا دامن صاف کر لیا جاتا ہے۔

اپنی غلطی اور کوتاہیوں کو آمریت قرار دے دیا جاتا ہے کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر یقین کریں سیاست کا تو سینہ ہی نہیں تو دل کہاں سے ہوگا۔ شفافیت کارونا رونے والے پہلے اپنے دلوں کو تو شفاف کر لیں۔ انگلیوں پر تسبیح کے دانے گرانے سے دل کا اطمینان حاصل نہیں ہوتا دل کا سکون کسی کے زخموں پر مرہم رکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔

افسوس کہ ہماری اخلاقی اقدار تو ختم ہوتی جا رہی ہیں اور کئی جگہوں پر خود کو سنبھالا دینے کے لئے مذہب کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو مذہب کارڈ استعمال کرنے والے مذہب کے پاس سے بھی نہیں گزرے۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ مذہب ہے کیا۔ مذہب تو رواداری، احترام انسانیت، پیار، محبت، اخوت، صبر کادرس دیتا ہے، انسانی حقوق کا علم بلند کرتا ہے۔ مذہب مذہب کرنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جس ہستی نے مذہب کا درس دیا ہے انھوں نے زبانی جمع خرچ نہیں کیا۔ بلکہ اس دی جانے والی تعلیم کو پریکٹکلی کر کے دکھایا۔

مذہب کی تعلیم دینے والی ہستی پر جو بڑھیا کوڑا پھینکتی تھی اس پر انھیں سزا نہیں دی، بد دعا بھی نہیں دی۔ بلکہ جس دن وہ بڑھیا کوڑا نہیں پھینکتی اس دن اس کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر چلے جاتے ہیں کہ آج کوڑا کیوں نہیں پھینکا، وہ ہستی جسے طائف والوں نے پتھروں سے لہو لہان کیا تو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر بدلہ لینے کے بجائے ان کے لئے عام معافی کا اعلان کیا۔

لیکن مذہب کارڈ استعمال کرنے والے جیت کے نشہ میں ہر ایک پر سنگ باری کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ جس پر سنگ باری کر رہے ہیں وہ اس کو برداشت کرنے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ بلکہ لاچار دیکھ کر زیادہ پتھر مارے جاتے ہیں دوسرے کو مار کے لہو لہان کر کے اس کی چیخوں سے اس کے زندہ ہونے کا ثبوت حاصل کیا جاتا ہے

کوئی دشنام مجھے دو، کوئی پتھر مجھے مارو

مجھے احساس دلادو کہ زندہ ہوں ابھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).