پاکستان میں طلبہ سیاست کی بحث یونین دور تک محدود کیوں؟


طلبہ سیاست کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا اداروں کے صحافی اس حوالے سے کالمز اور انٹرویوز شائع کررہے ہیں۔ لیکن دیکھنے میں مل رہا ہے کہ ارادی یا غیر ارادی طور پر اور زیادہ یہ لگ رہا ہے کہ ارادی طور پر وہ صرف اور صرف یونین کے دور تک محدود ہوتے ہیں۔ 9 فروری 1984 کو یونین پر پابندی کے بعد اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1993 کے فیصلہ کے بعد بھی طلبہ سیاست تعلیمی اداروں میں رواں دواں ہے۔

تعلیمی اداروں میں داخلہ کے وقت طالب علموں کو سیاست سے باز رکھنے کے لئے بیان حلفی جمع کرانے کا پابندکیا گیا ہے لیکن بدستور طلبہ تنظمیں آزادانہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔ لیکن لیفٹسٹ نظریات سے وابستہ رکھنے والے صحافیوں و دیگر دانشوروں کی دلچسپاں بدستور یونین کے دور کے ساتھ ہے اور پچھلے تین دہائیوں سے تعلیمی ادروں میں طلبہ کے تحرک کو قصدآ نظر انداز کررہے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہے۔

اول یونین پر پابندی کے دوسری سیاسی تنظمیں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکی ہے۔ جس کی مثال ان کی تنظیم کی غیر فعالیت ہے، سالوں ان تنظیموں کی تنظیم سازی و الیکشن منعقد نہیں ہوتے جس کا براہ راست سیاسی جماعتوں پر پڑھ رہا ہے کہ وہاں پر موروثیت اپنی عروج پر ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمعیت طلبہ سالانہ مرکزی ناظم اعلی (مرکزی صدر) سے لے کر یونیورسٹی اور حلقہ تک الیکشن منعقد کراتی ہے اور یہ الیکشن صرف خانہ پوری نہیں ہوتی بلکہ ایک منظم طریقہ سے منعقد ہوتے ہیں نہ کہ دوسرے طلبہ تنظیموں کی طرح جو الیکشن کے لئے ممبرشپ مہم کے نام پر زیادہ سے زیادہ ووٹرز بنانے کے چکر میں طلبہ کو لا لا کر ان کا ممبر شپ کارڈ بنا کر ان ووٹ ڈلواتے ہیِں۔

دوسری وجہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی تعلیمی اداروں میں ملک گیر سرگرمیاں ہے۔ یہ سرگرمیاں کتب میلوں، گرینڈ ویلکم پارٹیز، سٹوڈنٹس فیسٹیول، سٹوڈنٹس کنونشن، مشاعرے ہیں۔ آئیں آپ کو ایک چھوٹی سی جھلک دکھاتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ خیبر میڈیکل کالج پشاور میں پچھلے 47 سالوں سے مسلسل سالانہ کتب میلہ منعقد کراتی آرہی ہے۔ جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ پچھلے 35 سالوں سے مسلسل سالانہ کتب میلہ منعقد کراتی آرہی ہے۔

تاریخی جامعہ پشاور اور اسلامیہ کالج پر نظر دوڑائیں تو پچھلے دس سالوں سے پیوٹا ہال میں سالانہ کتب میلہ منعقد کیا جاتا ہے جو کہ صوبے ک سب سے بڑا کتب میلہ ہے پچھلے سات سالوں سے پرل لان میں گرینڈ مشاعرے جبکہ پچھلے پانچ سالوں سے اسی پرل لان میں گرینڈ فہم القران کلا سز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلامیہ کالج میں پچھلے پانچ سالوں سے سٹوڈنٹس فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے جبکہ پچھلے نو سالوں سے جامعہ زرعیہ پشاور میں کتب میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔

تیسری وجہ نظریاتی بحران کا ہے۔ سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ان تنِظیموں کا باقی رہنا ممکن نہ رہا اور اسی وجہ سے کچھ صرف آج کہہ رہے ہیں کہ ”نوے کی دہائی کے بعد طلبہ سیاست میں نہ نظریات رہی اور نہ جمہوریت“ حالانکہ اسلامی جمعیت طلبہ کا نظریہ وہی کا وہی ہے۔ جس نظریہ پر وہ 1950 میں عمل پیرا تھی وہ آج بھی ہے۔ جہموریت کی بات کی جائے تو مخالفین کی زبان بھی جمعیت کی جمہوریت سے رطب اللسان ہے۔

یونین کے دور کی یادیں، اس دور کی جمہوریت، رواداری، برداشت کو موجودہ نسل کے سامنے بیان کرنا اچھی بات ہے لیکن صرف اسی جگہ پر نہیں اٹکانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں پابندی کے باوجود کام کرنے والے تنظمیوں کے صحت مند سرگرمیوں پر بحث کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہ سرگرمیاں صرف اسلامی جمعیت طلبہ منعقد کرتی ہے جو لیفٹسٹ کے نظروں سے قصدآ اوجھل رہتی ہے۔ اس کی مثال ہمارے کتب میلوں، فیسٹیولز کے موقع پر الیکڑانک میڈیا کی کوریج ہے (نوٹ مقامی صحافی اس سے مبرا ہے کیونکہ وہ چینل ملکان کے ہدایات کے پابند ہے ) کہ وہ رپورٹ تو بنا لیتے ہیں لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کا نام گورا کرنے کی بجائے ”طلبہ تنظیم“ یا ”طلبہ“ پر اکتفا کرلیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).