خود کو ”با اختیار“ دکھانے کے لئے ڈٹے ہوئے ہمارے وزیراعظم


نواز شریف صاحب ”سزا یافتہ مجرم“ ہوتے ہوئے بھی جس انداز میں بیرون ملک روانہ ہوئے اس نے تحریک انصاف کی بیس کو یقینا بوکھلادیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی اس کے باعث یہ سوچنے کو مجبور ہوئے کہ ”اصل فیصلے“ شاید کہیں اور ہورہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ چند اقدامات کے ذریعے وہ خلقِ خدا کو یہ پیغام دیں کہ وزیرا عظم ہی وطن عزیز میں ریاستی طاقت کا اصل مرکز ومحور ہوا کرتا ہے۔ آئین میں صراحت سے ”چیف ایگزیکٹو ’قرار دیا منصب ہے۔

اس منصب کے دائرہ اختیار کو یاد دلانے کے لئے انہوں نے کابینہ میں چند تبدیلیاں کی ہیں۔ اسد عمر کو وزارتِ پلاننگ میں بٹھاکر ایک بار پھر ”اپنا“ لیا گیا ہے۔ یوسف بیگ مرزا کو پوری کابینہ کے روبرو سخت الفاظ کے استعمال سے تنقید کا نشانہ بنا یا۔ موصوف نے خفا ہوکر استعفیٰ دے دیا۔ خسروبختیار کی پلاننگ والی وزارت سی پیک کی نگرا ن بھی تھی۔ اس کی بدولت وزیر منصوبہ بندی کو کافی توجہ نصیب ہوئی۔ پہلے اعلان ہوا کہ انہیں پٹرولیم جیسی تگڑی وزارت دی جائے گی۔ وہاں مگر کئی برسوں سے ایسے صاحبان براجمان ہیں جنہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے۔ عمر ایوب ان کے ساتھ ”نیویں نیویں“ رہ کر اس وزارت کا ”اضافی چارج“ سنبھالے ہوئے ہیں۔ آخری لمحات میں لہذا خسروبختیار کو خوراک وزراعت سے متعلقہ وزارت سونپ دی گئی۔

ان دنوں اس وزارت کو ”فوڈ سکیورٹی“ والا بھاری بھرکم نام دیا گیا ہے۔ یہ نام پاکستان میں غربت کے بارے میں پریشان ہونے کے دعوے دار چند بین الاقوامی اداروں کو بہت بھاتا ہے۔ ان کی تسلی کے لئے پاکستان کے ہر کونے میں پسماندہ افراد کو میسر غذا کی کمیت کو جاننے کے لئے سروے جاری ہیں۔ اس ضمن میں اعداد و شمار کا سیلاب ہے۔ ٹماٹر مگر 17 روپے کلوکے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ خسروبختیار کی ذہانت شاید اس ضمن میں کامیاب ہوجائے۔ گندم اور کپاس کی فصل کے بارے میں اگرچہ حوصلہ افزا خبریں سننے کو نہیں مل رہیں۔

کبھی کبھار جب ”وسیم اکرم پلس“ کو ہٹائے جانے کی امید اجاگرہوتی ہے تو خسروصاحب کے برادرِ خورد ہاشم کا نام متوقع وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں نمایاں ترین نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب ہی سے متبادل والی تھیوری کے ساتھ۔ پنجابی کا ایک محاورہ مگر اصرار کرتا ہے کہ ”ساپنوں“ کے روبرو دیے روشن نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کی پھنکار لو کو بجہادیتی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کی قیادت کو فقط جہانگیر خان ترین کی ”پھنکار“ ہی درکار ہے۔ خسروبختیار جواں سال ہیں۔ زراعت کو کارپوریٹ انداز میں چلاتے ہوئے شوگر پیدا کرنے والے کارخانے بھی لگابیٹھے۔ جنوبی پنجاب سے ان کی صورت جہانگیر خان ترین کا ”متبادل“ ابھرتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ خسروبختیار کو لہذا کھڈے لائن لگانا ضروری ہوا۔ امید یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب اپنے پیغام کو دبنگ انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لئے ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کو بھی متحرک کرنے والے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ان کی ”اٹھان“ کس کا ”سر“ لیتی ہے۔

کابینہ میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ ہر صورت فروعی ہیں۔ یہ تحریک انصاف میں موجود گروہوں کی باہمی کھینچا تانی کے مظہر کے سوا کچھ نہیں۔ محاورے والے گدھے سے گرکر کمہار والا غصہ نکالنے والا معاملہ ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اب تک کوئی شخص سمجھانہیں پایا کہ وزیر اعظم اپنے اختیار کو درحقیقت وزارت خزانہ کے ذریعے بروئے کار لاتا ہے۔ اس وزارت پر ڈاکٹر حفیظ شیخ براجمان ہیں۔ انہوں نے مشیر کا عہدہ قبول کرتے ہوئے تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کی ذمہ داری آئی ایم ایف کو آؤٹ سورس کی جاچکی ہے۔ اس نے جو بیل آؤٹ پیکیج تیار کررکھا ہے اس پرکامل درآمد کے لئے 39 مہینے درکار ہیں۔ حفیظ شیخ کی وزارتِ خزانہ میں موجودگی آئی ایم ایف کو یقین دلاتی ہے کہ اس کے تیار کردہ نسخے پر ہوبہوعمل ہوگا۔ ان کی بھرپور معاونت کو سٹیٹ بینک بھی بہت ہی خودمختار رضاباقر کے سپرد ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم ”حقیقی تبدیلی“ لانے کے لئے جبکہ معیشت کے میدان میں رونق لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ترکی کے رجب اردوان نے ”سلطان اردوان“ بنتے ہوئے 16 برس لگائے۔ اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں ساری توجہ اس نے ترکی کی معیشت کو سنوارنے پرمرکوز رکھی۔ اناطولیہ کے پہاڑی قصبات سے استنبول میں آئے ہزاروں بے زمین کاشت کاروں کو اس نے ”کچی بستیوں“ میں ’غیر قانونی ”طورپر تعمیر ہوئے جھونپڑوں کا مالک بنایا۔ رہائشی قطعات کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد دیہاڑی داروں نے آسان اقساط وشرائط پر بینکوں سے قرض لے کر“ پکے کوٹھے ”تعمیر کرلئے ہیں۔ ان کی اپ ورڈ موبائلٹی ہوگئی۔ استنبول کے یہ نودولتی ہی“ سلطان اردوان ”کی اصل قوت ہیں۔

عمران خان صاحب کو مگر غریبوں کے ”غیر قانونی“ طورپر قائم جھونپڑوں اور کھوکھوں سے ”نجات“ کے چکر میں الجہادیا گیا۔ سرکار نے ”اپنی“ زمین واگزارکرلی۔ کھوکھوں اور جھونپڑوں سے صاف ہوئی زمین کا اب کیا کرنا ہے۔ اس سوال کا مؤثر جواب فراہم کرنے والی کوئی پالیسی ہی نظر نہیں آرہی۔ اس پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے۔ عمران خان صاحب کے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے دن سے وطنِ عزیز میں اپ ورڈ موبائلٹی کا عمل قطعاً رک چکا ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں نے مہنگائی میں اضافہ کیا۔ کسادبازاری نے بے روزگاری پھیلائی۔ ہمارے دیہاڑی دار تنخواہ دار اور نسبتاً چھوٹے کاروباری افراد اس فکر میں مبتلا ہیں کہ سفید پوشی کا بھرم کیسے برقرارر کھیں۔ وہ خطِ غربت کی جانب سرکتے ہوئے بوکھلائے ہوئے ہیں۔

اپنی کابینہ میں ”فروعی“ تبدیلیوں کے ذریعے وزیر اعظم صاحب ان کی فکر کا ازالہ کرنہیں سکتے۔ وزیر اعظم کا حقیقی انداز میں ”با اختیار“ ہونا اگر مہنگائی اور کسادبازاری کی وجہ سے مسلط ہوئی بے رونقی کو ختم کرنے کی جانب بڑھتا نظر نہ آئے تو خلقِ خدا کی اکثریت ”ساہنوں کی؟ “ والی بے اعتنائی برتنے کو مجبور ہوجاتی ہے۔ خسروبختیار کی بظاہر تنزلی، یوسف بیگ مرزا کی فراغت اور اسد عمر کی باعزت واپسی انہیں کوئی حوصلہ افزا پیغا م نہیں دیتی۔

وزیر اعظم مگر اس ہفتے کے آغاز سے ہمیں یہ دکھانے کو ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ بہت ہی با اختیار ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے ”اصل فیصلے“ کہیں اور نہیں ہوسکتے۔ شاید اس پیغام کو مزید مؤثر بنانے کے لئے وہ آئندہ چند دنوں میں کئی اہم ریاستی اداروں میں اپنی خواہش کے مطابق ترقیاں اور تبدیلیاں کرتے نظر آئیں گے۔ بدھ کی شام سے ایک بہت طاقت ور عہدے دار کے بارے میں چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ احتیاطاً یہ عرض کرنا لازمی ہے کہ مذکورہ عہدے کا ”توسیع“ سے کوئی تعلق نہیں۔ چہ مہ گوئیوں کا موضوع کوئی اور ہے۔

میں اگرچہ یہ بات دہرانے کو مجبور ہوں کہ کابینہ اور افسر شاہی میں تبدیلیاں خواہ وہ کتنی ہی حیران کن نظر آئیں وزیر اعظم کو حقیقی معنوں میں ”با اختیار“ نہیں بناتیں۔ پالیسیاں اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ عمران حکومت کو اپنی پالیسیاں فقط ایک ہدف حاصل کرنے کے لئے بدلنا ہوں گی اور وہ ہدف ہے بازار میں رونق کی بحالی۔ مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی صورت۔ لوگوں کے لئے روزگار کے نئے دروازے کھولنے کی کاوش۔ اس کے سوا جو بھی ہے محض ”آنیاں جانیاں“ ہے۔

عمران خان صاحب کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ 1997 میں نواز شریف صاحب ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر لوٹے تھے۔ اس مینڈیٹ کے باوجود انہوں نے خود کو حقیقی معنوں میں ”با اختیار“ محسوس نہیں کیا۔ ”نفاذِ شریعہ“ کے نام پر خود کو دورِ حاضر کا ”امیر المومنین“ بنانے کی خواہش میں مبتلا ہوگئے۔ اس خواہش کے نتیجے میں بالآخر 12 اکتوبر 1999 ہوا۔ محمد خان جونیجو مرحوم ان کے مقابلے میں غیر جماعتی انتخابات کی بدولت 1985 میں رونما ہوئے تھے۔ انہوں نے سرجھکاکر بڑھک بازی کے بغیر جمہوری عمل کو بحال کرنے کی کوشش کی، میڈیا کو آزاد کیا۔ اپنی قومی اسمبلی کو باوقار اور متحرک بنایا۔ ترقیاتی سکیموں پر توجہ دی۔ جنرل ضیاء کو انہیں فارغ کرنے میں تین سال لگے۔ اور اس فراغت کا بنیادی سبب امریکہ کی افغانستان میں ترجیحات تھیں۔ جونیجو مرحوم کی فراغت کے بعد مگر جنرل ضیاء کے پلے بھی کچھ نہ رہا اور 17 اگست 1988 ہوگیا۔ مناسب ہوگا کہ عمران خان صاحب ”با اختیار“ ہونے کی خواہش میں جونیجو مرحوم کو اپنا ماڈل بنائیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).