پنجاب کو بھٹو نا مل سکا


ووٹ کو عزت اور پارلیمان کو اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس دلانے کا علم بغاوت اٹھانے والے ہمارے میاں صاحب پہلے جیل گئے، پھر جیل سے اسپتال، اسپتال سے گھر اور آخرکار حسب روایت (معذرت کے ساتھ اسے ”حسب دستور“ نہیں لکھ سکتا) گھر سے لندن۔ اسی طرح ایک بار پھر میاں نواز شریف کو مزاحمت کا راستا مہنگا پڑ گیا۔ اس بار میاں صاحب و مریم نواز کی گرجتی آواز اور واضح موقف دیکھ کر بھت مزاحمت پسند اس امید سے تھے کے یہ خاندان اب پیچھے نہیں ہٹے گا۔

ووٹ، ووٹر اور پارلیمان کو عزت دلاکر رہے گا مگر ایسا نا ہوا۔ جو امید سے تھے ان کی غم کی شام مزید لمبی ہو گئی۔ امپائرز اور سلیکٹرز کھری سنانے والی مریم اب طے شدہ وقت دادی ماں کے پہلو میں بیٹھ کر گزارے گی، دعائیں سمیٹے گی، خادم اعلیٰ بڑے بھائی کی لندن و امریکہ کے اسپتالوں میں خدمت کریں گے اور ملک میں جو باقی نواز لیگ ہے وہ ووٹ اور ہم ووٹروں کی عزت پر پہرا دیا کرے گی۔ مرنے مارنے کی مزاحمتی باتیں کرنے والے میاں صاحب اور ان کی اکلوتی بیٹی مریم نواز نے جو نواز لیگ کا نیا بیانیہ متعارف کرایا تھا، وہ بس ایک تعارفی تقریب ثابت ہوا۔

نواز کی لیگ نے جب کبھی اسٹیبلشمینٹ مخالف بیانیے کا راستہ لیا ہے تو اسے اپنا اصل یاد دلایا گیا ہے۔ اس بار پہلے نواز شریف اور بعد میں مریم نواز کے موقف نے کچھ دن دل بھلانے کا سامان ضرور میسر کیا مگر یہاں سیاسی بہار آنے کے دن ابھی اتنے ہی دور ہیں جتنی دہلی ۔ جن آنکھوں میں اس سال بہار دیکھنے کے خواب ہیں، ان آنکھوں سے بھی معذرت پنڈی کے پنڈتوں نے اس سال کو بھی سیاسی بہار کے لئے اچھا ہونے نہیں دیا۔ سیاسی قیادت سے محبت کرنے کے لئے ترستے لوگوں نے نواز شریف اور مریم کے موقف سے محبت کی مگر وہ خوش فہمی عارضی ثابت ہوئی۔ دائمیت وطن عزیز میں صرف ان کو حاصل ہے جو پہلے اپنی تصویریں ٹرکوں کے پیچھے بنوا کر خوش ہوا کرتے تھے اور اب جھوٹے ٹویٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی مدد سے گالی گلوچ کی جنگیں جیت کر جشن مناتے ہیں۔ اس ملک میں نا کوئی ان کا ثانی ہے اور نا ہی ان کی دائمیت کا، کیونکہ وہ تو اپنے تئیں ”خدائی فوج“ ہیں۔

یہاں تو دل کا حال یہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان بھی کہتا ہے کے ”یہ بازو“ میرے آزمائے ہوئے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ اس جگہ اگر میاں صاحب اور مریم سرفروشی کی باتیں کریں، سرفروشی کی تمنا کا اظہار کریں تو ہمارے سانسوں میں آنے والی بہار کی خوشبو مہکنے لگتی ہے۔ ”بازوئے قاتل“ کی طاقت کا حقیقی اندازہ اگر اس ملک میں کسی کو ہے تو وہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ہے۔ سیاسی قیادت میں سے خون کا رنگ بھی صرف ان ہی دو جماعتوں کی قیادت کو معلوم ہے۔ اسفند یار ولی اور بلاول بھٹو تھوڑے فرق سے باآسانی بتا سکتے ہیں کے ووٹ، ووٹر اور پارلیمان کی عزت بچانے والی جنگ میں کیا کیا قربان کرنا پڑتا ہے۔

جو عباس ناصر جیسے معززین آس لگائے بیٹھے تھے اس بار نواز شریف پنجاب کا بھٹو بنے گا، ان کے غم میں فی الحال برابر کے شریک ہیں۔ بھٹو کیسے بنتا ہے اور بھٹو کیسا ہوتا ہے، اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

”معاف کیجئے گا جناب اعلیٰ! میں ایسا شخص نہیں جس کی جڑیں نہ ہوں۔ جناب اعلیٰ! مری میں مصطفیٰ کھر نے مجھے کہا میں ملک چھوڑ دوں، انھوں نے کہا کے یہ لوگ آپ کے خون کے پیاسے ہیں۔ میں نے کہا، نہیں اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔ میں اپنی جڑیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ 13 ستمبر کو نواب صادق حسین قریشی کی کوٹھی پر پریس کانفرنس کے بعد ایک غیر ملکی صحافی مجھ ایک طرف لے گیا اور اس نے کہا۔ بھٹو صاحب! میں نہیں بتا سکتا کے آپ کے خلاف کیا ہو رہا ہے۔ بہتر یہ ہے آپ ملک چھوڑ دیں۔ میں آپ کا مداح ہوں۔ میں نے اس صحافی کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں اس سے زیادہ نہیں سننا چاہتا۔ بس اتنا ہی کہوں گا کے میں اسے بھول نہیں سکتا۔ تو اس نے کہا، مہربانی کر کے لاڑکانہ نہ جائیں، کہیں اور چلے جائیں۔ آپ نہیں جانتے کے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا میں لاڑکانہ ضرور جاؤں گا۔ اس دھرتی پر جہاں میں نے جنم لیا۔ اس دھرتی پر جس سے میرا تعلق ہے اور جہاں مجھے واپس جانا ہے۔ میں باہر نہیں جاؤں گا۔ میں کسی سے رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا اور جیسا کے میں نے پہلے عرض کیا ہے میں رحم نہیں چاہتا میں انصاف چاہتا ہوں۔ میں محض زندہ رہنے کے لیے زندگی کی درخواست نہیں کروں گا۔“
18 دسمبر 1978 ع کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھٹو نے اپنے مقدمے کے دفاع میں یہ کہا تھا۔
جو بھول جاتے ہیں بھٹو کیسا تھا ان کو یاد دلانے کے لئے ہر حکومتی دور میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے اور ہمیں بھٹو کی یاد دلاتا ہے۔

اشفاق لغاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشفاق لغاری

لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالب علم ہے۔ پڑھنا، لکھنا، گھومنا اور سیاحت کرنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہیں۔

ashfaq-laghari has 32 posts and counting.See all posts by ashfaq-laghari