عمران خان صاحب تلاشی دینے میں کیا حرج ہے؟


گزرشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ کوئی ہم سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ اربابِ اختیار کی صف میں ہے یا وہ صاحبِ اقتدار ہے تو نیب اس کی طرف سے آنکھیں بند رکھے گا، ایسا نہیں ہو گا۔

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نہ صرف اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ احتساب کے سلسلے میں نیب کا جھکاؤ ایک طرف ہے بلکہ اس کی نفی بھی کرتا ہوں۔ ان کے مطابق ’اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ اگر انھیں کام کرنے دیا گیا تو وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ’نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں، کسی گروہ سے نہیں بلکہ اس کا تعلق صرف پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ ہے۔ ‘

ہماری قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے مگر شاید یہ بات ان کے حافظے میں موجود ہو کیونکہ بات زیادہ پرانی نہیں ہے کچھ عرصے پہلے جاوید چوہدری نے چیئرمین صاحب سے ملاقات کا احوال پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا

بقول چیئرمین نیب جسٹیس جاوید اقبال کہ تمام کرپٹ لوگ مجھے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کچھ لوگ چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے ’بابراعوان کا ریفرنس‘ علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کی غیرقانونی لیز کی انکوائری رک جائے ’پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے‘ لینڈ گریبرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں ’یہ سب مل کر اب دباؤ بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑ رہے۔

چند دن کی بات ہے ریفرنس مکمل ہو چکا ہے ’آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے بس مجھے صرف ایک خطرہ ہے میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں‘ یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انھیں اگر کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود یہ ہو کر رہے گا ’مالم جبہ کا ریفرنس تگڑا ہے پرویز خٹک کو بھی اپنی کرپشن کا حساب دینا ہو گا۔

یہ تھا چیئرمین نیب سے ملاقات کا وہ احوال جس کو جاوہد چوہدری نے اپنے کالم میں قلم بند کیا اور پھر دیکھا گیا کہ چند ہی روز بعد چیئرمین نیب کا ایک ویڈیو اسکنڈل ایک نجی چینل ٹی ون سے منظر عام پر لایا گیا۔ جس سے چیئرمین صاحب کی اس بات کو مزید تقویت ملی کہ حکومتی ارکان کی طرف سے بھی احتسابی عمل سے بچنے کے لئے مجھے دباؤ میں لانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہہاں اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ نجی ٹی وی چینل کے مالک طاہر اے خان پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے مشیر بھی تھے۔ اور ان کے ہی چینل سے چیئرمین نیب کا یہ ویڈیو اسکنڈل سب سے پہلے وائرل کیا گیا۔

اب گزرشتہ روز جب چیئرمین نیب نے حکومتی ارکان کے خلاف احتسابی عمل کا دوبارہ کھل کر اعلان کیا تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ حکومتی صفوں میں موجود کرپٹ کالی بھیڑیں خود کو احتسابی عمل سے بچانے کے لئے ایک بار پھر وہ ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہیں۔ اور چیئرمین نیب کا پھر کوئی اسکنڈل منظر عام پر لاکر ان کو دباؤ میں لانے کی سازشیں کرسکتی ہیں۔

ایک طرف عمران خان اور ان کے ہمنوا اپنی تقاریر اور بیانات میں کمزور اور طاقتور کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون پر صف ماتم کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف خود کو احتسابی عمل سے بچانے کے لئے قانون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال الیکشن کمیشن میں اکبر ایس بابر کا فارن فنڈنگ کیس ہے جہاں حکومتی جماعت تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے مسلسل پانچ سال سے الیکشن کمیشن کی کارروائی روکوانے کے لئے stay order کے پیچھے چھپ رہی ہے۔

بقول عمران خان اگر چوری نہیں کی تو تلاشی دینے میں کیا حرج ہے تو پھر قوم یہ ہی سوال آج ان سے کرتی ہے اگر آپ کا دامن صاف ہے آپ نے چوری نہیں کی تو پھر کیوں پورے پانچ سال سے تلاشی دینے سے کترا رہے ہیں اور stay پر stay حاصل کررہے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء لفاظی کے بادشاہ ہیں۔ اور وہ پوری کوشش کرتے ہیں قوم کی دکھتی رگ کو تھامتے ہوئے اپنی لفاظی سے ان کے اذہان پر قابو پا سکیں۔ اور بدقسمتی سے ہماری قوم ان ہی کھوکھلے سیاسی نعروں اور گرم جوش تقاریروں اور ان کی لفاظی سے متاثر ہوکر ان جیسے کرداروں کو اپنا مسیحا تصور کرکے بیوقوف بنتی چلی آرہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).