انڈونیشیا میں بچے کی لاش نہ دینے پر موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیوروں کا ہسپتال پر دھاوا


انڈونیشیا میں ایک ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال واجبات کی عدم ادائیگی پرچھ ماہ کے بچے کی لاش اس کے والدین کو دینے سے انکار کیے جانے کے بعد موٹر سائیکل ٹیکسی سروس کے چند ڈرائیور بچے کی لاش ’انسانی حقوق کے مشن‘ کے تحت طاقت کے زور پر ہسپتال کے مردہ خانے سے لے گئے۔

انڈونیشیا کے شہر پدانگ میں وردیان ساہ نامی ایک شخص ان درجنوں موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیوروں میں سے تھے جنھوں نے یہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ گروہ اس بچے کی لاش کے ساتھ ہسپتال کے مردہ خانے سے نکل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈونیشیا کے وہ گاؤں جہاں مائیں نہیں ہوتیں

انڈونیشیا کے ’پائلٹس‘ سے طلاق کا مطالبہ

خواتین کو مساوی حقوق دینے والے صرف چھ ممالک

ہسپتال کی جانب سے خاندان کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے چھ ماہ کے بچے کی میت کو اس وقت تک نہیں لے جا سکتے جب تک ہسپتال کے تمام بل ادا نہیں کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر موٹر سائیکل ٹیکسی سروس کے ڈرائیوروں نے رد عمل ظاہر کیا۔ یہ اس لیے بھی ہوا کہ بچے کا ایک رشتے دار ان ڈرائیوروں میں شامل تھا۔

وردیان ساہ نے بی بی سی انڈونیشیا سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم نے اس لیے یہ قدم اٹھایا کیونکہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ یہ خاندان اپنے بچے کو اس لیے دفنانے کے لیے نہیں لے کر جا سکتا کیونکہ وہ 1774 امریکی ڈالر کے واجبات ادا نہیں دے پایا تھا۔‘

’سکیورٹی اہلکاروں نے ہمیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ہار مان گئے کیونکہ ہم بہت زیادہ تھے۔‘

ٹیکسی ڈرائیور انڈونیشیا

انڈونیشیا میں اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ ان والدین کا کیا جو اپنے ہسپتال کے بل ادا نہیں کر سکتے؟

ماضی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں انڈونیشیا کے ہسپتالوں اور کلینکس نے بچوں کو اس وقت تک یرغمال بنا کر رکھا ہے جب تک واجبات ادا نہیں کر دیے گئے۔

صدر جوکو ویدودو کے دور میں ملک گیر صحت کا پروگرام متعارف کروایا گیا ہے۔ لیکن یہ منصوبہ فنڈنگ کے مسائل سے دوچار ہے اور غریب خاندان اس میں رجسٹر ہونے میں ناکام رہے ہیں۔

بچے کی والدہ دیوی سریا کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان بھی اس صحت کے پروگرام میں شامل ہونے جا رہا تھا لیکن اسی وقت ان کا بچہ بیمار ہو گیا تھا۔

اس کی سرجری کی گئی لیکن وہ 19 نومبر کی صبح تک مر چکا تھا۔ انھوں نے بتایا ’ہسپتال چاہتا تھا کہ ہم بل ادا کریں۔ انتظامی عمل میں وقت لگ رہا تھا۔ ڈرائیور غصے میں تھے تو وہ طاقت کے زور پر لے گئے۔‘

جنازے کے دوران روتے ہوئے انھوں نے کہا ’بے چارہ آلف مردہ خانے میں کافی دیر تک انتظار کر رہا تھا۔‘

ہسپتال نے بعدازاں اس واقعے پر معافی مانگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

ہسپتال کے ڈائریکٹر یوسر وان یوسف نے کہا ہے کہ واجبات ان کے میڈیکل بورڈ نے ادا کر دیے ہیں۔ انھوں نے اس واقعے کو ایک غلط فہمی قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال کو اس وقت خاندان کی صورتحال کا اندازہ ہوا جب انھوں نے ہمارے ایک اہلکار سے شکایت کی۔‘

’ہم ایک سرکاری ہسپتال ہیں اور ہم کبھی اپنے مریضوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ آیا ان کے پاس علاج کے پیسے ہیں۔‘

تاہم یوسف نے موٹر سائیکل ٹیکسی سروس کے ڈرائیوروں کی آمد پر تنقید کی اور انھیں خطرناک اور لاپرواہ قرار دیا۔

’ہمارا ایک طریقہ کار ہے اور اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ حیران کن ہے۔ کیا ہوتا اگر مرحوم بچہ کسی چھوت کی بیماری میں مبتلا ہوتا؟ ایسے حالات میں کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا؟‘

بعد میں موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیوروں کے ایک نمائندے نے ہسپتال انتظامیہ سے معافی مانگ لی ہے۔

ڈرائیور الفیاندری نے کہا ’میں اپنے ساتھیوں کی طرف سے واقعے پر معافی مانگتا ہوں۔ اور ہم کوشش کریں گے کہ ہسپتال کی ساکھ بحال کر سکیں۔ ہم طریقہ کار سے ناواقف تھے۔ اس میں بہت وقت لگ رہا تھا، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp