انڈیا میں مسلمان این آرسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟


انڈیا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کے لیے شہریوں کا نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز یعنی این آر سی کا عمل پورے ملک میں شروع کرے گی۔ این آر سی کا عمل ابھی تک صرف آسام میں شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد بنگال سمیت کئی ریاستوں بالخصوص مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔

آسام میں این آر سی کیوں؟

شمال مشرقی ریاست آسام بنگلہ دیش سے متصل ریاست ہے۔ وہاں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد گذشتہ ایک صدی میں بڑی تعداد میں بنگالی نژاد باشندے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ان میں تقریباً ستر لاکھ بنگالی نژاد مسلم اور پچاس لاکھ ہندو شامل ہیں۔

آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد سے زیادہ ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور آسام کی کئی علاقائی جماعتیں کئی عشروں سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ ریاست میں ایک کروڑ سے زیادہ بنگلہ دیشی مسلم غیر قانونی طور پر آ کر آباد ہوگئے ہیں۔

آسام میں غیر ملکی تارکین وطن کے سوال پر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف کئی بار خونریز فسادات ہوچکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف علاقائی جماعتوں اور ریاست کے طلبہ کی ایک طویل اور پر تشدد تحریک کے بعد مرکز، ریاست اور طلبہ تنظیموں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت آسام میں 24 مارچ 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آنے والے تمام باشندوں کو غیرملکی قرار دیا گیا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت اور انھیں ملک بدر کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر 2015 میں آسام میں این آر سی کا عمل شروع کیا گیا۔

آسام نے این آر سی مسترد کیوں کر دیا ؟

آسام میں سبھی باشندوں کے دستاویزات کی جانچ کے بعد تقریباً 19 لاکھ باشندوں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا۔ اب انھیں اپنی شہریت ایک فارینرز ٹرائیونل میں ثابت کرنی ہوگی۔

این آر سی کی فہرست میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ 19 لاکھ میں کتنے ہندو ہیں اور کتنے مسلمان۔ لیکن پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر کئی سیاسی رہنماؤں کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں کم ازگم گیارہ لاکھ بنگالی ہندو ہیں اس کے علاوہ کئی لاکھ قبائلی، مقامی آسامی اور نیپالی گورکھا بھی ہیں۔ کئی اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بی جے پی یہ توقع کر رہی تھی کہ این آر سی کے عمل میں لاکھوں ملسمان غیر ملکیوں کی فہرست میں آجائیں گے لیکن نتیجہ اس کے بر عکس نکلا۔ ریاستی حکومت نے این آر سی کے عمل میں نقائص کا الزام لگا کر اسے مسترد کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

آسام: لاکھوں مسلمانوں کے بے وطن ہونے کا اندیشہ

سات روہنگیا افراد کو ملک بدر کر کے انڈیا کیوں خوش ہے؟

پورے انڈیا میں آین آر سی کیوں؟

وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ اب پورے ملک میں این آر سی شروع کیا جائے گا۔ تاہم کب سے انھوں نے اس کا وقت نہیں بتایا۔

اس اعلان میں ان کا سب سے زیادہ زور مغربی بنگال پر ہے جہاں بی جے پی کے خیال میں کروڑوں غیر قانونی بنگلہ دیشی مسلمان آکر بس گئے ہیں۔

امت شاہ نے ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا ‘یہ غیر قانونی درانداز ہمارے ملک کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ ہم سبھی دراندازوں کو خلیج بنگال میں پھینک دیں گے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’یہ بنگالی بالخصوص بنگالی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی مہم ہے‘۔

شہریت کس طرح طے کی جاتی ہے؟

آسام میں کوئی بھی شخص جو 24 مارچ 1971 سے پہلے ریاست میں آباد تھا اسے شہری تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اسے 1951 سے لے کر اب تک اپنے خاندان کے سبھی افراد، اپنے والدین اور ان کے والدین کی رہائش کا بھی ثبوت دینا پڑا ہے۔

یہ کام غریب اور ناخواندہ باشندوں کے لیے انتہائی مشکل عمل رہا ہے۔ کیونکہ ان میں سے بیشتر کے پاس سوائے ووٹر لسٹ کے کوئی دوسرا ثبوت حاصل کرنا مشکل تھا۔ ووٹر لسٹ میں ناموں کے حروف تہجی میں عموماً غلطی رہتی تھی۔ بہت سے لوگوں کے نام شہریت کی فہرست سے صرف نام کی غلطی یا پورا نام نہ دینے کے سبب خارج ہوگئے۔

شہریت ثابت کرنے کے لیے زمین کی ملکیت کے کاغذات، پیدائش کا سرٹیفیکٹ، گورنمنٹ سکول سرٹیفیکٹ، بینک اکاؤنٹ، ملازمت کے کاغذات، شادی کے سرٹیفیکٹ، پرانی ووٹر لسٹ جیسے کاغذات داخل کرنے تھے۔ پورے ملک میں این آر سی شروع کرنے سے پہلے شہریت کی ایک کٹ آف ڈیٹ مقرر کرنی ہوگی یعنی ایک مخصوص تاریخ اور سال طے کرنا پڑے گا۔

مسلمان این آرسی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

انڈیا کے مسلمانوں کا خیال ہے کہ این آر سی غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہرا‎ساں کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

انڈیا

آسام میں تین کروڑ تیس لاکھ کی آبادی کے لیے اس عمل میں پانچ سال لگے ہیں اور تقریـباً دو ہزار کروڑ روپے صرف ہوئے ہیں

وزیر داخلہ نے اگرچہ یہ اعلان کیا ہے کہ این آر سی میں کسی شہری کے ساتھ مذہب یا نسل کی وجہ سے کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ لیکن دوسری جانب وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ (جنوری 2019 میں لوک سبھا میں پاس ہونے والے سٹِزنز امینڈمنٹ بل کے تحت) بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے مذہبی بنیادوں پر استحصال کی وجہ سے انڈیا آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور مسیحی افراد کو انڈیا کی شہریت فراہم کی جائے گی۔ یہ بل ابھی راجیا سبھا میں پیش ہونا باقی ہے۔

ان بیانات سے مسلمانوں کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

مسلمان صرف غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کے بارے میں فکرمند نہیں ہیں بلکہ انھیں ڈر ہے کہ اس عمل میں حکومت لاکھوں مسلم شہریوں کو دانستہ طور پر شہریت سے بے دخل کرنے کی کوشش کرے گی۔

کیا پورے ملک میں این آر سی کا عمل ممکن ہے؟

آسام میں تین کروڑ تیس لاکھ کی آبادی کے لیے اس عمل میں پانچ سال لگے ہیں اور تقریباً دو ہزار کروڑ روپے صرف ہوئے ہیں۔

پورے ملک میں ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کے لیے این آر سی کرنا بہت مہنگا قدم ہوگا۔ پھر یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ کامیاب بھی ہو۔ آسام میں این آر سی کی تکمیل کے بعد خود ریاستی حکومت نے اسے مسترد کر دیا ہے اور اس لیے لگتا ہے کہ غیر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستیں مرکز سے تعاون نہیں کریں گی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مودی حکومت کا ایک انتخابی حربہ ہے۔ لوگ اسے ایک مسلم مخالف قدم کے طور پر دیکھتے ہیں اور بی جے پی کو اس سے انتخابی فائدہ بھی پہنچا ہے۔

حکومت آئندہ انتخابات سے قبل این آر سی کے آغاز کا اعلان کر سکتی ہے۔

آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گوگئی کا کہنا ہے کہ ’مودی حکومت کی اقتصادی پالیسی بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک اقتصادی مندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں این آرسی کے ذکر کا مقصد لوگوں کی توجہ حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانا ہے‘۔

گوگئی کا خیال ہے کہ آسام میں این آر سی کی ناکامی کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ملک گیر سطح پر ہو سکے گا یا نہیں اور اگر کر بھی لیا گیا تو یہ کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp