بکھیڑا لبرل اور پروگریسیو ”ترقی پسند“ ہونے کا


معلوم ہوا کہ لبرل افراد کو ”دیسی لبرل“ یا ”لنڈے کے لبرل“ صرف رجعت پسند ہی نہیں بلکہ وہ جنہیں پروگریسیو ہونے کا زعم ہے وہ بھی کہتے ہوں گے یا شاید کہتے ہی ہوں۔ بتایا گیا کہ لبرل ضروری نہیں کہ پروگریسیو بھی ہو مگر پروگریسیو بلا شبہ لبرل ہوگا۔ کیا کسی کو یہ جان کر حیرت نہیں ہوگی کہ جو لبرل کو پروگریسیو نہ سمجھے وہ بھلا کیسے خود کو پروگریسیو کہلا سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ اصطلاح پروگریسیو یعنی ترقی پسند ان کرمفرماؤں نے اپنے لیے رجسٹر کروائی گئی سمجھی ہوئی ہے جو خود کو خیر سے مارکسسٹ یا مارکسسٹ اور اس سے بھی زیادہ خیر سے لیننسٹ خیال کرتے ہیں۔ یقیناً ماؤسٹ بھی ایسے ہی زعیم ہوتے ہوں گے۔ رجعت پسند تو لبرل ہو ہی نہیں سکتا اگر کوئی لبرل ہوگا وہ رجعت پسند نہیں ہوگا اور اگر کوئی رجعت پسند نہیں تو پروگریسیو ہونے کا زعم رکھنے والے انہیں خود سے کمتر کیوں خیال کرتے ہیں؟

کہا یہ گیا کہ اگرچہ ”محض لبرل“ افراد بھی سماج کو روایات اور سٹیٹس کوو کی باقیات سے پاک کرنے کی بات کرتے ہیں اور اپنے طور پر اپنی تحریر و بیان سے اس کے لیے کوشاں بھی ہوتے ہیں پہلی بات تو یہ کہ ان کا یہ فعل انفرادی ہوتا ہے، دوسری بات یہ کہ وہ ایسا کسی نظریہ کے تحت نہیں کر رہے ہوتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نظریہ کسی تصور کا نام ہے تو لبرلزم بذات خود ایک نظریہ ہے اور اگر نظریہ کسی منضبط تصور یعنی آئیڈیالوجی سے ہی عبارت ہوتا ہے تو صرف مارکسزم ہی کیوں لبرل ہونے کا دم بھرتا نظر آئے جبکہ اس نظریے کی چند ایک اشکال جو عملی طور پر سامنے آئیں چاہے بالشویزم کے فرغل میں یا اس نظریہ سے متعلق ماؤ کے خیالات پر عمل کیے جانے کی صورت میں وہ سب جبر سے عبارت رہیں۔ اصطلاح ”پرولتاریہ کی آمریت“ ہی اپنی روح میں لبرلزم کی نفی ہے کیونکہ آمریت فرد کی ہو یا کسی گروہ کی وہ اجتماع کی مکمل شکل کی نمائندگی ہرگز نہیں کر سکتی پھر آمریت بذات خود اپنی ہئیت اور عمل میں جبر و استبداد کا دوسرا نام ہوگا۔

عرض یہ ہے کہ کوئی رجعت پسند اول تو لبرل ہوگا ہی نہیں اگر ڈھکا چھپا ہوگا بھی تو وہ خود کو لبرل کہلانا پسند نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنی صف سے نکل جائے گا جو وہ نہیں چاہے گا۔ اسی طرح کوئی لبرل رجعت پسند ہو نہیں سکتا چنانچہ آپ نے خود کو پروگریسیو کہہ کر جہاں خود کو رجعت پسندوں کی مخالف سمت میں کھڑا کر دیا جو آپ کا مقصد تھا وہاں آپ نے خود کو لبرل ہونے کے دعویداروں سے بھی جدا کر دیا جو آپ کا بظاہر مقصد نہیں تھا۔ لبرل ممکن ہے مارکسزم کو پسند کرنے لگے اگرچہ اس کا ناقد بھی ہو مگر خود کو ترقی پسند کہلوانے والے کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ لبرل کو ناپسند کرے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ لبرل اگرچہ سماجی شعور بلند کیے جانے کے حامی ہوتے ہیں، خواتین کے حقوق دیے جانے کے داعی ہوتے ہیں، بوسیدہ روایات سے جان چھڑائے جانے کے حق میں ہوتے ہیں، معاشرتی ناہمواری کو پاٹنے کی بات کرتے ہیں مگر وہ یہ سب کچھ نظام سرمایہ داری کے تحت رہتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں مگر ترقی پسند معاشی نظام کو یکسر تبدیل کیے جانے کا علم بردار ہوتا ہے۔

کہاں ایک یا چند اشخاص ایک خاص طرح کا علم بلند کیے کھڑے نعرے لگا رہے ہوں اور کہاں بہت زیادہ لوگ معاشرے کی بالیدگی کی بات کرنے، تمام نوع کی ناہمواریوں کے دور کیے جانے کی بات کرنے والے لوگوں کو لوگوں میں مقبول اور سربلند کیے جانے کے جتن کرتے دکھائی دیں تو ان دونوں میں سے لوگوں کی اکثریت میں کس کو پذیرائی ملے گی؟ اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔

پروگریسیو اور لبرل کی یہ بحث ایک متین دوست کی جانب سے محض ایک فقرہ کہے جانے سے شروع ہوئی، ان کے منہ سے نکل گیا کہ فیض فیسٹیول اصل میں لبرلز کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ہوئے فیض فیسٹیول کے موقع پر ایک سیاسی رہنما محبی فاروق طارق کی سرکردگی میں ایک تھیٹر گروپ نے سٹریٹ تھیٹڑ کی شکل میں ”جب لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا“ کے نعرے بلند کرنے سے پہلے ایک نوجوان خاتون کے منہ سے فیض کا شعر ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے“ کو خاص انداز سے ادا کروایا گیا تو سوشل میڈیا پر ہلچل مچ گئی۔

پہلے تو لاکھوں نے اس مختصر ویڈیو کو دیکھا پھر اس خاتون کے حق اور مخالفت میں بات ہونے لگی۔ چاہے مذاق میں سہی لیدر جیکٹ کے خلاف فتویٰ دیے جانے کی بات ہوئی۔ پھر عروج اورنگزیب نام کی اس لڑکی کا مناسب اور مدلل مختصر انٹرویو سامنے آیا اور اب مخالفین اس کو ”نظریہ پاکستان“ کے خلاف سزش قرار دے کر افراسیاب سے عروج تک کو پی ٹی ایم کا ساتھی قرار دے کر غدار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

تو جناب اگر لبرل فیض فیسٹیول کا اہتمام نہ کرتے تو فاروق طارق کی سربراہی میں یہ گروہ کیا مال روڈ پہ آ کے نعرے لگاتا اور لگاتا تو کیوں لگاتا۔ فیض کے شعر سے آپ پروگریسیو حضرات کا ”لال لال بھی لہرا گیا“ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو معلوم ہو گیا کہ سرفروشی کی تمنا کن لوگوں میں ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہے، وہ بازوئے قاتل کے زور کو آواز کیوں دیتے ہیں؟ اگر آپ ترقی پسند مثال کے طور پر اپنی بٹی ہوئی انجمن ترقی پسند مصنفین کی کوئی کانفرنس کروا رہے ہوتے یا چند افراد پر مبنی کمیونسٹ پارٹی کوئی جلسہ کرنے کی ہمت کر لیتی تو بات کتنے لوگوں تک پہنچتی۔ لال بینڈ کی وجہ سے تیمور رحمان جو خوشحال لوگوں کا فرزند ہے، غیر ملک کا پڑھا ہوا ہے، لمز جیسے ایلیٹ ادارے میں پڑھاتا ہے، اپنی کمیونسٹ پارٹی کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں میں لے جانے کے قابل ہو پاتا ہے۔

چنانچہ خود کو ثقہ بند نظریاتی سمجھنے والے ہمارے ملک کے پونے چار سو ترقی پسند دوستوں سے تو استدعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ لبرل خواتین و حضرات کو رجعت پسندوں کے ہم پلہ خیال نہ کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).