نیدرلینڈ کی بحریہ کے ایک سابق ملازم کی کہانی: ’میں نے بحریہ سے نکلنے کے لیے طیارہ چوری کیا‘


وان ایجک

بی بی سی کی ایما جین کربی دو برسوں سے ایک امریکی میکینک سارجنٹ پال میئر کی کہانی پر تحقیق کر رہی ہیں جنھوں نے انگلینڈ میں امریکی فضائیہ کے اڈے سے سنہ 1969 میں ایک طیارہ چرایا تھا تاکہ اپنے گھر ورجینیا جا کر اپنی اہلیہ سے مل سکیں۔

ان کی یہ کہانی نیدرلینڈ کے ایک شہری تھیو وین آئیک کی کہانی سے ملتی ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی فوج میں نوکری کے دوران ایک طیارہ چرایا تھا، لیکن وہ اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ بچ گئے۔

برطانیہ کے علاقے سمرسیٹ میں تھیو وین آئیک کا چھوٹا سا گھر عجائبات کے کسی خزانے سے کم نہیں۔ لیکن سب سے دلچسپ سامان وان ایجک کے کافی ٹیبل پر پھیلا نظر آتا ہے جو کہ سنہ 1964 کے ڈچ اخباروں کے تراشے ہیں جن پر شہ سرخیوں میں لکھا ہے کہ کس طرح ایک نوجوان کشتی بان نے ایک ’گرمان ٹریکر پراپلر‘ طیارہ مالٹا میں اپنے فوجی ٹھکانے سے چرایا اور اسے لیبیا کے شہر بن غازی لے گیا۔

تھیو ہنستے ہوئے کہتے ہیں ‘وہ میں تھا۔’

اب وہ 76 سال کے ہیں اور ان کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ ‘تصویر میں میں ہی ہوں۔ اس وقت میں صرف 21 سال کا تھا!’

ان کی اہلیہ مجھے ایک کافی کا مگ تھماتی ہیں اور مجھے کہانی کا ترجمہ کرتے ہوئے سر ہلاتی ہیں۔

وہ مذاق میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ‘خودسر چھوٹا آدمی۔ بڑا کارنامہ تھا، لیکن میں اس وقت تمھیں نہیں جانتی تھی۔’

یہ بھی پڑھیے

ایمریٹس کے طیارے کے قریب آسمانی بجلی گرنے کا منظر

’جہاز چوری کرنے والے کو ایئرپورٹ پر آنے کی اجازت تھی‘

دنیا کی طویل ترین آزمائشی پرواز مکمل

وان ایجک

تھیو وین آئیک

اس وقت نوجوان وان ایجک کا صرف طیارہ اڑانے کا خواب تھا اور ان کا یہ خواب اس وقت سے تھا جب وہ صرف سات سال کے تھے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین طالب علم نہیں تھے اور انھیں یہ خوف تھا کہ ایئر فورس میں پائلٹ کے طور پر شامل ہونے کے لیے انھیں جو نمبر یا گریڈ چاہییں وہ شاید حاصل نہ کر سکیں۔

لیکن پھر انھوں نے ڈچ بحریہ میں ایک سکیم کے بارے میں سنا جس کے تحت ایک نوجوان ٹرینی الیکٹریشین وہاں کام کرسکتا تھا اور وہ اگر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا تو وہ بحریہ کے پائلٹ کے تربیتی کورس میں داخلے کے لیے عرضی داخل کر سکتا تھا۔ مثبت رویے سے بھرپور 19 سال کے تھیو کو کوئی تردد نہیں ہوا۔ انھوں نے فوراً آٹھ سال کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے۔

سنہ 1964 کے اوائل میں جب ان کے لاگ بک پر 40 گھنٹے پرواز کا تجربہ درج کیا جا چکا تھا تو وان ایجک ہالینڈ میں اپنے بیرک میں ایک پارٹی میں شامل ہوئے جہاں انھوں نے خوب شراب پی۔ ان کے کمانڈنگ آفیسر بھی پارٹی میں شامل تھے اور اس سے خراب بات یہ تھی کہ وہ طیارے کی پرواز کے متعلق باتوں کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے تھیو سے کہا کہ وہ پائلٹ ٹریننگ سکیم کے معیار کے بارے میں کھل کر (اس وقت وہ بلجیئن ایئر اور ڈچ بحریہ کا مشترکہ پروگرام تھا) ایمانداری کے ساتھ بات کریں۔ انھوں نے وان ایجک کو یقین دلایا کہ ان کی باتیں اس محفل میں ہی رہیں گی۔

اور اس طرح 21 سالہ تھیو نے اپنے بھولے پن میں کھل کر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک باضابطہ طیارے میں تربیت دی جانی چاہیے نہ کہ گرمان ٹریکر آبدوز شکن طیارے میں جسے اس وقت بلجیئم والے تربیت کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جن طیاروں پر انھیں تربیت دی جا رہی ہے وہ (جہاں تک انھیں یاد تھا اس کے لیے انھوں نے کہا تھا) ‘صاف طور پر بالکل سڑے ہوئے ہیں۔’

وان ایجک

اس وقت تک تھیو کا پرواز کا اچھا ریکارڈ تھا لیکن پارٹی کے دوسرے ہی دن ان کے رپورٹ کارڈ پر وارننگ کی علامت کا نارنجی نشان لگا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ فیل ہونے کے دہانے پر ہیں۔ اس ناانصافی پر انسٹرکٹر کا انتظار کرتے ہوئے غصے میں انھوں نے کلاس روم کے بلیک بورڈ پر منھ پھٹ انداز میں تربیتی پروگرام کی سستی پر کچھ لکھ دیا۔ اس کی وجہ سے انھیں بیرک کی جیل میں رکھ دیا گیا لیکن وہ اپنے سیل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب ان کی غیر حاضری کا پتہ چلا تو انھیں فوراً پائلٹ سکیم سے نکال دیا گیا۔

تھیو سے کہا گیا کہ وہ ان سینیئرز کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں جو پہلے خود ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ لیکن افسروں نے انھیں بھرنے کے لیے غلط فارم دے دیے۔ جب تین ماہ بعد انھیں جواب ملا تو اس میں ان سے کہا گیا تھا کہ انھوں نے صحیح طریقہ اختیار نہیں کیا اور اب مزید اقدام کے لیے کافی دیر ہو چکی ہے۔ اب بطور پائلٹ ان کی تربیت نہیں ہونی تھی اور جو چھ سال معاہدے کے بچے تھے اس میں انھیں بحریہ میں ایک الیکٹریشین کے طور پر خدمات انجام دینی تھیں۔

تھیو کہتے ہیں کہ ‘میں ایک بڑے خاندان سے آتا ہوں۔ اور خاندان میں ہمیں معلوم ہے کہ ٹھیک ٹھیک ہوتا ہے اور غلط غلط۔ اور یہ غلط تھا اور بالکل صحیح نہیں تھا۔’ وہ 12 بھائی بہنوں میں نویں نمبر پر تھے۔

طیارے کو اڑانے کے اپنے خواب کے چور چور ہونے سے مایوس اور دلبراشتہ وان ایجک نے بحریہ سے سبکدوشی کی بار بار عرضی داخل کی لیکن انھیں ہر بار ٹھکرا دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے فوج سے اپنے آپ کو ہیمشہ کے لیے نکالنے کا طریقہ سوچنا اور منصوبہ بنانا شروع کیا۔

شرماتے ہوئے انھوں نے کہا ‘میں نے اس بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ اگر میں نے کسی کو بتا دیا ہوتا تو میرا کام نہیں ہوتا۔’

طیارہ گرمان ٹریکر

گرمان ٹریکر

سارجنٹ پال میئر کی طرح تھیو نے اپنی آزادی کا پروانہ طیارہ چرانے کو سمجھا۔ انھوں نے گرومان ٹریکر طیارے کی ایک گائیڈ بک حاصل کی اور اسے اپنے لاکر میں چھپا دیا۔ انھوں نے کوالیفائڈ پائلٹوں سے دوستی کی اور ان سے انجن کے سٹارٹ ہونے اور ٹیک آف کے بارے میں باتیں کرتے۔

وہ دبی ہنسی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ‘انھیں ذرا بھی اندازہ نہیں ہوا کہ میں اس میں کیوں دلچسپی لے رہا ہوں۔ لیکن ہالینڈ سے راستہ ذرا مشکل تھا۔ میں تمام تر سیاسی پریشانی کے سبب مشرقی جرمنی نہیں جانا چاہتا تھا۔ اور پھر ایک دن انھوں نے برطانوی بحریہ کے ساتھ دو مہینے کی مشق میں مالٹا جانے کے لیے رضاکاروں کو طلب کیا۔ اور میں نے سوچا کہ مالٹا سے میں کہیں بھی پرواز کر سکتا ہوں۔’

مالٹا میں تھیو ہوائی اڈے پر ہوا بازی کے میکنیکوں کے ساتھ بات کرتے رہتے اور انھیں کام کرتے دیکھتے۔ صبح اور شام وہ اپنی ٹریکر ہینڈ بک کا اچھی طرح مطالع کرتے۔ گھر واپس آنے سے قبل والے آخری سنیچر کو انھوں نے مہذب انداز میں الوداعی تقریب میں شرکت کی اور جہاں دوسرے بہتی ہوئی مفت کی شراب کے لالچ میں ڈھیر ہو رہے تھے وہیں نوجوان ایجک ہوشیاری کے ساتھ سنجیدہ بنے ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اور یہیں میری کہانی سارجنٹ پال میئر کی کہانی سے ملتی ہے۔ کیونکہ دوسری صبح میں جلدی اٹھے، ایک بائیک مانگی اور اسے چلاتے ہوئے رن وے پر پہنچ گئے۔ سارجنٹ میئر نے محافظوں کو اپنا نام کیپٹن ایپسٹین بتایا تھا۔ میں نے ڈیوٹی پر موجود گارڈ کو اپنا نام جانسن بتایا اور اسے کوئی اندازہ نہیں ہوا کہ میں کون ہوں اور اس نے مجھے دروازہ کھولنے میں مدد کی۔’

تھیو نے ہوشیاری کے ساتھ اپنی چوری کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے گارڈ کی پستول کو اور بائیک کو لاک کرنے یہاں تک کہ اس کے آفس کے ٹیلیفون سے مائیکروفون کو ہٹانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔

کھلا آسمان

اس صبح کے جوش کو یاد کرتے ہوئے وان ایجک کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔

انھوں نے کہا ‘پھر میں نے انجن سٹارٹ کیا، ریڈیو کے سوئچ کو آن کیا اور کنٹرول ٹاور نے پوچھنا شروع کیا کہ میں کون ہوں اور میں کیا کر رہا ہوں، میں نے جواب نہیں دیا اور طیارے کو دوڑاتا رہا۔۔۔’

وہ ڈرامائی انداز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ملتے ہیں تاکہ اپنی کھلی ہتھیلی مجھے دکھا سکیں جیسے کہ کوئی جادو گر چیز کو غائب کرتے ہوئے دکھاتا ہے۔

‘اور پھر۔۔۔ میں یہ جا وہ جا، جا چکا تھا۔’

اور اس طرح ڈچ بحریہ کا گرمن ٹریکر آبدوز شکن طیارہ جس پر دو ٹارپیڈو لگے تھے وہ شمالی افریقہ کی جانب پرواز کر رہا تھا۔

تھیو کہتے ہیں کہ ‘مجھے ٹارپیڈو کے بارے میں قدرے پریشانی ہوئی۔ لیکن میں نے پھر اسے جھٹک دیا کیونکہ مجھے بس وہاں سے نکلنا تھا۔ کسی طرح بھی اب بحریہ مجھے واپس نہیں لا سکتی تھی۔’

بحیرۂ روم پر پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر تھیو بالکل تن و تنہا پرواز کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے پتہ ہے کہ سارجنٹ میئر کو کیسا محسوس ہوا ہوگا۔ کیونکہ وہی مجھے بھی محسوس ہوا۔ یہ میری زندگی کا بہترین واقعہ تھا۔ آپ ایسی چیز کر رہے ہیں جسے ہر کوئی کہتا ہے کہ نہیں کرنی چاہیے اور آپ تنہا وہ کر رہے ہوں۔ اس بڑی مشین میں صرف آپ ہیں اور آپ کسی سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ تنہا اس کھلے آسمان میں اور۔۔۔’

وہ اچانک رک جاتے ہیں جب انھیں لگتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کوئی بھی اسے آپ سے واپس نہیں لے سکتا۔ وہ شاندار تھا، بہت طاقتور، میں اب بھی اسے محسوس کر سکتا ہوں۔ اور میں پوری طرح مطمئن تھا کہ میں وہ کر سکتا ہوں۔’

میں نے تھیو کو یاد دلایا کہ سارجنٹ میئر جب کاک پٹ میں بیٹھے تھے تو یہ طے کرنے کے لیے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں اور خود کو پرسکون کرنے کے لیے انھوں نے ریڈیو پر اپنی اہلیہ کو کال کی تھی۔ میں نے وان ایجک سے سوال کیا کہ جب وہ انجان راہوں پر نکل پڑے تو کیا انھیں اپنے گھر والے یاد آئے؟

انھوں نے دھیرے سے کہا ‘میری ماں۔ ہاں مجھے ماں کا خیال آیا۔ اس سے شاید ایک ہفتے قبل میں نے ان کے لیے ایک تحفہ بھیجا تھا۔ وہ چاندی کی صلیب تھی۔ اور انھوں نے اندازہ لگا لیا کہ میں کوئی چیز کرنے جا رہا ہوں۔ میری ماں۔’

وہ اب اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے اور انھوں نے رکنے کے لیے کہا تاکہ وہ اپنی کافی ختم کر سکیں۔ کھلی کھڑکیوں سے ہوا اندر داخل ہو رہی تھی اور ہماری خاموشی کو کسی موسیقی سے بھر رہی تھی۔ میز پر رکھے پرانے پیلے تراشے ہوا سے پھر پھرا رہے تھے۔

21 سالہ تھیو ساڑھے پانچ گھنٹے تک طیارے کو اڑاتے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ اس کو لینڈ کرنے کی محفوظ ترین جگہ کون سی ہوگی۔ طرابلس میں برطانوی فوجی اس وقت تک موجود تھے اور پریشانی سے گھبرا کر وہ بن غازی کی طرف پرواز کرنے لگے جہاں انھوں نے لینڈنگ کی ایک پٹی دیکھی جس کے دونوں کناروں پر چند جھونپڑیاں تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ پٹی بھیڑوں سے بھری ہوئی تھی اور انھیں اس پر بہت نیچے سے کئی بار چکر لگانے پڑے تاکہ وہاں سے جانور چلے جائیں اور انھیں طیارے کو لینڈ کرنے کے لیے خالی رن وے مل جائے۔ وہ فخر سے یاد کرتے ہیں کہ ان کی لینڈنگ بے داغ رہی اور انھیں یہ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ یہ بات ان کے کمانڈنگ افسر کو بتائی جائے گی۔

‘میں نے سوچا کہ اگر میں اچھی طرح لینڈ کر سکتا ہوں تو ان بحریہ کے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ میں پرواز بھی کر سکتا ہوں!’

اخبار کے تراشے

عجیب بات تھی کہ جھونپڑی سے جو پہلا شخص دوڑا ہوا رن وے پر پہنچا وہ ڈچ جلا وطن تھا جو کہ اپنے رن وے پر فوجی طیارہ دیکھ کر حیرت سے زیادہ پریشان ہوا تھا۔

تھکان سے چُور لیکن اب بھی پرجوش تھیو نے انھیں اپنی کہانی سنائی۔ جب انھوں نے اپنے مستقبل کی کہانی یعنی بحریہ سے آزادی اور ایک شہری زندگی اور ایک نوکری کی بات کہی تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے ہم وطن کا چہرہ مرجھا گیا اور پھر انھیں خیال آیا کہ شاید انھوں نے اچھی طرح سے منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ اس شخص نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ بہت بڑی مصیبت میں ہیں اور اگر یورپ گئے تو وہ یقینی جیل میں ہوں گے۔

اپنے اس ہم وطن کے مشورے پر وان ایجک نے خود کو لیبیا کی پولیس کے حوالے کر دیا جو کہ اپنی ہارلی ڈیوڈسن موٹر بائیک پر خوشی سے اچھل رہے تھے کہ انھوں نے ایک ڈچ ہائی جیکر کو پکڑا ہے۔ (ایک بار پھر اپنے ہم وطن کے مشورے پر) انھوں نے کہا کہ وہ یورپ سے اس لیے نکل بھاگے ہیں کہ وہ ہم جنس پرستی اور خواتین کے لبرل خیالات کے خلاف تھے۔ پھر وان ایجک کو وہاں سیاسی پناہ اور تحفظ حاصل ہوا۔

جب ڈچ فوجی اپنے ملازم اور چرائے ہوئے طیارے کو لینے آئے تو انھوں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اب جب وہ اس طاقت کے کھیل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ وان ایجک اب بھی اس بات سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ انھوں نے انھی حکام کو زیر کیا جنھوں نے ان سے ان کے خواب چھین لیے تھے۔

ڈچ سفیر کے ساتھ ایک ہفتے کی بات چیت کے بعد وان ایجک نے معاہدے پر رضامندی ظاہر کر دی کہ وہ (پائلٹ کے بجائے ایک مسافر کی حیثیت سے) نیدرلینڈ واپس جائیں گے اور فوج سے فرار ہونے کے جرم میں ایک سال کی جیل کاٹیں گے جس کے بدلے میں انھیں بحریہ سے باعزت رخصت کیا جائے گا۔

میز پر پڑے اخبار کے بعض تراشوں میں وان ایجک کو بحریہ کی یونیوفارم میں نیدرلینڈز کی ایک عدالت کے باہر دیکھا جا سکتا ہے۔

تھیو کہتے ہیں کہ ‘میں نے جو چاہا پالیا! میں بحریہ سے نکلنا چاہتا تھا اور میں نے حاصل کر لیا۔ اور آج بھی مجھے اپنے کیے پر ندامت نہیں ہے۔’

جب جیل سے باہر آئے تو وان ایجک نے سرکاری طور پر پرائیوٹ پائلٹ کے لیے کوالیفائی کیا۔ اگر آپ ان کی فلائٹ لاگ بک کے صفحات پلٹیں گے تو دیکھیں گے کہ اس میں مزید پروازوں کی تفصیلات ہیں جو انھوں نے اپنے ملک ہالینڈ میں یا جنوبی افریقہ میں کیں۔ وہ بہت عرصے تک جنوبی افریقہ میں بھی رہے۔ اس بار وہ سب لائسنس والی جائز پروازیں تھیں۔

وہ کندھے کو جھٹکتے ہوئے کہتے ہیں ‘میں بس اتنا ہی چاہتا تھا۔ میں صرف اڑنا چاہتا تھا۔’

وان ایجک

وان ایجک عدالت کے باہر

وہ کاک پٹ میں اپنے اچھے دنوں کے ہیلمٹ والی تصویر اٹھاتے ہیں جو کہ ڈچ بحریہ کے پائلٹ تربیتی پروگرام سے نکالے جانے سے قبل لی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں ‘اگر آپ اب مجھ سے پوچھیں کہ میں اس کے بارے میں کیا سوچتا ہوں تو میں کہوں گا کہ ارے بیوقوف تم وہاں کیا کر رہے تھے اور اور یہ احمقانہ خیال تمہارے ذہن میں کس طرح آیا۔’

‘مجھے اب بھی یقین نہیں آتا ہے کہ میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے!’

‘لیکن وہ شاندار تھا! بخدا وہ شاندار تھا!’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp