اسلام آباد میں دیوارِ گریہ


\"nadeem-anjum\"آپ نمل یونیورسٹی سے گزر کے سیدھا آگے جائیں، تو اقراء یونیورسٹی آپ کے داہنے ہاتھ، جب کہ بائیں جانب سڑک کنارے ایک عمارت ہے، جس کے سامنے چند ٹیکسی ڈرائیور سُوٹے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمارت کا مرکزی گیٹ بند ملتا ہے، اور بیش تر اوقات بند رہتا ہے۔ آمد و رفت کے لیے چھوٹا دروازہ کُھلا ہے اور اکثر کھلا رہتا ہے۔

گاڑی پارک کرکے عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں؟

بہت کم دوستوں کو علم ہوگا کہ اسلام آباد میں گولڑہ شریف کے علاوہ بھی ایک ریلوے سٹیشن ہے۔ جی ہاں! عمارت میں داخل ہوتے ہی آپ مارگلہ ریلوے سٹیشن میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایک خاموش، اور پر سکون منظر۔ یہ ریلوے سٹیشن کسی پہنچے ہوئے فقیر کی طرح، اپنے حال میں مست، بھیڑ بھاڑ سے محروم اور بے نیاز، شہر کے شور سے دُور، جیسے اپنی کٹیا میں پڑا، مراقبے میں مشغول جیون بسر کرتا ہو۔

آپ جوں ہی قدم اندر رکھتے ہیں، دائیں بائیں دونوں اطراف سے سبز گھاس، خوش رنگ پھول اور چند بلند و بالا پیڑ، آپ کی آنکھوں کو جپھی ڈال لیتے ہیں۔۔ جی آیاں نوں کہتے ہیں۔۔۔ وہیں ایک کونے میں چھوٹی سی \’ٹک شاپ\’ ہے۔ سامنے ایک برآمدہ نما جگہ ہے، جو انتظار گاہ بھی کہلاتی ہے اور بکنگ آفس بھی۔ آپ یہاں سے معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس اسٹیشن سے کراچی اور لاہور کے لیے صرف دو ٹرینیں اسلام آباد ایکسپریس اور گرین لائن چلتی ہیں۔ برآمدے کے پار پختہ فرش ہے، جس کے سامنے کیاریاں ہیں۔ رنگ بہ رنگ پھولوں سے لدی کیاریاں، اور گھنٹی، سر نیہوڑائے، جیسے عبادت میں‌ مصروف ہو۔

پختہ فرش سے گزرتے ہی سامنے ٹرین کی پٹری آ جاتی ہے۔ یہی پلیٹ فارم ہے۔ پٹری کے متوازی، مناسب فاصلے پر، بنچ نصب ہیں۔ تنہا، اداس، ملول، محوِ انتظار ایستادہ شجر اُن کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ سوگواران ان کے ہمسائے ہیں۔ اُن پر سایہ کرتے ہیں۔ کسی ابر آلود شام میں آپ اِن بنچوں پر جا بیٹھئے، گہری یاسیت میں ڈوبا سکوت، زندگی کی رائیگانی کے خیال کو مہمیز کرتا ہے۔ چپ چاپ گرتی بوندوں کی سنگت میں سگریٹ کے طویل کش اور نتھنوں سے خارج ہوتے دھوئیں میں تصویریں بننے لگتی ہیں۔ پرانی، تقریباً متروک ہو چکی، ناکام محبتیں، گل فام چہرے، جن میں کبھی جان اٹکی ہوا کرتی تھی، جڑ کے ٹوٹنے والے مراسم، دل کے نہایت قریب رشتے، کہ جن کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا، صبح شام کے پرانے سنگی ساتھی، اسکول کالج کے دن اور گلی کوچے جو چھوٹ گئے؛ ایک کے بعد دوسری تصویر، دوسری کے بعد تیسری۔۔۔ چل سو چل۔

سگریٹ کے کش جاری رہتے ہیں۔ آنکھوں میں جھڑی لگتی ہے۔ میری بے بسی اور دنیا کی بے ثباتی پر سامنے ٹرین کی اجاڑ پٹری، سبز کفن میں لپٹی گھاس، تنہائی، محو انتظار بنچ اور سوگ وار کھڑے درخت سبھی گریہ کرتے ہیں۔ میرے ساتھ میری طرح بے آواز روتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments