تم پاکستانی ہو مگر۔ ۔ ۔


ائیرپورٹ میں داخل ہوا۔ کلیئرنس کے لئے کاؤنٹر جا پہنچا۔ ایک خوشنما دوشیزہ نے پوچھا: آپ کہاں سے؟ میں نے اشارے سے اس سیٹ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ایک نظر ادھر دیکھا لیکن کچھ نہ سمجھتے ہوئے مجھے کہا :لایئے اپنا پاسپورٹ مجھے دیجیے تاکہ میں ضروری کارروائی کرسکوں۔ میں نے کہا : میڈم! میں اس ملک کے ائیرپورٹ سے سوار ہورہا ہوں۔ میرے خدوخال، زبان اورلہجے سے آپ کو نہیں لگتاکہ میں کون ہوں؟

اس نے میری سنی بات کو ان سنی کرتے ہوئے ذرا اونچی لیکن متحمل آواز سے کہا: آپ پاسپورٹ چیک کرائیے کیونکہ یہ معمول کا چیک اپ ہے اورووچر کے لیے ضروری بھی ہے۔ میں نے ایک بار پھراسے سمجھاتے ہوئے جواب دیا: میڈم! میں یہاں ہی کا باشندہ ہوں۔ پاسپورٹ چیک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں اس بات کا ثبوت بھی دے سکتاہوں۔ ذرا ایک نظر ادھر دیکھئے جہاں میں بیٹھا ہواتھا۔ آپ کو میری سیٹ کے دائیں بائیں بکھرے ہوئے شاپنگ بیگ نظر آرہے ہیں؟

کیا وہ بتانے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ میں کون ہوں؟ وہاں بسکٹ کا ایک خالی پیک بھی تو پڑا ہوا ہے؟ سیٹ کے بالکل آگے مونگ پھلی کے چھلکے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں مزید کچھ کہنا چاہتا تھالیکن پیچھے والے مسافر نے مجھے کہنی مار کر یہ احساس دلانا چاہا میں نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا بھی وقت برباد کررہا ہوں۔ میں نے اسے جواب دینا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی میڈم کی سریلی آوازایک بارپھر کانوں میں پڑی: پاسپورٹ پلیز!

۔ میں نے اپنا رخ بارے دیگر میڈم کی طرف کیا اورکہا: میڈم ایک منٹ! پہلے ٹافیوں کے وہ ریپرز بھی دیکھ لیں جو میری سیٹ کے آگے پیچھے بکھرے پڑے ہیں اور چمک رہے ہیں۔ اب بھی پاسپورٹ دکھاناپڑے گا؟ اگراب بھی یقین نہیں آیا تو آپ میری سیٹ کے دائیں طرف پان کی پچکاریاں بھی ملاحظہ فرماسکتی ہیں۔ اگر پھربھی یقین نہ آئے توشاید بائیں طرف تھوکوں کا بہتا ہوا دریاآپ کو کسی نتیجے پر پہنچا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو چلیں میرے ساتھ اور جا کر دیکھ لیں میرے سامنے والی سیٹ۔

اس سیٹ پر لگا کیچڑ بھی چیخ چیخ کربتا رہا ہے کہ میں کون ہوں؟ آپ سوچ رہی ہوں گے وہ کیسے؟ اس میں سوچنے والی کیا بات ہے؟ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا توسستانے کے لئے اپنے پاؤں سامنے والی سیٹ پر رکھ دیے۔ ذرا سوچ کر بتائیں یہ حرکت کون کر سکتا ہے؟ میں نے محسوس کیا کہ آس پاس کھڑے لوگ بھی لطف محسوس کررہے تھے۔ اگرچہ اکا دکا لوگوں کے چہروں سے ناگواری کا تاثر ابھر رہا تھا لیکن بہرحال وہ خاموش کھڑے تھے۔ میں نے ایک بارپھر میڈم کی طرف رخ کیا اور کہا:بو رنگ کا وقت بھی قریب ہے لیکن یہ لوگ جو تھوڑی دیر پہلے بڑی جلدی میں تھے اب کیوں خاموش ہیں؟

اگر نیکی یا بھلائی کا کام ہوتا تو کیا تب بھی یہ لوگ اتنی دیر کھڑے رہتے؟ یہ اس لیے کھڑے ہیں کیونکہ لڑائی ہورہی ہے۔ لڑائی کے موقع پر صلح صفائی کی بجائے تماشادیکھنا کس قوم کا شیوہ ہو سکتا ہے؟ اب بھی آپ کو میری پہچان کی ضرورت ہے؟ میڈم نے سرہلایاتومیں نے کہا : میں آپ کو اتنی نشانیاں بتا چکاہوں لیکن آپ کو پھر بھی ضرورت ہے؟ یہ ضرورت ہے یا ترقیاتی کام جوکبھی پورے ہی نہیں ہوتے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ جب میں اور آپ تکرارکررہے تھے تو میری آواز نیچی تھی لیکن جونہی ہمارے اردگرد لوگ جمع ہوتے گئے تو بجائے شرمندہ ہونے کی میری آواز مزید بڑھتی گئی اورمیں شیر بنتاگیا۔

بھلا یہ عادت کس کی ہے؟ میں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ تو میری گفتگو سے محظوظ ہورہے تھے جبکہ چند ایک کا رویہ ایسا تھا گویا وہ یہ سب کچھ جانتے ہوں اوربتائی گئی نشانیوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہ ہو۔ سچی پوچھیں تو مجھے ان پر غصہ آرہاتھا کہ اگر وہ اتنا ہی گاڑھاعلم رکھتے ہیں کہ یہ نشانیاں کس قوم میں پائی جاتی ہیں تو خاموش کیوں ہیں؟ یہ میڈم کو بتا کیوں نہیں دیتے کہ میں کون ہوں؟ پس میں نے ایک بار پھر کوشش کی اورمیڈم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:میں نے آپ کو اتنی نشانیاں بتائیں لیکن شاید آپ کا کامن سینس کام ہی نہیں کررہا۔

چلیں کوئی بات نہیں۔ میں آپ کو ابھی اور اسی وقت ایک پریکٹیکل کرکے دکھاتاہوں۔ یہ کہہ کر میں اپنے بیگ کی طرف بڑھا، اسے کھولا، آئس کریم کا ایک پیک نکالا، اس کا ڈھکنا کھولا، اسے میڈم کے سامنے لہرایا، اس پر لگی کریم کی طرف اشارہ کیا اورپھر بڑے مزے سے چاٹنا شروع کر دیا۔ جب اس پر لگی تمام آئس کریم صاف ہوگئی تو اسے بڑی اداسے ایسے پھینکا کہ وہ پرکٹے کبوتر کی لہراتاہوا ایک گنجے کے سر پر جا لگا۔ اس نے کچھ کہنا چاہالیکن میں نے پہلے ہی زور لگا کرکہا:آپ کی نظرکمزورتونہیں ہے بڑے میاں۔

یہ کارنامہ سرانجام دے کر میں نے کچھ ایسی نظروں سے میڈم کی طرف دیکھاجیسے اب تو وہ لازمی سمجھ گئی ہوں گی کہ میں کون ہوں؟ لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس کی قاتل نظروں میں ابھی تک لاعلمی کا احساس جھلک رہاتھا۔ میں نے شدید جھنجھلاہٹ کے عالم میں اپنا سرہلایا۔ جواب میں میڈم نے بھی اپنا سراتنی ہی زورسے ہلایا۔ یہ دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے کوئی ایسا مظاہرہ کرنا ہوگا جس سے یہ تمام بکھیڑاختم ہو۔

میں نے اپنی جیب سے جوس کا ایک ڈبا نکالا اور ایک ہی سانس میں اسے چڑھا لیا۔ لوگ بڑے اشتیاق سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے خالی ڈبے کو دوبارہ منہ سے لگایا اوراس میں پھونک بھرنا شروع کی۔ جب ڈبے کا پیٹ بھینس کی طرح پھول گیاتو اسے زمین پر رکھا اورسٹرنگ کے نوجوان کی طرح گھوم کر اپنی دائیں لات کسی کھوتے کی طرح اتنی قوت سے ڈبے پر ماری کہ وہ ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ فارغ ہوکر میڈم کی طرف دیکھا اور کہا: اب بھی پاسپورٹ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ میں پاکستانی ہوں؟ اتنے میں ایک انکل آگے بڑھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے :پتر! یہ تمہاری حرکتیں ہیں پاکستان کی نہیں۔ پاکستان نے تمہیں ایک شناخت دی ہے۔ اگر تم خود ہی اس شناخت کو بدنام کرو تو اس میں پاکستان کا کیا قصور؟ ان کی بات سن کر سب نے اپنے اپنے سر جھکا لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).