پاپوا نیوگنی کا صوبہ بوگن وِل کیا دنیا کا نیا ملک بننے جا رہا ہے؟


بوگن ویلیا

پاپوا نیو گنی کے ایک جزیرے میں آزادی کے لیے ریفرینڈم ہونے والا ہے اور اگر توقعات کے مطابق ووٹ ڈالے گئے تو بوگن وِل دنیا کا نیا ملک بن سکتا ہے۔

اس جزیرے کی تاریخ میں نوآبادیاتی نظام کے دوران استحصال، آزادی کی کوششیں اور نو سالہ جنگ پھر آہستہ آہستہ امن کے عمل سے گزرنا شامل ہے۔

سنیچر کو یہاں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی جب دو لاکھ ستر ہزار افراد ووٹ ڈالیں گے کہ آیا وہ وسیع تر خودمختاری چاہتے ہیں یا پھر آزادی۔

مبصرین کا اندازہ ہے کہ تین چوتھائی افراد آزادی کے لیے ووٹ ڈالیں گے لیکن پولنگ صرف پہلا قدم ہے۔

آزادی کیوں؟

اس جزیرے کا نام اٹھارہویں صدی میں آنے والے فرانسیسی مہم جو کے نام پر رکھا گیا اور یہ 19ویں صدی کے آخر میں جرمن نیو گنی نامی ایک جرمن کالونی کا حصہ بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران آسٹریلیا نے اس کا کنٹرول حاصل کیا تھا جو کہ 1975 تک رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ عرصے کے لیے یہ جاپان کے زیر کنٹرول بھی رہا۔

بوگن وِل کی موجودہ آبادی تین لاکھ ہے اور نو آبادیاتی دور میں اس کی حیثیت ایک فوجی چوکی کی رہی۔

جرمنی نے وہاں پہلا انتظامی سینٹر حکمرانی کے 21 سال بعد 1905 میں قائم کیا۔

یہ بھی پڑھیے

ایپک اجلاس کے بعد 300 قیمتی گاڑیاں لاپتہ

کراچی کے لاپتہ جزائر

پاسپورٹ کے بارے میں تیرہ دلچسپ حقائق

پاپوا نیو گنی

ریفرینڈم کے حوالے سے سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق بوگن وِل کے وسطی اور شمالی پہاڑی علاقوں کا جنگ عظیم دوئم کے بعد بھی چرچوں یا نوآبادیاتی حکمرانوں سے رابطہ نہیں تھا۔

پاپوا نیو گنی کو سنہ 1975 میں آزادی ملی اور بوگن وِل اس کا صوبہ بنا اگرچہ اس فیصلے کو زیادہ حمایت حاصل نہیں تھی۔

حقیقتاً پاپوا نیو گنی بننے سے تھوڑا پہلے بھی بوگن وِل میں آزادی کی قرارداد منظور ہوئی تھی اور یہ ’رپبلک آف دی نارتھ سولومنز‘ بنانے کی کوشش تھی تاہم اسے آسٹریلیا اور پاپوا نیو گنی دونوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

آزادی کی قرارداد کی ناکامی کے بعد عدم اطمینان کی صورتحال برقرار رہی اور 1988 میں علحیدگی کے لیے نو برسوں پر محیط ایک جنگ شروع ہو گئی۔ اندازوں کے مطابق اس جنگ میں چار سے 20 ہزار تک افراد مارے گئے۔ یہ جنگ سنہ 1997 میں بین الاقوامی ثالثی کے بعد ختم ہوئی۔

اس کے نتیجے میں بوگن وِل امن معاہدہ ہوا۔ پھر سنہ 2005 میں وہاں خود مختار بوگن وِل حکومت قائم ہوئی اور یہ وعدہ کیا گیا کہ آزادی کے لیے وہاں غیر مشروط ریفرینڈم کروایا جائے گا۔

تو اب وہاں کیا آپشنز ہیں؟

پاپوانیوگنی

اب لوگوں کے پاس ووٹ کے ذریعے دو آپشن ہیں زیادہ خودمختاری یا پھر آزادی۔

توقعات یہ ہیں کہ صوبے کے لوگ آزادی کے حق میں ووٹ ڈالیں گے اور تین ممکنات ہیں:

  • لوگ زیادہ خودمختاری کے لیے ووٹ دیں اور آزادی کے لیے نہ دیں۔ اس صورت میں وہ پاپوا نیو گنی کا حصہ رہے گا۔
  • آزادی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کو پاپوا نیو گنی تسلیم کرے اور ایک آزاد ملک بننے کا عمل شروع کیا جائے۔
  • اگر لوگوں نے آزادی کے لیے ووٹ ڈالے اور پاپوا نیو گنی نے نتیجہ تسلیم نہ کیا یا اس جانب مزید اقدامات میں تعطل پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس میں ہو سکتا ہے کہ نیا بحران اور تنازع پیدا ہو۔

ووٹنگ 23 نومبر اور سات دسمبر کو ہو گی اور دسمبر کے آخر تک نتائج آنے کا امکان ہے۔

ریفرینڈم کمیشن کی سربراہی سابق آئرش وزیراعظم برٹائی اہرن کر رہے ہیں جنھوں نے سنہ 1998 میں شمالی آئرلینڈ میں گڈ فرائیڈے معاہدے میں کردار ادا کیا تھا جوکہ وہاں امن کے عمل کا حصہ تھا۔

پاپوا نیو گنی کا کیا کہنا ہے؟

مرکزی حکومت نے اس سے پہلے ریفرنڈم کے لیے فنڈنگ کو روک دیا تھا کیونکہ اس کی ترجیح تھی کہ بوگن وِل اس کا حصہ ہی رہے۔

اکتوبر میں نئے وزیراعظم جیمز ماریپ نے وعدہ کیا تھا کہ ووٹ غیر مشروط ہوگا اور نتائج پر پاپوا نیو گنی اور بوگن وِل کی حکومتیں غور کریں گی۔

تو کیا پھر پی این جی چاہتا ہے کہ بوگن وِل اس کے ساتھ رہے؟

بوگن وِل قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔ اگرچہ جنگ کی وجہ سے کانسی اور سونے کی کانوں کی کھدائی کو نقصان پہنچا تھا۔ اس سے پہلے یہ صوبہ ملک کا سب سے امیر صوبہ تھا۔

ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ بوگن وِل کے علاوہ پی این جی میں 20 اور صوبے ہیں اور پھر وہ بھی زیادہ خود مختاری کے لیے یا علیحدگی کے لیے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

کیا بوگن وِل آزادی کے لیے تیار ہے؟

اگر تو یہ ایک نیا ملک بنتا ہے تو یہ بہت چھوٹا ہوگا جس کا رقبہ صرف 10 ہزار مربع کلومیٹر ہوگا جوکہ قبرص سے تھوڑا بڑا اور لبنان سے تھوڑا چھوٹا ہوگا۔

اسی طرح یہ دنیا کی سب سے کم آبادی والے ممالک میں شامل ہوگا جس کی آبادی بحرالکاہل میں اپنے ہمسائے وینواتو سے کم اور باربڈوس سے تھوڑی زیادہ ہوگی۔

اس بارے میں دوسرے ممالک کیا کر رہے ہیں؟

آسٹریلیا اس کا قریب ترین امیر ہمسایہ ہے، بوگن وِل کا سب سے بڑآ ڈونر ہے اور جنگ بندی میں ثالثی کا کردار بھی ادا کر چکا ہے۔

امریکہ اور چین نے اس ہورے معاملے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

اطلاعات ہیں کہ چین نے تو وہاں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر تحقیق کے لیے پہلے ہی ایک وفد بھیج دیا ہے جس میں ایک پورٹ بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ بیجنگ نے حال ہی میں بحرالکاہل کے جزائر سے تعلقات بڑھائے ہیں اور سولومن جزائر اور کریباتی سے سفارتی تعلقات بھی قائم کیے ہیں۔

امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان نے ریفرنڈم کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp