اسد عمر کا ایلس ویلز کے بیان پر ردِ عمل: ’امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ نہیں بنیں گے‘


اسد

پاکستان نے جنوبی ایشیا کے بارے امریکی سفارت ایلس ویلز کے چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش کا حصہ نہیں بنے گا۔

وفاقی وزیر برائے پلاننگ اور سپیشل انیشیئیٹو اسد عمر نے امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چین سے دوستی سے پیچھے نہیں ہٹے گا لیکن امریکہ اور چین کے درمیان کسی قسم کی کشمکش کا حصہ بھی نہیں بنے گا۔

کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ چین ہمارا دیرینہ ساتھی ضرور ہے مگر یہ دوستی کسی کے خلاف نہیں ہے۔

’اگر چین ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ہم امریکہ کے خلاف ہو گئے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان کو ضرورت تھی‘

سی پیک کی تعمیر پر انڈیا کے کیا تحفظات ہیں؟

سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟

خیال رہے کہ جمعے کے روز ایلس ویلز نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہئیں۔

اسد عمر کا اس کے ردِ عمل میں کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت پر بیرونی قرضوں کی وجہ سے بوجھ پڑا ہوا ہے لیکن اس کی وجہ چین نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘درآمدات میں کمی کے باعث ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں۔’

چین کا ردِ عمل

جمعے کے روز پاکستان میں چینی سفیر نے یاؤ جنگ نے ایلس ویلز کے بیان کے ردِ عمل میں کہا تھا کہ چین نے سیاسی مقاصد یا مخصوص حکومتوں سے بالاتر ہو کر ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور کبھی بھی ایسے وقت پر پاکستان سے ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے جب ایسا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو۔

سفیر کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب یہ آئی ایم ایف ہے جس کی قرضوں کی ادائیگی کا سخت نظام ہوتا ہے۔

چینی سفیر نے سوال اٹھایا کہ ‘جب 2013 میں پاکستان میں تونائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا۔ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟’

انھوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو امداد اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر معطل کیوں کی ہے۔

سی پیک کی مد میں چین سے قرضے صرف سات فیصد

ایلس ویلز نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی اور اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔

اس کے ردِ عمل میں اسد عمر نے پاکستان کے مجموعی قرضوں کی تفصیلات بتائیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 74 ارب ڈالر ہے جس میں سے چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ 14 ارب ڈالر ہے یعنی ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔

‘اگر آپ صرف سی پیک کی مد میں دیے گئے قرضوں کی بات کریں تو یہ ہمارے مجموعی قرضے کا صرف سات فیصد ہے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا سی پیک کی وجہ سے لیے گئے قرضوں کے باعث پاکستان کی ترقی محدود نہیں ہو گی۔

‘سی پیک کے پہلے حصے میں ہم نے سڑکیں بنائیں جن کی بنیاد پر ہم سپیشل اکنامک زونز بنا رہے ہیں جس سے ہم معاشی طور پر مستحکم ہو سکیں گے۔’

ایلس

انھوں نے ایلس ویلز کے اس بیان کی تائید کی کہ امریکہ جہاں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں ٹیکنالوجی منتقل بھی کرتا ہے جس سے ترقی کرنے کے مزید مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔

‘امریکی کمپنیاں ٹیکنالوجی منتقل ضرور کرتی ہیں، تاہم حالیہ چند برسوں میں چین نے بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان کے درمیان ٹیکنالوجی کی جنگ ہو رہی ہے کہ 5 جی ٹیکنالوجی دنیا میں پہلے کون متعارف کروائے گا۔

‘میں ایلس ویلز کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی کمپنیاں کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے خوش آمدید کہیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp