مددگار بیکٹیریا کی مدد سے ڈینگی وائرس کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار دریافت


ڈینگی وائرس سے متاثرہ

دنیا بھر میں ہونے والے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مچھروں پر حملہ کرنے والے بیکٹیریا کی مدد حاصل کرنے سے ڈینگی بخار کے کیسز میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔

وولباکیا بیکٹیریا ان کیڑوں کو مارنے کے بجائے ان کے لیے وائرس پھیلانا مشکل بنا دیتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ’بہت اہم‘ ہیں اور فیلڈ میں کیے جانے والے تجربات میں کیسز میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔

ڈینگی کنٹرول کرنے کے نئے طریقوں کی فوری ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ 50 برسوں میں ڈینگی کے کیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈینگی سے کیسے بچیں اور ہو جائے تو کیا کریں؟

ڈینگی کے خاتمے کے لیے مچھر کو بانجھ بنانے کا تجربہ

زیکا وائرس چھ ماہ تک نطفے میں برقرار

ڈینگی کیا ہے؟

یہ بخار ایک شخص سے دوسرے شخص تک خون چوسنے والے مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔

اس کی علامات ہر شخص میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں انفیکشن کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ کچھ لوگوں میں نزلہ و زکام جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔

مچھر

کچھ لوگ تو ڈینگی سے ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس بخار کو ’ہڈی توڑ بخار‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پٹھوں اور ہڈیوں میں سخت درد کا سبب بنتا ہے۔

بدترین کیسز میں لوگ ’ڈینگی ہیمریج بخار‘ سے متاثر ہو جاتے ہیں جس سے ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 25 ہزار لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

ورلڈ موسکیٹو پروگرام کے پروفیسر کیمرون سِمنز کہتے ہیں ’یہ ملیریا جتنی ہلاکتوں کا سبب تو نہیں بنتا مگر یہ بے تحاشہ بیماری پھیلاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

ایک بڑھتا ہوا مسئلہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ڈینگی کیسز میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

1970 کی دہائی میں صرف نو ممالک میں ہی ڈینگی کی شدید وبا پھیلی تھی مگر ڈینگی بخار اب اتنا پھیل چکا ہے کہ اب 100 سے زائد ممالک میں یہ مرض ہر وقت موجود رہتا ہے اور اسے وبائی ڈینگی کہا جاتا ہے۔

کرہ ارض پر تقریباً نصف سے زیادہ لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ڈینگی ایک مسئلہ ہے اور مانا جاتا ہے کہ ہر سال 39 کروڑ انفیکشن ہوتے ہیں۔

یہ مچھروں سے پھیلنے والی ایک اور بیماری ملیریا سے براہِ راست متضاد ہے جس کے کیسز میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر گرم اور مرطوب موسم والے علاقے ہوتے ہیں اور اس مرض کے 70 فیصد کیسز ایشیا میں ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی آف گلاسگو کے پروفیسر سٹیون سنکنز نے بی بی سی کو بتایا ’یہ واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

بیکٹیریا کہاں استعمال ہوتے ہیں؟

وولباکیا بیکٹیریا ڈینگی وائرس کے لیے مچھروں کے اندر پنپنے کو مشکل بنا دیتے ہیں۔

یہ مانا جاتا ہے کہ بیکٹیریا مچھروں کے اندر ایسی جگہوں پر بسیرا کر لیتے ہیں جہاں ڈینگی وائرس کو بسنا ہوتا ہے اور بیکٹیریا وہ وسائل استعمال کر لیتے ہیں جن کی ضرورت وائرس کو ہوتی ہے۔

اگر ڈینگی وائرس اپنی نقول نہ بنا سکے اور مچھروں کے اندر اپنی تعداد نہ بڑھا سکے تو مچھر کے کاٹنے پر اس مرض کے پھیلنے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔

حشرات کی کئی انواع پر بیکٹیریا قدرتی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں جس میں آپ کے کچن میں اڑتی ننھی منی پھل مکھیاں بھی شامل ہیں۔

مگر ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیز ایجپٹی عام طور پر اس سے متاثر نہیں ہوتا۔

لاروا

چنانچہ محققین مچھروں کے انڈوں میں وولباکیا کی مختلف انواع انجیکٹ کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کون سے بیکٹیریا مختلف موسموں میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

کچھ بیکٹیریا پہلے ہی بڑے پیمانے پر فیلڈ میں آزمائے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف گلاسگو کی ایک ٹیم نے ایک ایسی نوع کا پتہ چلایا ہے جو انتہائی گرم موسم (30 ڈگری سے بھی زیادہ) میں زندہ رہ سکتی ہے اور ان کی آزمائش ملائشیا میں کی جائے گی۔

کیا یہ جینیاتی تبدیلی کرنے کے زمرے میں آتا ہے؟

نہیں! مگر سائنسدان اس طریقہ کار پر بھی تحقیق کر رہے ہیں۔

وولباکیا بائیولوجیکل یعنی حیاتیاتی طور پر کنٹرول کرنے کے زمرے میں آتا ہے جس میں ایک نوع کو دوسری نوع کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

پروفیسر سنکنز کا کہنا ہے ’یہ نسبتاً غیر متنازع ہے، اس سے انسان متاثر نہیں ہوتے اور یہ پوری طرح محفوظ ہے۔‘

پروفیسر سمنز کہتے ہیں کہ کوئی بھی تجربہ شروع کرنے سے قبل عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ’بے تحاشہ کوششیں‘ درکار تھیں اور بنیادی شکایتوں میں مچھروں کے کاٹے جانے کے کیسز میں اضافہ شامل ہے جب لیبارٹری سے لائے گئے مچھروں کو چھوڑا جاتا ہے۔‘

نتائج کیسے رہے؟

دنیا بھر میں کئی تجربات جاری ہیں۔ ان میں سے ایک کے نتائج تحقیقی جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہوئے ہیں اور سائنسدان امریکن سوسائٹی آف ٹروپیکل میڈیسن اینڈ ہائیجین کی سالانہ میٹنگ میں دیگر ڈیٹا پر بحث کر رہے ہیں۔

ثبوتوں سے سامنے آیا ہے:

  • مجموعی طور پر کیسز میں 40 فیصد کمی مگر ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں آزمائشوں کے دوران ڈینگی کیسز میں 90 فیصد تک کمی آئی۔
  • انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں آزمائشوں کے دوران ڈینگی کیسز میں 76 فیصد کمی آئی۔
  • برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو کے قریب نتیروئی کے علاقے میں تجربات کے دوران ڈینگی کیسز میں 70 فیصد کمی آئی۔
  • آسٹریلیا کے خطے نارتھ کوئنزلینڈ کے دور دراز علاقوں میں اس کا پھیلاؤ رک چکا ہے۔
ڈینگی وائرس سے متاثرہ

کوالا لمپور میں کام کر چکے پروفیسر سنکنز نے بی بی سی کو بتایا ’ڈینگی پر کنٹرول انتہائی مشکل کام ہے، اور یہ نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔‘

کیا اس طریقے سے ڈینگی پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے؟

پروفیسر کیمرون سمنز نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر آپ ریاضی والے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے کسی شہر یا دیہات کی مکمل آبادی کو اپنے علاقے سے باہر جانے سے روک دیں تاکہ ان کا دوسرے لوگوں سے میل جول نہ ہو سکے تو یقیناً اس سے مکمل طور پر چھٹکارا ممکن ہے لیکن اصل مسئلہ لوگوں کی نقل و حرکت ہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے ایسے کیسز بھی ہوں گے کہ لوگ ان علاقوں میں جا پہنچیں جہاں مچھروں میں یہ انفیکشن نہیں پایا جاتا۔

پروفیسر سمنز کے مطابق ڈینگی وائرس کو پھیلنے سے مکمل طور پر روکا جانا ممکن ہے لیکن وہ کتنا وقت لے گا، شاید بے تحاشا۔

وولباکیا کافی ہوشیار بیکٹریا ہے اور وہ دوسرے حشرات کے طریقہ تولید پر اثرانداز ہوتا ہے تاکہ وہ اسے اگلی نسل کو منتقل کر دیں۔

ایڈیز ایجپٹی کے اندر یہ بیکٹیریا نر مچھر کو کسی ایسی مادہ مچھر سے تولید نہیں کرنے دیتا جس میں وولباکیا بیکٹریا موجود نہ ہو لیکن اگر مادہ مچھر میں وولباکیا بیکٹیریا ہو وہ کسی نر مچھر کے ساتھ کامیابی سے جنسی ملاپ کر سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنی تمام اولاد میں یہ بیکٹیریا منتقل کرتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وولباکیا کے انجیکشن سے مچھروں کی افزائش کو کنٹرول کیا سکتا ہے۔

کوالالمپور میں ہونے والے تجربات میں وولباکیا سے متاثرہ مچھروں کی تعداد 90 فیصد سے زیادہ تھی۔

کیا یہ طریقہ مہنگا اور ماحول دشمن ہے؟

اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طریقہ کار کو ڈھونڈنے کے لیے کافی تحقیق کرنی پڑی ہے اور تحقیق پر خرچ تو آتا ہی ہے۔ لیکن یہ ایک بار کا خرچہ ہے کیونکہ وولباکیا بیکٹیریا صرف ایک بار منتقل کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔

پروفیسر سنکنز کے مطابق یہ طریقہ معاشی لحاظ سے کافی پرکشش ہے۔

مچھر سپرے

یہ مچھروں کے ذریعے ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آزمائے جانے والے دوسرے طریقوں کے برعکس ہے۔ اس طریقے سے مچھروں کی تعداد کم ہو جائے گی لیکن جب آپ اس کا استعمال چھوڑ دیں گے تو مچھر کی تعداد پھر یکدم بڑھ جائے گی۔

اس طریقہ کار سے دوسری بیماریوں کا علاج

مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی دوسری بیماریاں، جیسے زیکا، چکن گنیا، اور ییلو فیور کو بھی اس طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟

برازیل کی اوسوالڈو فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر لوسیناو موریرا کہتے ہیں کہ ہم نے جن علاقوں میں بیکٹیریا والے مچھر چھوڑے ہیں وہاں چکن گنیا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اس علاقوں کی نسبت 70 فیصد کم ہوئی ہے جہاں وائرس زدہ مچھروں کو نہیں چھوڑا گیا۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

امریکن سوسائٹی فار ٹراپیکل میڈیسن اورہائیجین کے صدر ڈاکٹر چینڈی جان نے کہا: ’جب ڈینگی وائرس کو روکنا مشکل ہو رہا ہے تو ایسے حالات میں یہ ایک بہت عمدہ کام ہے۔‘

مگر ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طریقہ کی کامیابی کا انحصار جدید سائنس اور لوگوں کی بھرپور شمولیت پر ہے۔‘

ویلکم میڈیکل ریسرچ چیریٹی کے مائیکل چیو کے مطابق جب دنیا میں ڈینگی وائرس کا پھیلاؤ دیکھنے میں آ رہا ہے یہ نیا طریقہ اس کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والوں طریقوں میں بہت اعلیٰ اضافہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp