ڈائری لیکس ۔ اہم شخصیات کی خفیہ ڈائریاں


\"sehrish-usman-2\"

یہ خبر دیتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس کر رہی ہوں کہ میرے ہاتھ کچھ غیر سرکاری راز آئے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، صحافی اپنے ذرائع خفیہ رکھتا ہے، تو میں یہ نہیں بتانے والی کہ اہم شخصیات کی ذاتی ڈائریوں کے یہ صفحات میرے ہاتھ کیسے لگے۔ آپ کو بھی آم کھانے سے مطلب ہونا چاہیے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ بس انتہائی رازداری سے پڑھیے گا اور کسی کو مت بتائیے گا کہ ڈائری لیکس کے پیچھے میرا ہاتھ ہے، کیوں کہ اس ہفتے مجھے دبئی بھی جانا ہے۔ میں نہیں چاہتی میرا نام ایگزٹ‌ کنٹرول لِسٹ میں آ جائے۔

ایک شیر کی ڈائری کا صفحہ

اللہ کے فضل و کرم سے یہ اکتوبر تو اس دفعہ جان کو ہی آ گیا ہے۔ سوچ رہا ہوں اسمبلی میں ایک بِل پاس کروا کر ’اکتوبر‘ کے مہینے کو کیلنڈر سے باہر نکلوا دوں اور اس کی جگہ ایک اور ’مئی‘ ڈال دوں۔ یکم مئی آنے سے عوام بھی خوش ہو جائیں گے کہ ایک چھٹی اور آئی۔ داخلہ وزیر مجھے حکومت سے خارجہ کر کے رہے گا۔ اندر کی خبر دینی تھی تو اردو اخبار میں لگوا دیتا۔ ایسے اخبار لفافے بنانے کے کام آتے ہیں۔ لفافے بھی بہت ہو گئے، ان کے منہ کو خون لگا ہے۔ ظلم یہ کہ انگریزی اخبار میں‌ لگوا دی۔ اب وہ نہ ہماری مانتے ہیں نہ ’اُن‘ کی مان رہے ہیں۔ ڈٹے ہوئے ہیں شیر کے بچے کہ ہم اپنی خبر پر قائم ہیں۔ کوئی سمجھائے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ کون قائم رہا ہے؟ پھر یہ بھی اللہ ہی کا فضل و کرم ہے کہ نکا شریف تے وڈا چودھری میری ہی قسمت میں لکھے ہیں۔ ہائے! ابھی تو 1999 کے بائی پاس کے اثرات نہیں گئے، کہیں اگلا آپریشن نہ ہو جائے۔عوام بھی تو ہر وقت عنران خان کے جلسوں میں نچنے پہ تلی رہتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ اکتوبر خیر خیریت سے گزر جائے، بس۔

ایک کپتان کی ڈائری کا صفحہ

میں نے ورلڈ کپ جتایا۔ قوم سے چندا مانگ مانگ اسپتال بنایا۔ لیکن سارا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ کرپشن ہوگی تو کرکٹ کبھی ترقی نہیں کرے گی۔ کرکٹ ترقی نہ کرے گی، تو قوم ترقی نہ کرے گی۔ یہ عمر اکمل کو ٹیم میں کیوں نہیں کھلایا؟ میں بتاتا ہوں۔ یہ کرپشن سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ یہ۔۔ یہ۔۔ یہ سمجھتے ہیں میں رک جاوں گا؟ اوئے میں بھی بڑا ضدی ہوں۔ نواز شریف کو اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ نکلے ذرا باہر، باہر نکل کر دیکھے عوام ان سے اکتا چکی ہے۔ اب اس کی دھاندلی نہیں چلے گی۔ یہ پٹواری کہتے ہیں میں اسمبلی میں کیوں نہیں بولتا، سڑکوں پہ کیوں بولتا ہوں۔ کوئی انھیں بتائے، اس لیے کہ سڑک پہ میں اپنا اسپیکر لے کر آتا ہوں۔ یہاں میرا مائک بند کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ جانب دار امپائرنگ ہے، ہوم گراونڈ پہ ہوم اپمائر نہیں ہونا چاہیے، امپائر نیوٹرل ہو تو ہم کھیلیں گے، نہیں تو تب تک بائیکاٹ ہے ہمارا۔

ایک جیالے کی ڈائری کا صفحہ

سائیں ڈیڈی نے کیدر سٹک کرادیا ہے مجھے۔ ابھی تو میں نے آپنی گریجوائشن بھی کمپلیٹ کرنی ہے، بٹ ڈیڈی بھی ٹرو کہتے ہیں، جب گورنمنٹ کا بزنس کرنا ہے، تو اِدر پاکستان میں کرنا ہے، تو بزنس دیکھنے سال میں ایک دو بار تو آنا پڑے گا۔ اب میں چالاک ہوگیا ہوں۔ ڈیڈی کی ٹوٹلی نہیں مانتا۔ ای سی ایل والا ٹویٹ میں نے ایان کے لیے تھوڑی کیا تھا، وہ تو بس یونہی میرا موڈ ہو را تھا۔ ڈیڈی کہتے ہیں، میں میچور ہوں، بڑوں جیسا بی ہیو کروں، لیکن جب آنٹی حنا کو ایک بیگ لے کر دیا، تو ڈیڈی ناراض‌ ہو گئے۔ آنٹی سے یاد آیا ڈو یو گائز ریمیمبر آنٹی ہیلری کے فنڈز کم ہو گئے تھے۔ پھر فرح آنٹی کے ہبی کو فون کیا ڈیڈی نے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے، تو ہم بھی تو انہی سے لیتے ہیں نا، تو ڈیڈی نے کہا بس ایز ٹوکن آف لو آئی مین ایفیکشن اپیریسیشن ہیلری آنٹی کو لٹل بکس بھجوائے۔ آنٹی بڑی سویٹ ہیں اگلی پبلک میٹنگ میں کہنے لگیں بیل آول ہی سب سے میچور پالیٹیشن ہے۔ مجھے ڈر ہے اور آنٹیاں بھی سچ مچ نہ بتا دیں کہ میں میچور ہو گیا ہوں۔

ایک کمانڈو کی ڈائری کا صفحہ

یہ بات لکھنا ضروری ہے، سبھوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ڈرتے ورتے ہم کسی سے نہیں، اور ان سے۔۔ ان سے جو مجھ سے معافی مانگ کر بھاگ گئے تھے؟ میں معافی مانگ کر نہیں بھاگا۔ مانگی بھی ہے تو ادارے سے مانگی ہے کیوں کہ مجھے پورے ادارے کی اسپورٹ حاصل ہے۔ ادھر عدالت میری جائداد ضبط کرنے کے آرڈر دیتی رہے، اقتدار میں آتے ہی ان عدالتوں کو اتنی آزادی دے دوں گا، جتنی اپنے دور میں دی۔ پھر سبھوں کو دیکھ لوں گا۔ اس الیکشن میں میری کمر میں چُک نہ پڑی ہوتی تو کھڑا ہو جاتا، لیکن اگلی بار کھڑا ہو کر دکھاؤں گا، ناچ کر دکھاوں گا، گا کر سناؤں گا۔ یہ قوم مداری کا تماشا شوق سے دیکھتی ہے۔ جب تک اگلے الیکشن نہیں ہوتے، میں یہاں طبلہ بجا کر، فنکشن کر کے ٹائم پاس کروں گا۔ یہی کر کے تو لندن فلیٹ‌ خریدا۔

ایک بیورو کریٹ کی ڈائری کا صفحہ

دس ہزار میں سے دو سو لوگ پاس کیے جاتے ہیں۔ کے ای کے گولڈ میڈلسٹ۔ ایسے میں لمز، آئی بی اے گریجویٹ گرائمر میں فیل کردیتے ہیں ہم اور انٹرنیشنل افیرز میں ماسٹرز والا کرنٹ افئیر میں رہ جاتا ہے۔ اس پر کمال یہ کہ ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے ہیں۔ میرٹ کا سر بلند ہوتا ہے۔ معیار تعلیم کی برتری تسلیم اور ہمارا شملہ اونچا ہوتا ہے۔۔ شکر ہے کوئی آ کر یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ جو بہترین اداروں کے ٹاپرز فیل کر دیئے ہیں، تو غلطی کہاں ہے؟ اگر قوم یہ سوال کرنے لگی تو ہماری دکان تو بند سمجھو۔ وگرنہ آزادی کے دعوے دار بھلا غلاموں کے لیے بنایا جانے والا سول سروسز سٹرکچر اور ایکٹ قبول کرتے؟ پچھلے سال تو عدالت نے بھی کہا کہ اردو میں پرچے لیے جائیں، پر ہم نے تو آج تک منتخب وزیراعظم کی نہ مانی، ایسی عدالت کی کیا مانیں گے۔ اردو میں آ گیا نظام تو کیا ایرا، کیا غیرا، کیا نتھو خیرا ہر ایک اٹھ کے پرچے نہ دینا شروع ہو جائے گا! سب سمجھتے ہیں بھئی ہم۔ پر کیا کریں گندا ہے، پر دھندا ہے۔ اپنی دکان کون بند کرتا ہے۔

اب آخر میں آپ کو بتاتی چلوں کہ مجھے تھر کے سفر میں ایک ایسی ڈائری بھی ملی جس کے صفحے خشک اور کھردرے تھے۔ بجھے بجھے سے، مٹے مٹے سے۔ کلائیوں سے کندھے کے جوڑ تک سفید چوڑیاں‌ پہنے ایک راہ جاتی ناری کو روک کر پوچھا، یہ کس کی ڈائری ہے؟ وہ کہنے لگی، ایک تھر والی کی۔ پوچھا، تحریر کہاں گئی؟ تو کہنے لگی پیاس کھا گئی۔ میں نے پھر پوچھا کہ پیاس کیسے کھا سکتی ہے؟ کہنے لگی جس قوم کو کربلا تو یاد ہو اور تھر بھول جائے، وہاں پیاس کا کرب و بلا، کچھ بھی کھا سکتا ہے۔ جب ہمارے لیے لکھے ہوئے لفظ بے معنی ہو گئے اور یہاں سے بھیجی تحریروں کا جواب نہ آیا تو یہ سوکھ کر مٹی ہوگئے۔ یہاں بھوک کا ڈیرا ہے۔ ہم تھر کی مٹتی ہوئی تحریریں ہیں۔ مٹی ہوتی تحریر کا ماتم کون کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments