کیا نیب میں ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے؟


سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے علاج کے لئے باہرجانے کے بعد نیب کے سربراہ جاوید اقبال نے قوم کو خوش خبری سنائی ہے کہ اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ احتساب ہوگا، سب کا بلا تفریق اور بلا امتیاز۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمران جماعت میں ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ سب سے پہلے توان کا یہ بیان قابل محاسبہ ہے کہ یہ تاثر کیوں پیدا ہوا کہ احتساب صرف حزب اختلاف کا ہو رہا ہے؟ میاں نواز شریف کے ملک سے باہر چلے جانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ اور آنے والے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ اس عدالتی نظام کے بارے میں قائم اس تاثر کو ختم کیا جائے کہ امیر کے لئے الگ قانون اورنظام انصاف ہے جبکہ عام آدمی کے لئے الگ قانون اور الگ نظام انصاف ہے۔

اگلے روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میاں نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کا سارا ملبہ وزیر اعظم عمران خان پر ڈال دیا۔ انھوں نے سپریم کورٹ کی عمارت میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت عدالت نے نہیں بلکہ حکومت نے دی ہے اس لئے اس گناہ میں عدالتوں کو ملوث کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جسٹس آصف سعید چند ہفتوں کے بعد سابق ہو جائیں گے۔ جسٹس گلزار احمد اس منصب کو سنبھال لیں گے۔

جسٹس آصف سعید نے تو جواب دے دیا ہے لیکن سبکدوش ہوجانے کے بعد وہ مزید کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب یہ نئے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد پر منحصر ہے کہ وہ عمران خان کے اس بیان کا کسی تقریب یا عدالتی کارروائی میں کیا جواب دیتے ہیں اور عملی طورپر امیر اور غریب کے لئے ایک قانو ن اور ایک نظام انصاف کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ اگر نیب کے چیئرمین نے ہواؤں کا رخ حکمران جماعت کی طرف کر دیا تو کئی وفاقی وزیر شکنجے میں آ سکتے ہیں۔

حکومت کے اتحادی جماعت جے ڈی اے اور باپ کے وزیروں کو نیب دفتر بلانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اگر عدالتوں نے امیر اور غریب کے لئے ایک قانون اور ایک نظام انصاف کے نعرے کو عملی طور پر نافذ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تو حکمران جماعت کے کئی وزیر اور ارکان اسمبلی عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر نیب نے ہواؤں کا رخ ادھر کردیا اور عدالتوں نے وزیر اعظم کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے کارروائیاں شروع کردی تو صدر مملکت اور وزیر اعظم بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے میں مصروف ہو جائیں گے۔

پیشیاں نیب کی ہوں یا عدالتوں کی لمبی ہو تی ہیں۔ جب حکمران جماعت اور ان کے اتحادی پیشیاں بھگت رہے ہوں گے تو سلطنت کا نظام کیسے چلے گا؟ الیکشن کمیشن نے بھی بیرونی ملک تحریک انصاف کو چندہ کیس کا مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر سننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا تو امکان یہی ہے کہ مقدمے کا جلد فیصلہ ہو جائے گا۔ اس مقدمے کا فیصلہ اہم اس لئے ہے کہ قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ حکمران جماعت کو کس کس نے سپانسر کیا ہے۔

ماہرین کی رائے ہے کہ اگر اس مقدمے کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے تو ان کی پوری پارٹی نا اہل ہو جائے گی۔ اس وقت قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں موجود ان کے تمام ارکان نا اہل ہو جائیں گے۔ حزب اختلاف کو امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف ہی آئے گا، اس لئے انھوں نے آنے والے سال کو انتخابات کا سال قرار دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے بھی انکشاف کیا ہے کہ ہم اسلام آباد ”ویسے“ نہیں گئے تھے اور نہ ہی ”ایسے“ آئے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مریم نواز شریف اپنے والد میاں نواز شریف کی تیماداری کے لئے باہر جا سکتی ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی علاج کے لئے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب صورت حال یہ ہوگی تو کیا نیب ہواؤں کا رخ کسی اور سمت کر سکتی ہے؟ کیا ملک میں ہر خاص وعام کے لئے ایک قانون اور ایک نظام انصاف کی شروعات ہوسکتی ہے؟

جب شریف خاندان اور زرداری خاندان جو حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کے کرتا دھرتا ہیں علاج کے لئے ملک سے باہر ہوں گے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ وہاں سے حکومت کو نئے انتخابات کے لئے مجبور کرسکیں گے؟ تجزیہ نگار تو شریف خاندان اور زرداری خاندان کے ملک سے باہر ہونے کو حکومت کے لئے مشکلات کا سبب بتا رہے ہیں لیکن معلوم ایسے ہو رہا ہے کہ ان دونوں خاندانوں کو ملک سے باہر بھیج کر نہ صرف موجودہ حکومت کو باقی چار سال تسلی کے ساتھ حکومت کرنے بلکہ 2023 ء میں ہونے والے انتخابات اور سیٹ اپ کے لئے منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر تجزیہ نگاروں نے لکھنا اور بولنا شروع کر دیا ہے کہ آئندہ سال مارچ کا مہینہ اہم ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر کا اتفاق ہے کہ وفاقی بجٹ کے بعد ملک میں انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا یا ایوان کے اندر تبدیلی کا امکان ہے وہ بھی مائنس عمران خان۔

میری رائے ہے کہ اول تو مارچ میں کوئی تبدیلی ہو نے والی ہے نہیں، اگر پھر بھی کوئی شرارت کرتا ہے تو پھر وسط مدتی انتخابات ہو نگے لیکن یہ انتخابات اس لئے نہیں ہو نگے کہ حزب اختلاف کو حکومت دی جائے بلکہ ان انتخابات کا مقصد ہوگا کہ عمران خان کو واضح اکثریت کے ساتھ دوبارہ وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ ایوان کے اندر تبدیلی یا مائنس عمران خان کا نسخہ آزمایا اس لئے نہیں جائے گا کہ یہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں مائنس زرداری اور مائنس نواز شریف کے نسخے کامیاب نہیں ہو ئے تو مائنس عمران خان کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟

موجودہ صورت حال کا اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو بالکل وہی صورت حال ہے جو 2008 ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری اور ان کی حکومت کی تھی۔ ہر روز تجزیہ نگار اور دانشور خبر دے رہے ہوتے تھے کہ زرداری آج گئے اور کل گئے لیکن انھوں نے آئینی مدت پوری کی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کیا گیا لیکن حکومت اور اسمبلی دونوں نے مدت پوری کی۔ عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جب سے اقتدار میں آئے ہیں کبھی خود جانے کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی تجزیہ نگار اور دانشور ان کے جانے کی تاریخیں طے کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنی تمام تر کمزریوں اور متبادل ہونے کے باوجود مدت پوری کی اس کے برعکس عمران خان کا ابھی تک کوئی متبادل بھی سامنے نہیں آیا تو پھر ان کو قبل آز وقت کیسے رخصت کیا جا سکتا ہے؟ اگر ان کو گھر بھیج بھی دیا جائے تو وہ اس یقین دہانی کے ساتھ جائے گا کہ اگلی باری ان ہی کی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).