ہائی ٹیک چشمے اپنی جگہ، لیکن کروڑوں لوگوں کو عام عینک کیوں دستیاب نہیں؟


عینک

خلائی جہاز کی تعمیر کوئی ایسا کام نہیں ہے جس میں آپ جلد بازی سے کام لیں۔

مثال کے طور پر جہاز بنانے والی کمپنی ’لاک ہِیڈ مارٹن‘ میں ایک کاریگر کو ایک خمدار پینل پر 309 مقامات پر نشان لگانے کے لیے دو دن کا وقت لگتا تھا۔

تاہم اس کمپنی کی سربراہ شیلی پیٹرسن کا کہنا ہے کہ تیزی سے ترقی کرتی نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہی کام کرنے میں دو گھنٹے سے تھوڑا زیادہ وقت لگتا ہے۔

تو بدلا کیا ہے؟ بس، کاریگروں نے چشمے پہننا شروع کر دیے ہیں۔ اور یہ کوئی عام عینک بھی نہیں، بلکہ مائیکروسافٹ کمپنی کے بنائے ہوئے ‘ہولو لینز’ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جاپان: کچھ دفاتر میں خواتین کے عینک پہننے پر پابندی

شیشہ گری کا فن، جسے اسلامی دور میں عروج ملا

18 مشینیں ایجاد کرنے والا انڈین ڈاکٹرامام الحق کی عینک اور انگلش میں دلچسپی کیوں؟

یہ دیکھنے میں وزن دار اور بڑی عینک جیسے دکھائی دیتے ہیں اور جو چیز آپ اصل زندگی میں دیکھ رہے ہیں اس کے بارے میں یہ ڈیجیٹل معلومات فراہم کرتے ہیں۔

تو جہاز بنانے کے تناظر میں یہ لینز خمدار پینل کو سکین کرتے ہیں، اس کے بارے میں حساب لگاتے ہیں اور کاریگر کی رہنمائی کرتے ہیں کہ نشان کہاں لگانا ہے۔

عینک

ماہرین ‘ہولو لینز’ اور ‘گوگل گلاسز’ جیسے آلات کے فوائد کے بارے میں سوچ کر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔

جب گوگل نے سنہ 2012 میں سمارٹ گلاسز متعارف کروائی تھیں تو ان کے مستقبل میں مرتب ہونے والے فوائد تھوڑے مختلف نظر آتے تھے۔

دیکھنے میں تو یہ محض صارفین کے لیے بنایا گیا نظر کا آلہ تھا جو ہمیں انسٹا گرام اکاؤنٹ چیک کرنے اور فون کو پکڑنے کی زحمت کے بغیر ویڈیو بنانے میں مددگار ثابت ہوتا۔

یہ عینک زیادہ مقبول نہیں ہوئی اور جب چند افراد ان چشموں کو پہن کر باہر نکلے تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور فقرے کسے۔

گوگل کو جلد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ اس نے اپنی ’ٹارگٹ مارکیٹ‘ کی صحیح شناخت کرنے میں غلطی کر دی ہے تو اس نے ان گوگلز یا عینکوں میں اصلاح کر کے انھیں دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کے استعمال کے لائق بنایا۔

بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جن میں یہ جاننے کے لیے کہ آگے کیا کرنا ہے بار بار رک کر سکرین پر دیکھنا پڑتا ہے۔

سمارٹ عینکوں کی مدد سے ہم کام کرتے کرتے ساتھ ہی یہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ان کی بدولت وہ اہم سیکنڈ بچ جاتے ہیں جو انٹرنیٹ سے دماغ تک معلومات پہنچانے میں صرف ہوتے ہیں۔

عینک

ہزاروں برس پہلے معلومات ایک مقام سے دوسرے مقام تک بہت دھیرے دھیرے پہنچتی تھی۔

سنہ 1010 میں بصرہ میں پیدا ہونے والے دانشور الحسن ابن الحیثم نے اپنی عظیم کتاب ’دی بک آف آپٹکس‘ قاہرہ میں لکھی تھی لیکن ان کی عربی زبان میں لکھی اس کتاب کا ديگر زبانوں میں ترجمہ ہوتے ہوتے دو صدیاں بیت گئیں۔

الحسن ابن الحیثم سے پہلے کسی نے انسانی بینائی کے بارے میں اتنی تحقیق نہیں کی تھی۔

مثال کے طور پر اس سے پہلے بعض سکالرز اور دانشوروں کا خیال تھا کہ آنکھ سے ایک طرح کی شعاع نکلتی ہے جس کے ذریعے انسان کو نظر آتا ہے، لیکن تجربات کی بنا پر الحسن ابن الحیثم نے ان مفروضوں کو غلط ثابت کیا اور کہا کہ روشنی دراصل آنکھ کے اندر آتی ہے۔

اس زمانے میں نظر کے آلات عام طور پر بہت بڑے اور بھدے ہوتے تھے۔

رومن مصنف سینیکا الفاظ کو بڑا کر کے دیکھنے کے لیے پانی سے بھرے کانچ کے ایک کٹورے کا استعمال کرتے تھے۔

لیکن آہستہ آہستہ اس بارے میں علم میں اضافہ ہوا جس نے اس سے متعلق نئے خیالات کو جنم دیا۔

13ویں صدر کے آخر میں پہلی بار پڑھنے والی عینک منظر عام پر آئی۔

یہ عینک بنانے والے کا نام تو تاریخ کے صفحوں میں کہیں کھو گیا ہے لیکن ان کا تعلق شمالی اٹلی سے تھا۔

اس وقت اٹلی کا شہر وینس شیشہ گری کا ایک اہم مرکز تھا۔

پریشان کن بات یہ تھی کہ وینس کی بیشتر عمارتیں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں اور شیشہ گرو جو بھٹیاں استعمال کر رہے تھے وہ اکثر آگ لگنے کا باعث بن جاتی تھیں۔

سنہ 1291 میں شہر کے حکام نے پوری تجارت کو قریب کے جزیرے موارنو منتقل کردیا تھا۔ پھر سنہ 1301 میں ’پڑھنے کی عینکوں‘ کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اس کا ذکر وینس کے کرسٹل ورکرز کی انجمن کے قوانین میں شامل تھا۔

لیکن تاریخ دانوں کو نظر کے چشمے کی ایجاد کے بارے میں سب سے اہم اشارہ 1306 میں ایک شخص فرایئر جیورڈانو دا پیسا کے خطبے سے ملا۔ انھوں نے اس خطبے کے حاضرین کو بتایا کہ یہ ایجاد اب 20 برس پرانی ہے۔

ایلبرٹو مینگوول اپنی تصنیف ’اے ہسٹری آف ریئلیٹی‘ میں لکھتے ہیں کہ فرائیر نے عینکوں کو ’دنیا کی اہم ترین ایجادات میں سے ایک بتایا۔‘

ان کا یہ خیال بالکل درست تھا۔ ماحول کتنا بھی روشن ہو پڑھنے سے آنکھوں پر اثر پڑتا ہے۔ قرون وسطیٰ کی عمارتیں اپنی بڑی بڑی کھڑکیوں کے لیے مشہور نہیں تھیں، مصنوعی روشنی مدھم ہوتی تھی اور ساتھ ہی مہنگی بھی۔

جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہم اپنے قریب رکھی چيزوں کو صحیح سے دیکھ پانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ادھیڑ عمر کے بھکشو، سکالرز اور تاجروں کے لیے ایک خاص عمر کے بعد صحیح سے دیکھ پانا مشکل ہوتا تھا۔ فرایئر جیورڈانو کی عمر 50 برس تھی۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انھوں نے چشموں کی اہمیت اور قدر کو کیوں سمجھا۔

لیکن یہ عینک صرف اس ایک محدود طبقے کے لیے مددگار تھی جو پڑھ سکتا تھا۔ جب پرنٹنگ پریس کا آغاز ہوا تو عینکوں کی منڈی وسیع ہو گئی۔

عینک

سینٹ آگسٹائن کی سنہ 1498 کی تصویر جس میں انھوں نے عینک پہن رکھی ہے

پڑھائی لکھائی کرنے کی مخصوص عینکوں کی پہلی دکان سنہ 1466 میں فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں کھولی گئی۔

عینک بنانے والی کمپنیوں نے کونکیو یا مقعر عینکیں جو قریب کی چيزیں دیکھنے میں مدد کرتی ہیں اور کونویکس یا محدب عینکیں بھی بنانی شروع کر دیں جو دور کی چيزیں صاف دیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

مقعر اور محدب عدسوں کو ایک ساتھ رکھیں اور آپ کے مائیکروسکوپ اور ٹیلی سکوپ بنانے کی بنیادی اشیا حاضر ہیں۔

یہ دونوں ایجادات سنہ 1600 میں نیدرلینڈ کی ایک عینک کی دکان میں ہوئیں جس نے سائنسی تحقیق کے لیے ایک نئی دنیا کھول دی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگ آج عینک کو ایک عام چيز سمجھ کر اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔

’کالج آف آپٹومیٹرسٹ‘ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں دو تہائی افراد عینک یا کانٹیکٹ لینز لگاتے ہیں یا انھوں نے نظر درست کرنے کے لیے آپریشن کرا رکھا ہے۔ امریکہ اور جاپان میں یہی حال ہے۔

کم ترقی یافتہ ممالک میں تصویر مختلف ہے اور حال ہی میں اس بارے میں صورتحال واضح ہوئی ہے۔

عینک

پوری دنیا میں ڈھائی ارب افراد کو نظر کے چشموں ضرورت ہے لیکن ان کے پاس چشمے نہیں ہیں

عالمی ادارہ صحت نے آنکھوں کے مسائل والے افراد کے بارے میں تاریخی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔

متعدد افراد کسی طرح سے اپنا کام چلا لیتے ہیں لیکن اگر ان کے پاس عینکیں ہوں تو انھیں فائدہ ہوگا۔ لیکن کتنے لوگوں کو؟ عینک بنانے والی معروف عالمی کمپنی ایسیلور نے یہ معلوم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور انھوں نے ایسا صرف فلاحی جذبے کے لیے نہیں کیا۔

سنہ 2012 میں اس بارے میں جواب ملا۔ پوری دنیا میں ڈھائی ارب افراد کو عینکوں کی ضرورت ہے لیکن ان کے پاس عینک ہی نہیں ہے۔

یہ آنکھیں کھول دینے والے اعداد و شمار ہیں اور اس بارے میں جو لوگ سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار قابل اعتماد ہیں۔

ان ضرورت مند افراد میں سے بہت سے افراد کو یہ معلوم بھی نہیں ہے کہ عینک ان کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

عینک

جن لوگوں نے عینک پہنی تھی انھوں نے دوسرے لوگوں کے مقابلے 20 فی صد زیادہ چائے کی پتیاں توڑیں

سنہ 2017 میں محققین نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے چائے کے باغات میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی آنکھوں کا ٹیسٹ کیا جن کی عمر چالیس برس یا اس سے زیادہ تھی۔

انھوں نے ان ضرورت مند افراد میں سے نصف کو 10 ڈالر کی قیمت والی نظر کی عینک دی اور پھر انھوں نے ان افراد کی کارکردگی کا موازنہ ان لوگوں سے کیا جن کے پاس عینک نہیں تھی۔

جن لوگوں نے عینک پہنی تھی انھوں نے دوسرے لوگوں کے مقابلے 20 فی صد زیادہ چائے کی پتیاں توڑیں۔

جس کی عمر جتنی زیادہ تھی اتنی ہی ان کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کو پتیاں توڑنے کی مقدار کے حساب سے دہہاڑی ملتی ہے۔

اس تحقیق کے شروع ہونے سے پہلے کوئی بھی عینک نہیں لینا چاہتا تھا لیکن بعد میں وہ اسے واپس نہیں دینا چاہتے تھے۔

ہم اس تحقیق کے نتائج کا استعمال کس حد تک دوسرے شعبوں میں کر سکتے ہیں یہ کہنا مشکل ہے لیکن دوسرے کاموں کے مقابلے میں چائے کی پتیاں توڑنے میں صحیح نظر کا کردار بہت اہم ہے۔

لیکن کم سے کم تخمینہ لگانے سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کمزور نظر کی وجہ سے معیشت کو سالانہ دسیوں ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور یہ تب جب ہم لوگوں کے طرز زندگی اور کمزور نظر والے بچوں کی سکول میں جدوجہد کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔

ایک تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بچوں کو عینک دینا ان کی سکول کی پڑھائی میں آدھے سال کی اضافی پڑھائی کے برابر ہے۔

عینک

بہت سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں نظر کے مسائل کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں

اور اس ضرورت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پریسبایوپیا یا دور کی نظر عمر کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی ہے لیکن عالمی سطح پر بچوں میں مایوپیا میں قریب کی نظر کمزور ہونے کی وبا پھیل گئی ہے۔

محقیقین کو اس کی وجہ نہیں معلوم لیکن اس کا تعلق اس بات سے ہو سکتا ہے کہ آج کل بچے کم وقت باہر گزار رہے ہیں۔

دنیا کی نظر درست کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

ظاہر ہے آنکھوں کے اضافی ڈاکٹر مدد گار ثابت ہوں گے۔ پوری دنیا میں ہر ملک میں آنکھوں کے ڈاکٹروں کی تعداد مختلف ہے۔

یونان میں تقریباً پانچ ہزار افراد کے لیے ایک آنکھوں کا ڈاکٹر ہے جبکہ انڈیا میں ستر ہزار افراد کے لیے ایک۔ بعض افریقی ممالک میں دس لاکھ لوگوں کے لیے آنکھوں کا صرف ایک ڈاکٹر ہے۔

اگرچہ آنکھوں سے متعلق سنجیدہ مسائل کے لیے ایک پروفیشنل ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن معمولی مسائل کے لیے نرسوں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

روانڈا میں ایک فلاحی ادارہ نرسوں کو آنکھوں کا چیک اپ کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ محققین کو معلوم ہوا ہے کہ 90 فی صد معاملات میں نرسیں ہی آنکھوں کا چیک اپ کررہی تھیں۔

کیا اساتذہ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچہ کمزور نظر کی وجہ سے پڑھنے میں دشواری کا سامنا کررہا ہے؟

میں پرائمری سکول سے عینک پہن رہا ہوں۔ میرے استاد نے مجھے بلیک بورڈ پر پڑھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا اور انھوں نے میری والدہ کو یہ بات بتائی تب وہ مجھے آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں۔

ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اساتذہ بچوں کی کمزور نظر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کچھ گھنٹوں کی تربیت کے بعد چین کے دیہی علاقوں کے سکولوں میں اساتذہ اس قابل ہو گئے تھے کہ وہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ کون سا بچہ کمزور نظر کی وجہ سے پڑھائی میں دقت کا سامنا کررہا ہے اور 13ویں صدی میں جو تکنیک ایجاد ہوئی تھی اسے اس دور میں استعمال میں لانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔

ذرا سوچیے فرائیر جیورڈانو آج کے دور کے بارے میں کیا سوچیں گے جہاں ہم خلائی جہاز بنانے میں آگمینٹڈ ریئلیٹی کا استعمال کرتے ہیں لیکن کروڑوں لوگوں کو صاف دکھائی دے، اس میں ان کی مدد نہیں کر پائے۔

وہ ہمیں شاید یہ بتائیں گے کہ ہمیں اپنی توجہ کہاں مرکوز کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp