سندھ: تعلیمی نصاب میں خواتین کا کردار گھر کے کام کاج تک محدود
پاکستان کے صوبہ سندھ کے پرائمری اور سکینڈری نصاب تعلیم میں خواتین کے بارے میں متعصب مواد پایا جاتا ہے جس میں مردوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ خواتین کا کردار گھر کے کام کاج تک محدود رکھا گیا ہے۔
یہ نتیجہ سندھ کی شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کی جانب سے سندھی نصابی کتابوں میں صنفی نمائندگی اور شناخت پر تحقیق سے اخذ کیا گیا ہے۔
یہ تحقیق شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کی ڈاکٹر نادیہ آغا، پروفیسر غزل کاظم اور دیدار میرانی نے کی ہے۔
ڈاکٹر نادیہ آغا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تحقیق دو حصوں میں کی گئی ہے۔
پہلے مرحلے میں پرائمری سطح کے نصاب کا جائزہ لیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں سیکینڈری نصاب کا تجزیہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس نصاب میں صنفی نمائندگی کیسے کی گئی ہے۔ اس کے لیے نصاب میں موجود تصاویر اور مواد کا تجزیہ کیا اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ نصاب پدرانہ نظام کو ( جس میں گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے) سپورٹ کرتا ہے۔‘
عورتوں کا کردار گھریلو کام کاج تک محدود
ڈاکٹر نادیہ کے مطابق سندھی نصابی کتابوں میں عورتوں کو یا تو گھر کا کام کاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے یا اگر وہ سکول بھی جاتی ہیں تو وہاں بھی جو تعلیم دی جاتی ہے وہ گھر کے کام کاج کے بارے میں ہی ہوتی ہے۔
اس میں دکھایا گیا ہے کہ سکول سے واپسی پر لڑکا بیٹھ جاتا ہے اور لڑکی اسے پانی لاکر دیتی ہے، اس کی خدمت کر تی ہے۔ ماں نے کھانا بنایا ہوا ہے تو وہ کھانا لے کر جاتی ہے۔ شام میں لڑکا کھیلنے چلا جاتا ہے جبکہ لڑکی گھر میں بیٹھ کر ماں کا ہاتھ بٹاتی۔
مزید پڑھیے
خواتین کو برابری دینے میں پاکستان سب سے پیچھے
خواتین سیاست پر بحث کیوں نہیں کرتیں؟
تحقیق میں پہلی جماعت کے خاندان کے بارے میں مضمون کو زیر بحث لایا گیا ہے جس میں والد کے کام کاج کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ جبکہ ماں کا کردار گھریلو کام کاج تک محدود ہے کہ وہ ناشتہ بناتی ہے، گھر کی صفائی کرتی، پھر دوپہر کا کھانا بناتی ہے۔
تحقیق میں تبصرہ کیا گیا ہے اس صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گھر کا کام کاج صرف عورت کی ہی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح تیسری جماعت کے سبق میں دو اچھی لڑکیوں، نوری اور شبنم، کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ کبھی فارغ نہیں بیٹھتی: سلائی کڑھائی کرتی ہیں، برتن اور کپڑے دھوتی ہیں اور دیگر لڑکیوں کے ہمراہ اپنی کلاس کی بھی صفائی کرتی ہیں۔
تیسری جماعت کے پانی پر سبق میں تین تصاویر دی گئی ہیں جن میں ایک میں مرد استاد اور طالبعلم پانی ذخیرہ کرنے پر بات کر رہے ہیں۔ دیگر دو تصاویر میں کنویں اور جھیلوں میں پانی جمع ہونے کے بارے میں دکھایا گیا ہے۔ جبکہ ان میں خواتین پانی نکالتے یا پھر لے جاتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
لڑکیوں کے لیے تعلیم اور صحت کے شعبے
سندھ کے محکمۂ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق سرکاری سکولوں میں صرف 39 فیصد لڑکیاں ہیں۔ اسی طرح ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے جن میں 31 فیصد خواتین ٹیچرز ہیں۔
ڈاکٹر نادیہ آغا کا کہنا تھا کہ سکول میں جب مستقبل کا پروفیشن منتخب کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو سائنس اور انجنیئرنگ کے شعبوں کی طرف لڑکوں کا رجحان زیادہ دکھایا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو صحت، ٹیچنگ یا نرسنگ کی طرف راغب دکھایا جاتا ہے: ’جو گھر کے کام کرنے والے کردار ہیں ان میں عورت کو فٹ کیا گیا ہے اور جو پیداواری کام ہیں اس میں لڑکوں کو کردار دیا گیا ہے۔‘
اس تحقیق کے مطابق سندھی کے علاوہ انگریزی اور پاکستان سٹڈیز کے مضامین میں بھی صنفی برابری نہیں۔ پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بھی کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
ڈاکٹر نادیہ آغا کے مطابق ہماری عوامی اور تاریخی شخصیات کے بارے میں مضامین میں بھی مردوں کا ذکر زیاہ ہے۔ جبکہ خواتین کا ذکر شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے، حالانکہ عام زندگی میں ان کے بھی حوالے دیئے جاتے ہیں۔
زیر تعلیم بچوں کے ذہنوں پر اثرات
یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں جینڈر سٹڈیز کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر امبرین صلاح الدین کا کہنا ہے کہ جب گھر کے ماحول سے نکل کر بچہ پہلی مرتبہ سکول آتا ہے تو اس کے لیے استاد یا استانی اور وہ کتاب جس سے اس کا تعارف ہو رہا ہے بہت اہم ہیں اور اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔
ان کے بقول ’نصاب میں سماجی کردار کا تعین کیا جاتا ہے۔ جیسے ہماری اردو کی کتاب میں ہے حامد اور ثریا بھائی بہن ہیں۔ سکول سے واپس آئے تو ثریا نے بستہ رکھا اور ماں کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹانے چلی گئی۔ جبکہ حامد نے بستہ رکھا اور بچوں کے ساتھ کھیلنے باہر چلا گیا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ لڑکی نے گھر کا کام کرنا ہے اور لڑکے کا ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ذہنوں میں اثر چھوڑتے ہیں کہ ہاں یہ ہمارا کردار ہے۔
ڈاکٹر نادیہ آغا کا کہنا ہے کہ نصابی کتب میں موجود مواد ہی ٹیچرز پڑھاتے ہیں اور بچے سمجھتے ہیں کہ یہ ہی حقیقت ہے۔ ان کے بقول اس سے مرد اور عورت کے روایتی کردار کا تسلسل جاری رہتا ہے اور لوگ اس پر سوال اٹھانے کی بجائے اسے قبول کر لیتے جس سے پدرانہ نظام کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
نصاب کی تشکیل میں عدم توازن
پاکستان میں اس وقت چاروں صوبوں کے علاوہ وفاقی تعلیمی بورڈ، آغا خان تعلیمی بورڈ اور کیمبرج بورڈ کا نصاب رائج ہے۔ بچوں کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہے۔
ڈاکٹر امبرین کا کہنا ہے کہ نصاب ترتیب دیتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ ترتیب دینے والے کون لوگ ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے کاموں میں صنفی برابری نہیں ہوتی اور انہیں قوی یقین ہے کہ جب نصاب کی تشکیل ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نادیہ آغا کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ اس تحقیق کے ذریعے پالیسی سازوں کو بتانا چاہتی ہیں کہ وہ نصاب پر نظر ثانی کریں کیونکہ اس سے تبدیلی نہیں آرہی بلکہ اس سے ماحول زیادہ خراب ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر امبرین کا مشورہ ہے کہ نصاب کی تشکیل کرنے والوں میں انسانی حقوق، صنفی برابری، قانون اور مذہب کا علم رکھنے والوں کو شامل کرنا چاہیے۔
- انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے - 19/04/2024
- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).