انڈین کھانوں کے ذائقے پر بحث میں نسل پرستی اور عدم رواداری کا تڑکا


انڈین فوڈ

انڈین کھانوں میں برصغیر کے انواع اقسام کے کھانے شامل ہیں

انڈین کھانوں کے بارے میں ایک امریکی ماہر تعلیم کی ٹویٹ نے کھانوں کی دنیا میں ثقافتی عدم رواداری اور نسل پرستی پر گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔

اپنی ٹویٹ میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ٹام نیکولس نے لکھا ’انڈین کھانے بد ذائقہ ہیں۔ ہم یہ تاثر دیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے لیکن یہ درست نہیں ہے۔‘ تاہم ناقدین ان کے بیان کو ’بے مزا جنرلائیزشن‘ کہہ رہے ہیں۔

اس تبصرے نے تارکین وطن کے وسیع تجربات پر بھی بحث چھیڑ دی ہے کہ امریکہ میں انھیں کس طرح کھانے کے معاملے میں نسل پرستی کا سامنا رہا ہے۔

ٹام نیکولس رھوڈ آئی لینڈ میں امریکی نیول وار کالج میں پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا تبصرہ ایک دوسرے ٹوئٹر صارف کی درخواست پر تب پوسٹ کیا تھا جب انھوں نے صارفین سے ‘کھانے کے متعلق متنازع رائے’ جاننے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین کشمیر میں پاکستانی بہو کے پکوان

انڈین ٹوئٹر پر کھچڑی کی کھچڑی بن گئی!

’والدہ سے ڈوسا بنانا سیکھا، آج وہی کام آ رہا ہے‘

ناقدین نے فوری طور پر اس پر ردعمل ظاہر کیا۔ سیلبریٹی شیف پدما لکشمی نے پوچھا ‘کیا آپ کے پاس ٹیسٹ بڈز نہیں ہیں؟’

https://twitter.com/RadioFreeTom/status/1198644649105080320

ایک دوسرے مبصر نے لکھا ‘ذرا تصور تو کریں اس بد مزگی کے ساتھ زندگی گزارنا کیسا ہو گا۔’

نیویارک سے ایک سابق وکیل استغاثہ پریت بھرارا نے ہیش ٹیگ #ButterChickenSummit کے ساتھ ٹویٹ کیا ‘ٹام میں آپ کو ایک کھانے کی جگہ لے جاؤں گی۔ ہمیں ملک کو متحد کی ضرورت ہے۔’

بہت سے صارفین کا خیال تھا کہ نکولس نے شاید انڈیا جیسے مختلف انواع، تہذیب و ثقافت والے ملک کے مختلف پکوانوں میں سے صرف ایک فیصد ہی چکھا ہوگا۔ بعد میں نکولس نے اعتراف کیا کہ انھوں نے صرف برطانیہ اور امریکہ کے ہندوستانی ریستورانوں میں ہی ایک آدھ بار کھانا کھایا ہے۔

https://twitter.com/sivavaid/status/1198370050174070786

نکولس کی ٹویٹ نے کھانے کے بارے میں تارکین وطن کے وسیع تر تجربات پر بھی ایک بحث شروع کر دی ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکہ میں بین الاقوامی کھانوں کو بعض اوقات ‘نسلی کھانے’ یا ایتھنک فوڈز کہا جاتا ہے اور اسے عام طور پر ‘سستے کھانے’ کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ امریکہ میں بنائے جانے والے ایسے سٹریٹ کھانوں سے زیادہ متعارف ہیں جن میں اصلی اجزا کی کمی ہوتی ہے۔

‏محترمہ پربھا نامی صارف نے لکھا ‘انڈین فوڈ ‘جیسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔

اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ‘کری فلیور’ اور ‘چائے ٹی’ جیسی بھی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہندی میں ‘ٹی’ کے لیے ‘چائے’ کا لفظ کا استعمال ہوتا ہے جبکہ ‘کری’ کھانے پکانے کا طریقہ ہے نا کہ ذائقے کے لیے استعمال ہونے والی کوئی چیز۔

https://twitter.com/soniagupta504/status/1198656409421959169

بعض نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ کیسے بو اور ذائقہ ایک طویل عرصے سے اقلیتوں کے بارے میں نسل پرستانہ تبصروں میں شامل رہا ہے اور انھوں نے نکولس پر عدم رواداری کا الزام بھی عائد کیا۔

امریکہ آنے والوں کی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والی سائرہ راؤ نے ٹویٹ کیا ’ایک ہندوستانی کے طور پر سفید فام افراد کی جانب سے ہندوستانی کھانے کو رد کرتے دیکھنا بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ انڈینز کو کہا جاتا ہے کہ ان سے عجیب قسم کی بو آتی ہے، ان کے کھانے کی بو عجیب ہوتی ہے اور ہندوستانی سڑکوں پر رہتے ہیں اسی لیے ان کی ہر چیز بدبودار ہوتی ہے۔‘

جب اس مباحثے پر انڈین میڈیا کی نظر پڑی تو ہیش ٹیگ #MyFavouriteIndianFood یعنی میرا پسندیدہ انڈین کھانا ٹرینڈ کرنے لگا۔

امریکہ میں صدارتی امیدوار کملا ہیرس جن کی والدہ جنوبی انڈیا سے تعلق رکھتی ہیں انھوں نے بھی ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے کامیڈین منڈی کالنگ کے ساتھ کھانا پکانے کی ایک ویڈیو کا ٹیزر شیئر کیا۔

بعض کھانے کے شوقین افراد نے اس مباحثے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ’میں دیکھ رہی ہوں کہ کچھ لوگ انڈین کھانوں کے متعلق ٹوئٹر پر نسل پرستانہ خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا ہے تو میرے لیے اور کھانا لائیے۔‘

https://twitter.com/peterkalksma/status/1198937378229911553

کچھ صارفین نے اے بی سی کے سینیئر رپورٹر ٹیری موران کے ’متنازع کھانوں‘ والی ٹویٹ پر اسی طرح کے سوالات کیے جس میں انھوں نے لکھا تھا ’چینی کھانے اچھے نہیں ہیں۔ یہ بورنگ، بہت نمک والے اور ایسے ہیں جنھیں بالکل بھولایا نہ جا سکے۔‘

https://twitter.com/justinhousman/status/1198438164714508288?s=21

ایک صارف نے ان کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا ’اوہ خدایا بلبلے میں رہنے والا ایک اور سفید فام شخص انواع و اقسام کے علاقائی کھانوں کے بارے میں اپنی افسوسناک لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے۔‘

ایشیائی کھانوں کے شوقین افراد نے موران کو گھیر لیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے ٹیک آوٹ ریستورانوں سے ہی کھانا کھایا ہے اور کبھی دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا اصلی کھانا نہیں کھایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp