پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا پہلا دور کیسا رہا؟


باجوہ

جانے کی باتیں جانے دو۔۔۔ والے ’ناگزیر‘ جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز تھے جن میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ، جنرل راحیل شریف کے متاثر کن امیج کے بعد اپنی الگ پہچان، فوج سے ’ناراض‘ وزیراعظم نواز شریف سے ریاستی امور پر ہم آہنگی، سرفہرست قرار دیے جا سکتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں پُر اعتماد آغاز کے لیے آٹھ میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل پر ترقی دے کر اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، کور کمانڈر منگلا عمر فاروق درانی کا پاکستان آرڈینینس فیکٹریز اور کور کمانڈر راولپنڈی ظفر اقبال کا تبادلہ جوائنٹ سٹاف چکلالہ کر دیا گیا۔

اول الذکر دو افسران نے بعد ازاں استعفیٰ دے کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ جنرل باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا (نامزد چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی)، کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل اظہر صالح عباسی اور چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کو مقرر کیا۔

’سپر سیڈ‘ ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) اشفاق ندیم کو ایم ڈی ماڑی پٹرولیم کا عہدہ دیا تاکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا یکسوئی سے آغاز کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

سر باجوہ، نہ کریں!

‘کوئی پوچھے تو کہنا قمر باجوہ آیا تھا’

جنرل باجوہ کے چیلینجز

بری فوج میں نئی تقرریاں اور تبادلے

باجوہ

آپریشن ردالفساد اور ہتھیار ڈالنے والے شدت پسندوں کے لیے معافی

آرمی چیف کی ہدایت پر ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حتمی آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔

جنرل باجوہ کی سکیورٹی پالیسی کا منفرد پہلو یہ تھا کہ انھوں نے کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں سے مذاکرات بھی کیے۔

تحریک طالبان پاکستان، جیے سندھ قومی محاذ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسندوں اور پنجابی طالبان کے ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو جنرل راحیل شریف کے دور میں دی گئی معافی کا سلسلہ جنرل باجوہ کے دور میں تکمیل کو پہنچا۔

باجوہ

افغانستان سے متصل سرحد پر حفاظتی باڑ اور سرحدی قلعوں کی تعمیر سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اس کے ساتھ بحالی اور تعمیر نو کے لیے سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا گیا۔

جنرل باجوہ کے تین برسوں میں ’فوجی سفارتکاری‘ کا تصور سامنے آیا ہے جس سے ان کے غیر ملکی دوروں، پاکستان آئے غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں اور خصوصاً افغان طالبان اور امریکہ میں مذاکرات میں کردار سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا

کس کس نے توسیع لی اور کس نے اسے ٹھکرایا؟

آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ سے کون کون باہر ہوا؟

باجوہ

’جنرل باجوہ سے زیادہ متوازن اور جمہوری آدمی فوج میں نہیں دیکھا‘

جنرل باجوہ کا شخصی تاثر آرمی چیف کے عہدے سے پہلے بھی کسی سخت گیر جرنیل کا نہیں رہا، وہ ایک گردانے جاتے ہیں۔

تین سال پہلے جب انھیں بطور آرمی چیف نامزدگی کی اطلاع دینے کے لیے وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا تو وہاں بھی جنرل باجوہ استقبال کرنے والے جونیئر فوجی و سول افسران سے روایتی تحکمانہ انداز کی بجائے بے تکلف ہو کر گلے ملے۔

ان سے ملاقات کرنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد اس تاثر کی تائید کرتے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان کے مطابق انھوں نے جنرل باجوہ سے زیادہ متوازن اور جمہوری آدمی فوج میں نہیں دیکھا اور وزارت عظمیٰ کے آغاز میں ہی طے کر لیا تھا کہ جنرل باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے۔

باجوہ

سنہ 2017 میں جب عمران خان اپوزیشن کے اہم رہنما تھے، اس وقت بھی انھوں نے کہا کہ آرمی چیف جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جنرل باجوہ کو قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بھی بنایا گیا جس کا مقصد ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

موجودہ حکومت کے دور میں کرتار پور راہداری، پلوامہ حملہ کشیدگی، آسیہ بی بی کیس کے بعد احتجاج سے نمٹنا، کرپشن کے خلاف اقدامات، کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر احتجاج جیسے ملکی و بین الاقوامی معاملات میں اداروں کے تعلقات مثالی رہے ہیں۔

مزید پڑھیے

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل

جنرل باجوہ نے بچوں کو چپ کرا دیا

باجوہ ڈاکٹرائن یا عمرانی نظریہ، فیصلہ ہو چکا

مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ پر چہ مگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ان کی واپسی سے تحریک انصاف نے سکھ کا سانس لیا البتہ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر رنجیدہ اور دل گرفتہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا ایک ٹاک شو میں کہہ بیٹھے کہ ’ہمارے پاس حکومت تو ہے لیکن اقتدار نہیں‘۔

بعد ازاں اس کی وضاحت انھوں نے اس طرح کی کہ ’ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لیے ہمارے پاس اقتدار نہیں‘۔

عمران حکومت میں جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر شاہ کو تبدیل کر کے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی مقرر کیا، یہ تبدیلی اس لیے نظروں میں آئی کیونکہ جنرل عاصم منیر محض آٹھ ماہ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے جو کہ سابقہ آئی ایس آئی سربراہان کی مدت میں سب سے کم ہے۔

تین وزرا اعظموں کے ساتھ کام کیا

جنرل باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں دو سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی حکومتوں اور تین وزرائے اعظموں کے ساتھ کام کیا تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا ساتھ صرف آٹھ ماہ کا تھا۔

نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ادوار میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مبصرین کے خیال میں ڈان لیکس، پاناما جے آئی ٹی، بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تبدیلی، کراچی میں ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کا چند گھنٹوں کا انتخابی اتحاد، فوجی ترجمان کا سنہ 2018 کو تبدیلی کا سال کہنا، عام انتخابات کے نتائج پر حزب اختلاف کی جماعتوں کا اعتراض اور وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی، ایسے واقعات ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ کے دور میں منتخب حکومت کا کردار محدودیت کا شکار رہا۔

نا اہل ہونے کے بعد نواز شریف نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہا کہ ایسا ملک نہیں چل سکتا جہاں دو تین متوازی حکومتیں بھی ہوں۔ بے آوازوں کی آواز کہلانے والے میڈیا اور عوامی سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادیوں میں کمی آئی۔ مثبت رپورٹنگ، دوستانہ مشورے، سیلف سنسرشپ کی وجہ سے ذرائع ابلاغ نے اپنی نئی حدود کو پہچانا اور اسی کے مطابق سرگرم عمل ہو گئے۔

باجوہ

مقامی میڈیا میں ان تمام موضوعات پر اشاروں میں دبی دبی بات ہوئی لیکن بین الاقوامی میڈیا بلاجھجک ان پر بات کرتا رہا۔

کرپشن اور موروثی سیاست کو ناپسند کرنے والے پاکستانی، جنرل باجوہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں ان دونوں ایشوز پر کوئی عملی نتائج نہیں آ سکے تھے۔

مدت ملازمت میں توسیع پر رائے منقسم

مدت ملازمت میں توسیع کی گزشتہ مثالوں پر عسکری حلقوں میں رائے منقسم رہی ہے لیکن اکثر سبکدوش یا موجودہ افسران کسی توسیع پر سر عام تنقید کی بجائے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

بعض فوجی مبصرین کا کہنا تھا کہ توسیع کے بعد جنرل باجوہ گذشتہ تین برسوں کے مقابلے میں نسبتاً پرسکون اور بہتر انداز میں کام کر سکیں گے کیونکہ آرمی کی موجودہ لیڈر شپ کے سبھی لیفٹیننٹ جنرلز کا انتخاب خود جنرل باجوہ نے کیا۔

اس کے علاوہ نامزد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا ان کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں۔

سوموار کی شام فوج کے نصف درجن کلیدی عہدوں پر نئی تقرریاں ہوئیں تو یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اپنے دوسرے دور ملازمت کی تیاری کی سلسلے کی کڑی سمجھی جا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp