عورت دو ٹکے کی، مرد کیوں نہیں


کئی دفعہ کا ذکر ہے ہر زمانے میں ایک لڑکے کو ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ کیوں ہوتی ہے پتہ نہیں۔ اس کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟ اس کاجواب کون دے سکتا ہے؟ دوسرا کوئی اس کا جواب نہیں دے سکتا کہ اس کا جواب تو عموماً ان کے پاس بھی نہیں ہوتا جن کو یہ ہوتی ہے۔ محبت کیوں اور کیسے ہوئی انسان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، اور وہ اس آزار میں گرفتار ہو جاتا ہے یہ محبت کم بخت انجانے میں وار کر جاتی ہے۔ صنف نازک کو دیکھ کے دل میں ہلچل سی مچ گئی، نگاہوں کا تصادم ہوا، لڑکی کے عارض گلنار ہوئے، آنکھیں شرم سے جھک گئیں، ہونٹوں پہ شرمیلی مسکراہٹ آگئی، تو بس سمجھ لو دونوں گئے کام سے۔

یہ کیسا عجیب سا تعلق ہے کہ جس میں منہ سے کچھ کہنے کی نوبت نہیں آتی اور بنا کہے دونوں اک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ کیسا تعلق ہے جو دو انجان لوگوں کے بیچ قائم ہو جاتا ہے محبت کی پہچان بن جاتا ہے۔ محبت خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہے۔ آنکھوں میں خمار آجائے، دل کا قرار چلا جائے، یہ کیسا رشتہ ہے جو تن بدن میں آگ لگا دے، جلا کر راکھ کر دے، کچھ نہ چھوڑے۔ یہ کیسے ہوتی ہے نہیں پتہ چلتا بس ہو جاتی ہے۔

وصل یار نصیب ہو تو سر آنکھوں پر، نہ ہو تو ہجر یاراں کسک دیتا رہتا ہے ساری زندگی ستاتا ہے تڑپاتا ہے۔ محبوب نہ ملے تو اس کا ہجر دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے اور بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان دنوں محبت کے نام پہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں وصل نصیب ہو جائے تو محبوب چاٹ جاتا ہے۔ ککھ نہیں چھوڑتا۔ محبت سراسر خسارے کا سودا ہے اس میں نفع ہے ہی نہیں۔ کیا عجیب بات کہ جدھر سے نفع نظر آتا ہے وہ دل میں سماتا ہی نہیں۔

وہ ِ بھی ایک لڑکی تھی دوسری لڑکیوں کی طرح۔ اس کو بھی محبت ہوگئی سوہنی کی طرح۔ اس کابھی ایک محبوب تھا رانجھے جیسا۔ لیکن وہ رانجھے جیسا تھا رانجھا نہیں تھا۔ ان دونوں نے یونیورسٹی میں ایک دوسرے کو دیکھا، نگاہوں کا تصادم ہوا اور سیل نمبر کا تبادلہ ہو گیا۔ ان میں بات ہونے لگی، ساری ساری رات ہونے لگی۔ وہ دونوں محبوب اور محبوبہ بن گئے۔ وہ کہتا جلدی میسج کیا کرو میری نظریں موبائل سکرین پہ لگی رہتی ہیں۔ وہ کہتی میں تو موبائل ہی سے لگی رہتی ہوں، وہ کہتا تم سے بات نہ کروں تو سانسیں اٹکی رہتی ہیں، وہ مسرور ہو جاتی، پوچھتی کب تک ساتھ ہو، وہ کہتا آخری سانس تک، بس پھر دونوں کی سانسیں ایک ساتھ چلتیں۔

میسج سے وائس میسج اور وائس میسج سے ویڈیو کال تک آگئے۔ ۔ محبت روح سے روح تک کا سفر، جس میں تھکن اتارنے کوبدن کا پل آتا ہے۔ جہاں ٹھہر کے خوشیاں کشید کی جاتی ہیں، وہ یونیورسٹی میں حجاب کرتی تھی لیکن وہ اس کو ویڈیو کال پہ بے حجاب دیکھتا، محبوب کی خواہش اس سے زیادہ کی تھی۔ وہ محبت کو جنسی عمل کے بغیر ناجائز مانتا اور وہ جنسی عمل کو بنا نکاح کے جائز نہ مانتی۔ وہ محبت کا یقین مانگتا۔ نیوڈ پکس کا تقاضا کرتا۔

محبت کے بیچ خواہش آگئی، خواہش جو فطری ہے لیکن محبت بھی تو فطری ہے۔ وہ بہکی نہیں تھی ہار گئی تھی، محبت جو کرتی تھی مان گئی تھی، اس نے خود کو وار کر محبت کا صدقہ اتار دیا۔ ہونٹوں کی نرماہٹ سے سانسوں کی گرماہٹ تک کا فاصلہ سمٹ گیا۔ جانے کیوں تھکن اتارتے، سانس لیتے، خوشیاں سمیٹتے سب کچھ بدل گیا۔ محبت کو گالی بنانے سے بچاتے وہ خود گالی بن گئی۔ وہ محبوبہ کی کسوٹی پہ پورا اتری تھی لیکن بیوی کے لئے معیار اور تھا۔ بیوی اُسے پارس، ان دیکھی ان چھوئی، پاکیزہ چاہیے تھی۔ اسے گھر کے لئے شریف زادی درکار تھی محبت کے نام پر خود کو نچھاور کر دینے والی نہیں۔

ایک عورت محبوبہ سے طوائف تک کا سفر جلد طے کر لیتی ہے لیکن طوائف سے بیوی تک کا سفر کبھی طے نہیں کر پاتی۔ ضروری نہیں کہ عورت طوائف کے پیشے سے منسلک ہو، جسم فروشی اس کا کاروبار ہو تبھی وہ طوائف کہلائے۔ اپنے محبوب کو اداؤں سے لبھانا، بنا کسی ”مضبوط بندھن“ کے اس پہ اپنا آپ نچھاور کر دینا بھی اسے طوائف کی کیٹگری میں لے آتا ہے۔ محبت کا یقین دلانے کے لئے اسے اپنا آپ پیش کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ہر عورت ہر جگہ صرف محبوب کی رضا کے لئے کرتی ہے۔

سچ پوچھیے تو عورت اسی وقت دو ٹکے کی ہو جاتی ہے جب وہ محبوب کے لئے پوری ایمانداری سے پہلی بے ایمانی کرتی ہے۔ محبوب کو اس وقت اس کے سامنے پچاس ملین ہی نہیں پچاس بلین بھی کم لگتے ہیں۔ لیکن پھر وہ پچاس پیسے کی بھی نہیں لگتی، دو ٹکے کی ہو جاتی ہے اور پھر عورت کے پاس کچھ نہیں رہتا نہ عزت نہ محبوب۔ محبوب کی جستجو ختم ہوگئی، وصل نصیب ہو جائے تو محبت گئی بھاڑ میں۔

کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس سارے عمل میں مرد بھی تو برابر کا شریک ہوتا ہے مرد محبوب بن کے بھی مرد رہتا ہے عورت محبوبہ بن کے بد کردار، فاحشہ بن جاتی ہے، مرد بھی تو اسی پگڈندی پہ چلتا ہے پھر پل صراط عورت کے حصے کیوں آتا ہے۔ سزا کے طورپہ عورت کو ساری عمر تنہا کر دیا جاتا ہے مرد کو مجرم جان کر اس سے فاصلہ کیوں نہیں رکھا جاتا۔ محبت کی لاج رکھنے والی دو ٹکے کی، محبت کے نام پر لوٹنے والا، شریک جرم ہونے والا مرد دو ٹکے کا کیوں نہیں؟

کیا وفا، عزت کی پاسداری صرف عورت سے منسوب ہے۔ عورت پوری زندگی میں کی جانے والی ایک محبت کرنے پر بھی گنہگار ہوتی ہے اور مرد سینہ ٹھونک کر دس محبتوں کا بھی اقرار کرے تو ہنس کر کہا جاتا ہے مرد جو ہوا، وہ نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ ذلت کا طوق صرف عورت کے حصے ہی کیوں؟ محبت کے نام پر بہکنے والی عورت مجرم ہے تو محبت کے نام پر ورغلانے والا مرد کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کیا جاتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).