اورنگزیب کو ’سدھا رس‘ اور ’رسنا ولاس‘ کا خیال کیسے آیا؟


بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایک سنسکرت کے ایک پروفیسر کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کی خبریں آئیں۔ کہا گیا کہ اس احتجاج کی وجہ اس پروفیسر کا مسلمان ہونا ہے۔

فیروز خان نے بچپن سے اپنے دادا غفور خان اور والد رمضان خان کی روایت پر چلتے ہوئے سنسکرت کا علم حاصل کیا۔ فیروز نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب ان کے دادا سنسکرت میں بھجن گایا کرتے تھے تو سینکڑوں کی بھیر جھومنے لگتی تھی۔

فیروز خان کے والد جے پور کے بگرو گاؤں کے گو شالا میں خطاب کیا کرتے تھے۔ فیروز نے جے پور کے سنسکرت انسٹی ٹیوٹ میں آنے سے پہلے اپنے گاؤں میں جس سنسکرت سکول میں تعلیم حاصل کی تھی وہ ایک مسجد کے ساتھ ہے اور اس میں آج بھی کئی مسلمان طلبہ پڑھتے ہیں۔ انڈیا کی خوبصورتی ایسی ہی مثالوں سے اجاگر ہوتی ہے۔

زبان ویسے بھی کسی مذہب یا فرقے سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ کئی زبانیں مخصوص فرقوں یا گروہوں کے ساتھ وابستہ ہو گئیں۔

اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مختلف فرقوں کی ترقی جس مخصوص علاقے میں ہوئی اور ان مذاہب کے مبلغوں یا قابل احترام افراد جس زبان کا استعمال کرتے تھے اسی زبان میں مذہبی صحیفے بھی لکھے گئے اور وہ زبانیں ان برادریوں کی ثقافتی شناخت کا اہم جز بن گئيں۔

کسی برادری یا فرقے کی زبان

اور شاید اسی لیے عربی-فارسی کو اسلام سے جوڑ کر دیکھنے کا رجحان رہا ہے۔ اسی طرح پالی اور پراکرت زبانیں بدھ مت اور جین مت کی پہچان بن گئیں اور گرمکھی میں لکھی جانے والی پنجابی سکھ برادری سے وابستہ سمجھی جانے لگی۔ لیکن الزام نہ تو ان زبانوں پر جاتا ہے اور نہ ہی ہمارے آباؤ اجداد پر۔

یہ قصور تو ان کے نام پر فرقے چلانے والوں اور بعد کی نسل کے پیروکاروں کا ہے جنھوں نے زبان کے ساتھ اسے سختی سے جوڑ دیا۔

جہاں تک ہندوستان میں زبانوں کے فروغ کا سوال ہے تو آج ہم جس ہندی یا ہندوستانی میں بات کرتے ہیں اس کی ابتدا جس کھڑی بولی سے ہوئی ہے اس میں سنسکرت کے ساتھ عربی-فارسی کا بھی بڑا تعاون رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں سے لیکر امیر خسرو، صوفی شعراء اور بھکتی دور کے سنت مہاتماؤں اور شاعروں نے بھی مذہبی بنیادوں پر اس تعصبات کو کبھی قبول نہیں کیا۔

کچھ مستثنیات ضرور ہوسکتی ہیں۔ لیکن عام طور پر سب نے کھل کر سب زبانیں سیکھیں اور اپنائیں۔ مذہبی صحیفوں کے ترجمے بھی ایک زبان سے دوسری زبان میں ہوئے۔

ہندی کے معروف شاعر رام دھاری سنگھ ‘دنکر’ نے اپنی مشہور کتاب ‘سنسکرتی کے چار ادھیائے’ یعنی تہذیب کے چار ابواب میں عربی زبان کے تاجک صحیفوں میں مذکور شلوک (اقوال زریں) کے کچھ دلچسپ نمونے پیش کیا ہے۔ ان میں عربی اور سنسکرت ایک ساتھ ملا کر لکھا گيا ہے۔ مثال کے طور پر- ‘سیدقبالہ، اشراف یوگہ، خلاسارم ردھ موتھودوپھالیہ، کتھم تدوتوتھوتھدیرناما’ وغیرہ۔ ہندوستان کے عظیم ماہر لسانیات ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے لکھا ہے کہ ’16 ویں صدی کے آخر تک تمام ہندوستانی مسلمان فارسی کو ایک غیر ملکی زبان کے طور پردیکھنے لگے تھے اور دیسی یا مقامی زبانوں کو پوری طرح قبول کر چکے تھے۔

اورنگزیب کا سنسکرت سے عشق

دنکر لکھتے ہیں کہ بول چال کے لحاظ سے بھی مسلم حکمرانوں کی سنسکرت کے الفاظ میں دلچسپی تھی کیوںکہ اس ملک میں سنسکرت الفاظ ہی زیادہ سمجھے جاتے تھے۔ اس کے تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک بار اورنگزیب کے بیٹے محمد اعظم شاہ نے انھیں کچھ آم بھیجے اور ان کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ چنانچہ اورنگ زیب نے اس کا نام ‘سدھارس’ اور ‘رسناولاس’ رکھا۔

غالبا امیر خسرو (1253 – 1325) کے زمانے سے ہی دونوں زبانوں کو ملا کر کھچڑی جیسے اشعار بنانے کا رجحان نظر آنے لگا تھا۔ انھوں نے کئی بار اپنی شعر کا ایک مصرعہ فارسی میں تو دوسرا برج بھاشا میں کہا اور کبھی ایک مصرے کا ایک حصہ فارسی میں تو دوسرا دیسی زبان میں کہا جیسے ان کا معروف شعر:

زحال مسکیں مکن تغافل، دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

لیکن جب رحیم (عبدالرحیم خانِ خاناں 1556 – 1627) اس قسم کی کھچڑی تحریر کرنے پر آئے تو انھوں نے کھڑی بولی کے ساتھ سنسکرت کو ملانا شروع کر دیا۔

رحیم کے ہندی دوہے بہت مشہور ہوئے لیکن وہ سنسکرت کے بہت بڑے عالم تھے۔ ہندوؤں کے بھگوان کرشن کی شان میں خالص سنسکرت اشعار تخلیق کرنے کے علاوہ انھوں نے سنسکرت میں ویدک عہد کے علم نجوم پر دو کتابیں تحریر کیں جن میں پہلی ‘کھیٹ کوتوکم’، اور دوسری ‘دوانترشدیوگاولی’ ہے۔

اس دور کی اس مخلوط زبان میں اٹھارہویں صدی کے شاعر اور نقیب بھکاری داس نے لکھا کہ برج زبان میں تو سب شعر کہہ لیتے ہیں لیکن جب سنسکرت اور فارسی ملتے ہیں اور مزا آتا ہے۔

لیکن طویل عرصے سے سنسکرت کے اسکالروں میں اس کی خالصیت اور برتری کو برقرار رکھنے کی فکر رہی ہے اور شاید اسی لیے اسے ایک خاص طبقے تک محدود رکھنے کی کوشش بھی رہی ہے۔

پہلے دلتوں (ہندو کے پسماندہ طبقے) اور پھر بعد میں مسلمانوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لہذا بڑے معاشرے سے اس کا رشتہ منقطع ہوگیا تھا اور بدلتے وقت کے ساتھ اس کا خاطر خواہ فروغ بھی نہیں ہو سکا۔

رویندرناتھ ٹیگور

اور شاید اسی لیے اپنے زمانے کے معروف سادھو شاعر کبیر نے کہا کہ ‘سنسکرت ٹھہرا ہوا کنویں کا پانی ہے جبکہ باکھا بہتا ہوا پانی ہے۔’

سنسکرت کے متعلق کبیر نے کیا کہا؟

تلسی داس جو سنسکرت کے بڑے سکالر تھے انھوں نے عربی اور فارسی الفاظ سے گریز نہیں کیا اور اسی لیے بھکاری داس نے تلسی اور کوی گنگ کی تعریف کرتے ہوئ لکھا کہ ان کی زمان میں مختلف زبان کی چاشنی ہے۔

ایک دوسرے مشہور شاعر رسکھان (اصل نام- سید ابراہیم خان) پٹھان تھے اور وہ صداقت کی راہ پر عمل کرنے والے ولبھ فرقے کے مبلغ ولبھاچاریہ کے بیٹے وٹھل ناتھ کے شاگرد تھے۔

رسکھان کی بھگوان کرشن سے عقیدت مشہور ہے اور انھوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل وقت متھرا اور ورنداون میں گزارا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سنسکرت کے اسکالر تھے اور انھوں نے بھاگوت گیتا کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسکھان جیسے مسلمان عقیدت مندوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندی کے معروف شاعر بھارتیندو ہریش چندر نے کہا تھا کہ ‘ان مسلم ہریجنوں پر اعلی ذات کے ہندوؤں کو وار دیجے’۔

نذر الاسلام اور ہندو بھگوان

آج ہندی بولنے والے بنگلہ زبان میں رابندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور) کے نام کے بعد جس نام سے سب سے زیادہ واقف ہیں وہ بلاشبہ قاضی نذرالاسلام ہیں۔ ممتاز ناقد رام ولاس شرما نے لکھا ہے کہ نذر الاسلام نے اپنے ادبی کام میں کہیں بھی اپنی مسلم ہونے سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے لیکن انھوں نے تمام ہندوؤں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی مذہبی کہانیوں سے علامتوں کا انتخاب کیا اور سب سے زیادہ ہندو کہانیوں سے۔

انڈیا کے فادر آف نیشن کہلانے والے مہاتما گاندھی نے بھی ہندوستان میں دلتوں اور مسلمانوں کے سنسکرت پڑھنے اور پڑھانے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ 20 مارچ سنہ 1927 کو ہری دوار میں گروکول کانگری میں قومی کونسل برائے تعلیم کے اپنے صدارتی خطاب میں گاندھی جی نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ سنسکرت پڑھنا نہ صرف ہندوستان کے ہندوؤں بلکہ مسلمانوں کا بھی فرض ہے۔ سات ستمبر سنہ 1927 میں انھوں نے مدراس کے پاچایپا کالج میں اپنے خطاب میں یہی بات دہرائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp