#StudentsSolidarityMarch: کیا حکام نوجوان نسل کی تحریک سے خوفزدہ ہیں؟


دنیا کے جمہوری ملکوں میں سٹوڈنٹ یونین کو سیاست کی نرسری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جہاں ایک پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور خدشات کا کھل کر اظہار کرنا تعلیمی اداروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ عمل رکا ہوا ہے۔

ستر کی دہائی میں جب جنرل ضیا الحق نے ان طلبا یونینز پر پابندی عائد کی تو ان نرسریوں میں نئی سیاسی قیادت کے بیج ڈلنا بند ہو گئے اور جب ایسا اقدام ہو جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں نئی قیادت اور پڑھے لکھے سیاستدان کہاں سے آئیں گے؟ موروثی سیاست کا خاتمہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟

جہاں نرسریاں بند ہوں وہاں جنگل تو اگا کرتے ہیں باغ نہیں لگتے اور طلبہ یونینز کے حامی ان پابندیوں کو کچھ اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی سوچ کے تناظر میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی طلبہ تنظیموں نے یونینز پر پابندی کے خاتمے اور طلبہ سیاست کے لیے جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔

اس سلسلے میں پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ان کے ساتھ شامل دیگر طلبا تنظیموں نے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں 29 نومبر کو طلبہ یکجہتی مارچ کا اعلان کیا ہے۔

جب ان طلبا سے پوچھا گیا کہ اس یکجہتی مارچ سے وہ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنی سوچ میں واضح نظر آئے۔

مزید پڑھیے

’شکل اور حلیے پر نہ جائیں، ہمارا کوئی مقصد بھی ہے‘

طلبہ تنظیمیں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری؟

قائداعظم یونیورسٹی میں پھر احتجاج، 60 سے زائد طلبہ گرفتار

لاہور سے تعلق رکھنے والی طلبا تنظیم کی سرکردہ کارکن مہیبا احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاست کرنے کا حق دوبارہ حاصل چاہتے ہیں۔ ’ہم جمہوریت کو صحیح معنوں میں آگے لانا چاہتے ہیں۔ اس وقت جمہوریت اور سیاست صرف ایک طبقے تک محدود نظر آتی ہے اور ہم اسے اس طبقے سے چھین کر عوام تک لانا چاہتے ہیں۔‘

مہیبا احمد کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان جو خلا اور رابطوں کا فقدان پیدا ہو چکا ہے، اسے دور کرنے کے لیے طلبہ کو خود ہی میدانِ عمل میں اترنا پڑے گا۔

طالب علم آمنہ وحید کا بھی ماننا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق سٹوڈنٹ یونینز اور ایسوسی ایشنز قائم کرنا ان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔

’بطور طالب علم ہم تقریباً 60 فیصد پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی ہی نمائندگی کسی فورم پر نہیں ہے۔‘

آمنہ وحید نے سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی تعلیمی ادارے کے سربراہ سے لے کر نیچے تک سیاست چلتی ہے، سٹوڈنٹ لاز میں سیاست ہے تو جب طلبا اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہاں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ آخر سیاست کوئی گالی تو نہیں۔‘

https://twitter.com/HRCP87/status/1199656661432119298

طلبا کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کیوں؟

لیکن طلبا کے لیے اپنے حقوق کی بات کرنا آسان نہیں۔ اسی ہفتے بلوچستان کے گورنر آفس سے بلوچستان یونیورسٹی کے لیے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں درج ہے کہ ’بلوچستان یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔‘

بلوچستان کے گورنر آفس سے جب بی بی سی نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مراسلا بھیج دیا ہے، تفصیل یونیوورسٹی ہی بتا سکتی ہے۔‘

https://twitter.com/AmmarRashidT/status/1199572754405691392

جواب میں بلوچستان یونیورسٹی کے رجسٹرار نے بتایا کہ ’یونیورسٹی آف بلوچستان سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کی تحریک سے خوفزدہ نہیں، لیکن ان یونینز کی آّڑ میں ادارے سے باہر کام کرنے والی سیاسی تنظیمیں جو در اندازی شروع کرتی ہیں وہ تعلیمی اداروں کے لیے تقصان دہ ہیں، جن کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں پر پابندح عائد کی گئ ہے۔‘

دوسری جانب حسنین جمیل فریدی، جو اس طلبا تحریک میں پیش پیش ہیں، ان کی پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کینسل ہونے کی اطلاعات بھی منظر عام پر آئی ہیں۔

https://twitter.com/Rabail26/status/1199639010496221184

بی بی سی نے جب حسنین جمیل سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ مارچ 2019 میں انھوں طلبا کے لیے بسوں کی حصول کے لیے ایک مارچ کیا تھا جس میں ایک دوسری تنظیم نے ان پر حملہ کیا۔

اتنظامیہ نے انھیں پکڑنے کے بجائے ریلی نکالنے والوں سے تحریری وضاحت طلب کر لی۔ ’کئی ماہ گزر گئے یونیورسٹی نے اس معاملے پر کوئی بات آگے نہں بڑھائی تھی، لیکن اب جب ہم نے سٹوڈنٹ مارچ کی تحریک تیز کی تو میری ایم فل کی ڈگری اس کیس کو بنیاد بنا کر کینسل کر دی گئی، پر ہم رکنے والے نہیں۔‘

https://twitter.com/ammaralijan/status/1199753129375477763

حکام نوجوان نسل کی تحریک سے خوف کیوں؟

معلم اور سماجی کارکن عمار علی جان کا ماننا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد در حقیقت مزاحمتی سیاست کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔

’تعلیمی ادراوں کی خواہش ہے کہ وہ نظام کو آمرانہ انداز میں چلاتے رہیں اور ان کا کسی بھی معاملے پر احتساب نا ہو، ملک میں جمہوریت تب تک پنپ نہیں سکتی جب تک تدریسی اداروں میں آزاد انسان نہیں پیدا ہوتے، اور ان میں جمہوریت نہیں ہوتی۔‘

عمار جان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کے اندر سنگین نوعیت کے معاملات پیدا ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے دنیا تو دور کی بات اس خطے میں ہماری یونیورسٹیوں کی کوئی رینکنگ نہیں رہی۔

لیکن اگر ذرا سا ماضی میں جھانکیں اور اس دور کی جانب بڑھیں جب سٹوڈنٹ یونینز بحال تھیں، تو صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔

سینیئر صحافی راشد رحمان نے گزرے وقت کو ٹٹولتے ہوئے بتایا کہ اس وقت اختلاف رائے ضرور تھا لیکن آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں تھی۔ ’یہ کوشش جب شروع ہو جائے کہ دماغوں کو ڈبوں میں بند کر دیا جائے، نا سوال ہو، نا جواب آئے، تو اس سے تقصان معاشرے کا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ ہمارا حال بیان کر رہا ہے۔‘

سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی تو جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور میں لگی، لیکن اس کے بعد آنے والی سولین حکومتیں بھی انہیں دعوؤں کے باوجود بحال نا کر پائیں۔

راشد رحمان کے مطابق مارشل لا کے اس آرڈننس کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا، لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ صرف سویلین حکومتوں کی کم ہمتی تھی۔

سینیئر صحافی راشد رحمان کا کہنا تھا کہ سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کے اس کلچر سے ٹرین ہو کر نکلنے والے طلبا جو آگے چل کر ملکی سیاست کا حصہ بنتے تھے، وہ ختم ہو گئے۔

اپنے حق کی بات کرنے والے طالبات کے مطابق تعلیمی اداروں کی انتظامیہ تعلیمی اداروں کو درسگاہوں کے بجائے انتظامی اداروں کے طور پر چلانا چاہتی ہیں جہاں انہوں نے اپنی ایک عملداری قائم کر رکھی ہے۔

اس لیے طلبہ یونینز اور تنظیموں کے خلاف ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ اگر طلبہ کو سیاست کا حق دیا گیا تو پھر ان کی اتھارٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہی خوف کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں نیا خون شامل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp