کیسوبا کے کارونجھر کا سرمایہ دار کمپنیوں سے سودا کس نے کیا؟


کارونجھر کو پہلی نظر میں دیکھتے ہی سرائیکی زباں کے لیجنڈ شاعر رفعت عباس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ ”یہ پہاڑ تو نہیں ہے یہ تو کوئی تہذیب ہے جو پتھرا گئی ہے ہر پتھر ایک حسیں مورت کی طرح ہے“ واقع میں کارونجھر عام پہاڑوں سے مختلف اور دنیا کے حسیں پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس کا ہر پتھر کھلتے گلاب کی مانند ہے۔ یہ پہاڑ دیکھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔ کارونجھر ہر دیکھنے والے کے دل میں پہلی نظر میں ہی کسی خو بصورت دھن کی طرح بجنے لگتا ہے۔

اور اس کو دیکھنے والے حیرتوں اور اسراروں کے جہاں میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ پہاڑ انگریز کے خلاف لڑنے والے جنگ آزادی کے ہیرو روپلو کولہی کا مورچہ رہا ہے۔ جس کو وطن کی آزادی کے لئے لڑنے کے جرم میں انگریز سرکار نے اگست 1858 میں اسی کارونجھر کے دامن میں گوڑدرو ندی کے کنارے پھانسی چڑھایا تھا۔ یہاں کے مقامی آدمی انگریز عملدار تروٹ سے آخر دم تک اپنے ملک کی آزادی کے لئے لڑتے رہے۔ ان کی وہ لڑائی تاریخ کے کتابوں میں ان کے مہکتے لہو سے لکھی ہوئی ہے۔ یہ پہاڑ اس لڑائی میں ان کا محافظ اور مورچہ بنا رہا۔

اس پہاڑ کے آس پاس جین مت کے بہت سارے مندر ہیں جو فن تعمیر کے خوبصورت شاہکار ہیں۔ کہتے ہیں کہ جین مت کا ایک روحانی پیشوا کارونجھر کے دامن میں آباد فطرت کی خواب گاہ جیسے شہر ننگرپارکر سے تعلق تھا۔ جین مت کے ماننے والے سنہ 1971 تک ننگرپارکر میں رہتے تھے۔ کارونجھر کی پرسکون غاریں ان کا میڈیٹیشن سینٹر تھیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد وہ چلے گئے۔ یہ لوگ انسان دوست تو تھے ہی لیکن یہ دوسری مخلوق یعنی جیتوں، جانوروں اور پرندوں کے بھی محافظ تھے۔

تب کارونجھر اور پارکر چرند پرند کا محفوظ وطن تھا اور عالمی شکارگاہ نہیں بنا تھا۔ یہاں کی جنگلی جیوت مقامی پرندوں اور مہمان پرندوں کے شکار کی عام اجازت ان کے بعد ہوئی ہے۔ جین مت کے ماننے والے اپنا رات کا کھانا بھی دن کی روشنی میں پکا لیتے تھے اس لئے کہ رات کو آگ کی روشنی پہ آنے والے جیوت آگ میں جل کے مرجاتے ہیں۔ یہ ان کی نظر میں فطرت کے خلاف تھا۔ یہ لوگ جیتوں، پرندوں اور جانوروں کا انسانوں جتنا ہی خیال اور احترام کرتے تھے۔

کارونجھر کے آس پاس کے مندروں کے علاواہ کارونجھر سے 50 کلومیٹر دور ان کا ایک بہت بڑا مندر ہے۔ جس کو ”گوڑی مندر“ کے نام سے جانا جاتا ہے مٹھی سے ننگرپارکر جاتے ہوئی راستے میں پڑتا ہے جو اپنی ہیئت سے لگتا ہے کہ اس زمانے میں بڑی یونیورسٹی یا بہت بڑے میڈیٹیشن سینٹر کا درجہ رکھتا ہوگا۔ جین مت والوں کے جانے کے بعد بابری مسجد کے واقعہ کو بنیاد بنا کر کارونجھر کے آسپاس موجود ان کے خوبصورت مندروں کو ایمان کے جذبے سے لبریز لوگوں نے نقصان پہنچایا اور ابہی تک ان کی مرمت نہیں ہوئی۔ ابھی کچھ مندروں کی بینولٹ فنڈ والے مرمت کر رہے ہیں۔

1971 کسی زمانے میں کارونجھر کے بالکل دامن میں بھوڈیسر جاگیر کیسوبا نام کے مشہور راجپوت کی تھی۔ جس کی بہادری اور حسن کے چرچے اب بھی لوگوں میں عام ہیں تب بھی عام تھے۔ 1971 کی جنگ کے نتیجے میں ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والی بہت بڑی آبادی بھی سرحد پار ہجرت کر کے چلے گئی۔ ان میں کیسوبا کی بیوی اور اس کی اکلوتی بیٹی بھی شامل تھیں۔ لیکن کیسوبا نہیں گیا۔ وہاں سے اس کے سسرال والوں نے انڈیا کے علاقے باکاسر سے تعلق رکھنے والے اس زمانے کے ہند اور سندھ کے بدنام زمانہ اور دہشت کی علامت بنے ہوئے ڈاکو بلونت سنگھ ٹھاکر کو بھیجا کہ کیسوبا کو لے کر آؤ۔

اس زمانے میں ہندستان اور پاکستان کی سرحد پر باڑ نہیں لگی تھی۔ لوگوں کا آناجانا عام تھا۔ یہ بہت عرصہ بعد میں لگی۔ بلونت سنگھ جب ننگرپارکر تھرپارکر کے علاقے پورن واہ میں کیسوبا کے گھر پر آیا اور اسے سمجھایا بجھایا کہ یہ ملک اب اپنا نہیں رہا۔ اب آپ یہاں اس طاقت اور عزت کے ساتھ نہیں رہ پاؤ گے۔ جس طرح اب تک رہتے آئے ہو۔ کیسوبا نے کہا میرے ساتھ مسئلہ طاقت اور اقتدار نہیں میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کارونجھر کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہاں کے مشہور شاعر چندیرام بھاٹ کا مقامی پارکری زباں میں ایک دوھا ہے جو مقامی لوگوں میں کارونجھر کی محبت اور حسن کو بیان کرتا ہے۔

کارونجھر نیں کور، مریئی تو میلھیئی نہیں

ماتھے ٹھوکے مور ’ڈونگر لاگے ڈیپتو

(کارونجھر کا دامن ( کنارا ) مر کے بھی نہیں چھوڑنا۔ جب کارونجھر کے اوپر مور بولتا ہے تو یہ جبل اور خوبصورت بن جاتا)

کیسوبا نے بلونت سنگھ کو کہا اگر آپ مجھے ساتھ لے جانا چاھتے ہیں تو کارونجھر کو ساتھ کے چلو ورنہ میں آپ کے ساتھ نہیں چلوں گا۔ یہ بات ایک وطن دوست اور فطرت پسند کو تو سمجھ آ سکتی ہے لیکن ایک ڈاکو کو نہیں آ سکتی۔ بلونت سنگھ نے کیسوبا کے ساتھ زبردستی کی کوشش کی اسے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی تو کیسوبا نے اس کے ہتہیاروں کی دہشت میں آنے کے بجاءِ اپنی لاٹھی اٹھائی اور بولا تو مجھے ڈرا رہا ہے۔ تجھے پتا نہیں میرے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنسے ہوئے ہیں جن کو کوئی دھمکی کوئی ہتھیار نہیں اکھاڑ سکتا۔ کیسوبا نے اپنی بیوی اور بیٹی کی جدائی برداشت کی لیکن کارونجھر کا دامن نہیں چہوڑا اسی صدمے میں اس کی بیٹی نے وہاں خودکشی کر لی۔

کیسوبا کے بعد اس کے بیٹے کو یہاں رہنے کے لئے مسلمان ہونا پڑا لیکن اس نے بھی مذہب پر وطن کو ترجیح دی۔ اپنے باپ کا رکھا ہوا نام بدلایا اور بابو شیخ کے نئے نام سے مسمان ہو کر کارونجھر کی سائے میں جیتا رہا اب وہی سایہ کارونجھر سے محبت کرنے والے ایسے ہزاروں باشندوں سے سرمایہ دار کمپنیاں چھین رہی ہیں۔ انھوں نے کارونجھر لیز پر لے لیا ہے اور یہی بات کیسوبا کے پوتے بادشاہ شیخ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ جس کے لئے ہمارے آباواجداد نے اپنے رشتے اور مذہب چھوڑ دیے وہ پہاڑ سرکار نے کیسے سرمائے داروں کو لیز پر دے دیا ہے۔

اگر یہ پہاڑ نہیں رہا تو اس میں رہنے والے جیت، جانور، پرندے، جہنگلی جیوت اور انسان کیسے گزارا کریں گے۔ یہی پہاڑ ہمارا اَن داتا ہے یہی پہاڑ ہماری پیاس بجھاتا ہے۔ یہ پہاڑ رینگنے والے اور چلنے والے لاتعداد جانوروں کا وطن ہے۔ مقامی اور ہجرت کرکے آنے والوں پرندوں کا بہی یہی کارونجھر مسکن ہے۔ تیزی سے ختم ہونے والے پرندے گدہ کے انڈہ دینے کی جگہ بہی کارونجھر پہاڑ ہی ہے۔ اس جبل سے منسلک چوڑیو، کاسبو، ران پور، ڈینسی اور کارسر سمیت دوسری جابلو ٹکریاں مقامی لوگوں اور ان کے مال مویشی اور جہنگلی جیوت کے لئے چراگاہ ہیں اور میٹھے پانی کا واحد وسیلہ ہیں۔

جب کارونجھر اور اس سے منسلک جابلو ٹکریوں کو گرینائٹ حاصل کرنے کے چکر میں کاٹا جائے گا تو سب سے پہلے ان پہاڑیوں میں بسنے والی جہنگلی جیوت متاثر ہوگی، اور اس کے بعد انسانی آبادی کے لئے بھی پینے کے میٹھے پانی کا مسئلہ ہوگا جو گذشتہ سال بھی ہوا تھا اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی سرکار ننگرپارکر شہر تک بھی میٹھا پانی نہیں پہنچ سکی تھی۔ دیہات تو دور رہے۔ گرینائٹ کی لیزوں کے علاوہ برساتوں میں کارونجھر سے اترنے والے پانی کو اسٹور کرنے کے لئے بنائے جانے والے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لئے بھی کارونجھر سے ہی پتھر اٹھایا جا رہا ہے۔

جس طرح پتھر حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس طرح پتھر حاصل کرنے سے کارونجھر کا قدرتی حسن جو اسے دوسرے پہاڑوں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ مقامیِ باشندوں کا مطالبہ ہے کہ ان ڈیمز اور کوئلہ نکالنے والی کمپنیوں کو کارونجھر سے پتھر چوری کرنے سے روکا جائے۔ اور کارونجھر کو نیشنل پارک کا درجہ دے کر اس میں موجود جنگلی جیوت، درختوں، پودوں، جانوروں، پرندوں سمیت تمام چرند پرند کو تحفظ دیا جائے۔ 2015 میں اس پہاڑ کو نیشنل پارک کا درجہ دینے کا اس وقت کی حکومت نے اعلان کرتے ہوئے، 50 کروڑ خرچ کا تخمینہ لگایا تھا اور اسی سال کی بجٹ میں کارونجھر نیشنل پارک کے لئے 5 کروڑ روپے بھی رکھے تھے۔ پھر پتا نہیں کس مصلحت کی بنا پر اس اعلان پر عمل نہیں کیا گیا۔

کارونجھر سندھ کے لوگوں کے لئے ایک پہاڑ سے زیادہ ان کے لئے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہے جس سے یہ عقیدت جیسا پیار کرتے ہیں۔ اس وقت بہی کارونجھر کو ہرابھرا رکھنے والے درخت کونبھٹ کو کاٹا جارہا ہے اور گگرال کے نایاب درخت سے کیمیکل لگا کے اس کا رس نکالا جا رہا ہے۔ کیمیکل کے ذریعے رس نکالنے سے یہ درخت جڑ سے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ کئی سالوں سے جاری اس عمل کو نہ روکا گیا تو یہ درخت بالکل ہی ختم ہو جائے گا.

بلئے تجھ میں بَل ہی کیسا

تیرے پاس اجل کی باتیں

تو ہے لُٹیرا لوٹتے ہو

تیرے پاس ہیں سونے پیتل کی باتیں

مَنُش میں کیسے مٹی مہکے

تو کیا سمجھے

تو کیا جانے

ساتھ مجھے چاہتے ہو لینا

کارونجھر کو کاٹ کے لے لو

سارا دیس بھی ساتھ میں لے لو

جس میں

تپتے دوپہروں کو اکثر

”موکھئے والا رَن“ گرجے

”کجلا سَر“ پر ریکھ کجل کی

”بھوڈیسر“ کا بھروسا سوجھے

ناریل کا درخت نشانی

”سارنگا“ کا گھر بھی سوجھے

”ابھے سنگھ“ کا افیم بھی تازہ

جام خان کے ”اوتارے“ میں میرے لئے

چائے گھونٹ بھی تازہ ہے

”کولھی“ ”اُٹھ کپاریو“ کے اور

ایک حسینی چانڈیو ہے

ذات پات کا فرق نہیں ہے

دھرتی دین دھرم ہے

”صابوسن“ کی پنھاریوں کی

بس اک چھیل چھبیلی ٹولی

ساون سی بھرپور لگے

ہنستے مور کی ”ٹَور“ لگے

دل پہ کنندہ ”پَور“ لگے

کارونجھر کا حسن جوانی

”کولھی“ جیسے کھینچے ”کاتر“

”گھرٹیاری“ کے گھاٹ کے اوپر

”ناتر“ کا ”ٹکساٹ“ نہیں ہے

بن بارش کے دھرتی سوکھی

ہل کی کوئی جاٹ نہیں ہے

پھر بھی میرا دیس کبھی بھی

پردیسوں میں بھیک نہ مانگے

پریت سنبھالے کنکر کھائے

مور کبھی نہ ناتہ توڑے

یہی نظارے اور ہر منظر

دل پر

بوجھ کے جیسے کھڑا رہے گا

ساتھ اگر میں چلوں گا تیرے

میرا دیس اکیلا ہوگا

تیرے پاس ”کھتی کا کھیس“ نہیں ہے

”ٹونئر“ ٹِکوں ”کا بھیس نہیں ہے

اور ہاں

تیرے پاس تو دیس نہیں ہے

مَنُش میں کیسے مٹی مہکے

تو کیا سمجھے

تو کیا جانے۔

(خلیل کنبھار

سندھی سے ترجمہ علی آکاش)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).