سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع دے دی گئی


سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع دے دی۔ عدالت نے حکومت کو 6 میں قانون سازی کرنے کا حکم دے دیا۔

 چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے آغاز پر سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات 15 منٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا، جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا تو پنشن بھی نہیں مل سکتی۔

وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کر دی، کیا آرمی چیف کا عہدہ آج خالی ہے، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے، آپ ادھر ادھر گھومتے رہے ہم نے کسی کو ایڈوائس نہیں کرنا، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا مطمئن کرنا ہوگا اب ہونیوالی تعیناتی درست کیسے ہے ؟ اس عہدے کو پُر کرنا ہے تو ضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جو سمری پیش کی گئی اس میں تنخواہ اور مراعات کا ذکر نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا سمری میں اگر خلا رہ گیا ہے تو اسے بہتر کریں گے، بھارتی میڈیا نے سارے معاملے کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، تین سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو، کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا، ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، ہمارا حق ہے کہ سوال پوچھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا واضح ہونا چاہیے جنرل کو پنشن ملتی ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی خان کل آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا یہ بھی طے کر لیا جائے آئندہ توسیع ہو گی یا نئی تعیناتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کام آئین کے مطابق ہو تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید نے کہا آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، 3 سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانونی نہیں، عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا مدت کا ذکر نہ ہو تو حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے۔

 اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویز کے، قانون بنانے کے لئے ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کر قانون بنا کرآئیں، جو قانون 72 سال میں نہیں بن سکا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیفس میں سے ایک کو توسیع ملی دو کو نہیں، اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے، آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کیلئے تعینات کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرمی چیف سے متعلق الگ قانون بنایا جائے گا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہوگیا۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے، ہمارے پاس ریاض راہی آئے، ہم نے جانے نہیں دیا، لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے، ہمیں جانا نہ پڑے، عدالت کے دروازے کھلے ہیں، کوئی آئے تو سہی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا قوانین 3 ماہ میں تیار کرلیں گے ؟ 3 ماہ میں قوانین تیار ہوگئے تو پھر آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی، کیا آپ کی بات پر لکھ دیں کہ 3 ماہ میں قوانین بنا دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا فیصلےمیں مدت کا تعین نہ لکھیں، وہ کام ہم کرلیں گے، قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔

دوران سماعت جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کہیں نہیں لکھا جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کیلئے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیئے، جنرل (ر) راحیل شریف کو تو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں، ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں، آئین و قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے۔
بشکریہ دنیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).