دائیں اور بائیں بازو کی سیاست


اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے۔ مگر اختلاف طریقہ کار اور نظریات کا ہے جس کی وجہ طلبہ تنظیمیں عدم اتحاد کا شکار ہیں۔ طلبہ یونین پر پابندی کا ایک تاریخی پس منظر ہے جسے یہاں زیر بحث لایا گیا تو تحریر طویل ہوجائے گی۔ اصل مدعا طلبہ یونین کی بحالی کے نعروں میں چھپی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ہے جسے زیر بحث لانا ہے۔ سب سے پہلا اور بنیادی سوال تو یہ ہے کہ جب طلبہ یونین کی بحالی پر سب کا اتفاق ہے پھر طلبہ تنظیموں میں اختلافات کیوں ہیں؟

یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر بات کرنا مقصود ہے۔ اس سوال کے جواب کے متعلق بحث کرنے سے پہلے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو مختصر سمجھنا اشد ضروری ہے۔ دائیں بازو کی اصل پہچان روایتی سوچ اور رسم و رواج کو لے کر چلنا ہے۔ جو کچھ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے اسی سوچ کو لے کر چلنا دائیں بازو کی سوچ کہلاتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کی سوچ ہے جو گزر چکا وہ گزر چکا۔ گذشتہ کل کی آج میں بات کرنا فضول ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ صرف آج اور آنے والے کل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

آج کو کیسے بہتر بنانا ہے اور آنے والے کل کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ صرف ایسی سوچ کو لے کر چلنا چاہیے جو ترقی پسندانہ سوچ ہے۔ اور جو سوچ یا نظریہ ترقی یا ترقی پسند سوچ کی راہ میں رکاوٹ بنے وہ بائیں بازو کی سوچ کہلائے گی۔ اسی وجہ سے وہ ہر اس پابندی کو جس میں رسم و رواج کی پابندی، پرانی روایات اور مذہب کی پابندی ہو سب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والی سوچ سمجھتے ہوئے دائیں بازو کی لسٹ میں شامل کرتے ہیں۔

بائیں بازو والے ایسی سوچ کو یکسر نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی سوچ کا اصل مرکز تو سیاسی جماعتیں ہیں مگر چونکہ سیاسی سوچ جامعات میں ہی پروان چڑھتی ہے اس لئے جامعات سے ہی دائیں اور بائیں بازو کی سوچ پر سیاست کی جاتی ہے۔ پہلے طلبہ یونین کا پلیٹ فارم مہیا تھا جس پر طلباء اپنی سوچ کو سیاسی انداز میں آگے لے کر چلتے تھے۔ مگر جب سے طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی ہے تب سے جامعات میں وہ سیاسی و تنظیمی سرگرمیاں نہیں ہورہیں جن کا تذکرہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ گو کہ اب بھی جامعات میں بہت سی طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ کچھ طلبہ تنظیمیں لسانی و علاقی بنیادوں پر قائم ہیں۔ کچھ تنظیمیں سیاسی جماعتوں کا طلبہ ونگ ہیں۔ اور کچھ خود کو صرف طلبہ کی پہچان یا طلبہ کے مسائل حل کرنے کی نمائندہ تنظیمیں کہتی ہیں اور خود کو غیرسیاسی تنظیمیں کہلوانا پسند کرتی ہیں۔

مگر آج کل طلبہ یونین کی بحالی ہر سطح پر زیربحث ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے اٹھنے والی آوازوں کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی حرکت میں آ چکی ہیں۔ اگر مسئلہ صرف طلبہ یونین کی بحالی کا ہوتا تو اب تک یہ مسئلہ کب کا حل ہوچکا۔ مگر یہ صرف یونین کا مسئلہ نہیں بہت بڑا سیاسی کھیل بھی ہے۔ کچھ دن پہلے طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں کچھ نوجوانوں نے نعرے بازی کی جس میں ”لال لال لہرائے گا“، ”ایشا لال ہوگا“ کے نعروں کی گونج سننے کو ملی۔

یہ وہ طلبہ ہیں جو تمام طلبہ تنظیموں سے اتحاد کے خواہاں ہیں سوائے اسلامی جمعیت طلبہ اور انجمن طلبہ اسلام کے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے جمعیت بھی اس بات پر کسی حد تک متفق ہے کہ طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے۔ مگر جہاں تک بات انجمن طلبہ اسلام کی ہے تو انجمن طلبہ اسلام نے گذشتہ برس احتجاج بھی کیا تھا کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔ اگر تمام طلبہ تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ یونین کی بحالی ہونی چاہیے پھر طلبہ تنظیموں میں اتنا شدید اختلاف کیوں ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جسے سمجھنا اشد ضروری ہے۔ لاہور میں چند طلباء نے سرخ ہوگا سرخ ہوگا ایشیا سرخ ہوگا کے نعرے لگائے اور اپنے نعروں کو طلبہ یونین کی بحالی کے لئے احتجاج قرار دیا۔ دراصل وہ بائیں بازو کی سوچ کے حامل طلبہ تھے۔

یہاں ایک کنفیوزن ہے وہ یہ کہ کچھ لوگ صرف اسلامی سوچ کو دائیں بازو کی سیاست قرار دیتے ہیں اور جو سیکولر یا لبرل سوچ کے حامل لوگ یا جماعتیں ہیں وہ بائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی ہیں۔ مگر حقیقت کچھ مختلف ہے۔ ایسا ہرگز بھی نہیں کہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا تعلق صرف اسلامی اور سیکولر سیاست سے ہے۔ بلکہ ہر وہ جماعت بائیں بازو کی جماعت کہلاتی ہے جو پرانی روایات اور رسم و رواج کے مخالف ہے جس کا منشور صرف ترقی پسند ہونا ہے۔

ایسی جماعتوں کی نظر میں ہر وہ جماعت دائیں بازو کی جماعت کہلائی گی جو اپنی روایات یا رسم و رواج کو لے کر چلنا چاہتی ہیں۔ بائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد مذہب کو بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ مذہبی جماعتوں کو بھی دائیں بازو کی جماعتیں سمجھتی ہیں۔ پھر مذہب میں تمام مذاہب آتے ہیں چاہے وہ دین اسلام ہو یا عیسائیت ہو، یہودیت ہو یا ہندوں مذہب ان کی نظر میں سب دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ بائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی نظر میں دائیں بازو کی سوچ ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ دائیں بازو کی جماعتیں ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بات بھی کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں اخلاقیات کے فقدان کو وہ سیاست کا بہت بڑا مسئلہ سمجھتی ہیں۔

طلبہ یونین کی بحالی فقط یونین کا مسئلہ ہوتا تو تمام طلبہ تنظیمیں متحد ہوکر جدوجہد کرتیں۔ مگر اصل مسئلہ طلبہ یونین کی بحالی نہیں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ہے۔ جب دائیں بازو کے لوگ طلبہ یونین کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو بائیں بازو والے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور جب بائیں بازو والے طلبہ یونین کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو دائیں بازو والے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لاہور یونیورسٹی میں عرصہ دراز سے یہی مسئلہ چلتا آرہا ہے۔

جمعیت کی کوشش ہے کہ بائیں بازو والے اخلاقیات سے گری حرکتیں کرتے ہیں اس لئے انتظامیہ ایسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے۔ گو کہ ان کے الزامات میں آدھا سچ اور آدھا محض الزام ہی ہے۔ جبکہ بائیں بازو والے کوشش کر رہے ہیں کہ جمعیت نے لاہور یونیورسٹی میں اپنی چوہدراہٹ قائم کر رکھی ہے جسے ختم کرنا چاہیے۔ بائیں بازو والوں نے اس کا واحد حل طلبہ یونین کی بحالی سمجھ رکھا ہے۔ جہان تک جمعیت کی بات ہے تو جمعیت بھی طلبہ یونین کی بحالی میں اس طرح مضبوط موقف نہیں رکھتی جس طرح بائیں بازو والے طلبہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی طلبہ تنظیموں کو تقویت مل رہی ہے۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں احتجاج کے نت نئے انداز اور حربے استعمال کرکے نئے آنے والے طلبہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔

ایسی صورتحال میں طلبہ یونین بحال ہوگی یا نہیں مگر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ضرور سرگرم رہے گی۔ اس سب کے باوجود طلبہ یونین کی پابندی کی وجہ سے سیاست میں نئے سیاسی رہنماؤں کا بہت بڑا فقدان آچکا ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے قومی سیاست کے میدان میں منجھے اور سلجھے ہوئے سیاستدانوں کا شدید فقدان آ چکا ہے۔ طلبہ یونین سیاست سیکھنے کا بہترین پلیٹ فارم تھا جس میں ایک کچے ذہن کے طالب علم کو سیاست سیکھنے کا موقع ملتا تھا یہی وجہ تھی کہ یونین کا حصہ بننے والے طلباء یونین میں رہ کر بہت کچھ سیکھ جایا کرتے تھے۔

اور قومی سیاست میں آکر اپنا بہترین کردار ادا کرتے تھے۔ آج کل سیاسی حلقوں میں جو بدتمیزی کا طوفان برپا ہے اس کی بھی ایک وجہ طلبہ یونین پر پابندی ہی ہے۔ آخر میں تمام طلبہ تنظیموں سے یہی گزارش ہے کہ یونین کی بحالی کو دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کھیلنے کے بجائے تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کا بنیادی مسئلہ سمجھ کر آواز اٹھانی چاہیے۔ جس کے لئے جمعیت اور تمام طلبہ تنظیموں کو ایک موقف اپنا کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ جب طلبہ یونین بحال ہوجائے پھر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کھیلتے رہنا۔ ابھی تک پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں تو کیسے سیاست کھیلی جاسکتی ہے۔ امید ہے تمام طلبہ تنظیمیں اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہوکر طلبہ یونین کی بحالی کے لئے آواز اٹھائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).