کیا سازشی تھیوری واقعی حقیقت کاروپ دھار رہی ہے؟


مملکت خداداد پاکستان میں ایسے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں کہ جن کا باقی دنیا میں تصور بھی محال ہے۔ انہی واقعات میں سے ایک واقعہ کرتارپور راہداری کا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوکہ ملک کے ایک حصے میں تو اپنے دشمن کے ساتھ جنگی ماحول میں رہتے ہوئے آئے دن جھڑپوں میں مصروف ہوں جبکہ دوسری طرف اسی دشمن کے ایک صوبے کے لوگوں کے ساتھ خاص محبت کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو دائمی بنیادوں پر کھول رہے ہوں۔ یعنی ایک طر ف پاکستان کی شہ رگ کہلایا جانے والا خطہء مقبوضہ کشمیر اور اس کے لوگ دشمن کی طرف سے 100 دن سے زائد غیرانسانی کرفیو کا شکار ہوں جبکہ عین اس وقت اوران حالات میں دشمن کے لوگوں کو ویزا فری انٹری دی جارہی ہو۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل شاید ہی کسی نے کرتار پور کا نام سن رکھا ہو۔ لیکن عمران خان کے الیکشن جیتتے ہی نوجوت سنگھ سدھو کا تقریب حلف برداری میں آنا اور اسی دوران کرتار پور کے معاملے پر فوری پیش رفت ہونا اس تھیوری کو جواز فراہم کرتا ہے جو پچھلے چند ماہ سے زیر گردش ہے۔ اس تھیوری کی بنیاد آغا شورش کاشمیری نے 70 ء کے عشرے میں ”عجمی اسرائیل“ نامی کتاب میں رکھی جس کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ جب مشرقی (بھارتی ) اور مغربی (پاکستانی) پنجاب کو متحد کرنے کے لیے کاوشیں شروع ہو جائیں گی۔ اس وقت بیان کی گئی تھیوری کے مطابق اسی دوران آزاد پختونستان، آزاد بلوچستان اور سندھو دیش کے تحریکیں بھی مضبوط جڑ پکڑ چکی ہوں گی اور ان سب علیحدگی پسند تحریکوں کی بنیاد پنجاب سے ناراضی و دشمنی کی بنیاد پر ہوگی جس کے باعث پنجاب تن تنہا رہ جائے گا۔

آغا شورش کی متحدہ پنجاب کے حوالے سے بیان کردہ تھیوری ( جس کے مطابق متحدہ پنجاب میں سکھوں اورقادیانیوں کی مشترکہ حکومت قائم کی جائے گی) کا اگر جائزہ لیا جائے تو موجودہ حالات ان کڑیوں کو ملا رہے ہیں جس کے تحت صرف دونوں پنجابوں کے لوگوں کو قریب سے قریب تر لانے کے لیے کاوشیں ہو رہی ہیں تا کہ ان کے درمیان اجنبیت کا احساس ختم کر کے نئے تعلقات کو پروان چڑھایا جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل شاہی قلعہ میں راجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جبکہ یہ وہی راجہ رنجیت سنگھ ہے جس نے اسی شاہی قلعے کے بالمقابل واقع بادشاہی مسجد کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنایا تھا۔

اسی طرح سے ننکانہ صاحب میں بابا گورو نانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنا، بابا گورو نانک کے نام اور تصویر کے ساتھ یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنا اور 50 روپے کے یادگاری سکہ کا اجراء جس کے ایک طرف بابا گورو نانک کی تصویر کندہ ہے جبکہ دوسری جانب کرتارپور دربار صاحب کی تصویر اسی سلسلے کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اوپر بیان کردہ سازشی تھیوری کو مزیدتقویت اس وقت ملتی ہے جب اس معاہدے میں اس شق کو شامل کیا جاتا ہے جس کے تحت نہ صرف سکھ یاتری بلکہ کسی بھی مذہب کے یاتری اس راہداری کے ذریعے سفر کر سکتے ہیں۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ راہداری خصوصاً سکھوں کے لیے ہے تو اس میں باقی مذاہب کو کیو ں شامل کیا گیا؟ یاد رہے کہ کرتارپور سے ضلع گرداسپور کافی قریب پڑتا ہے اور قادیان اسی ضلع کی ایک تحصیل ہے جہاں پر قادیانیوں کا مرکز ہے۔ اب اس شق کا سہارا لے کر قادیانی مذہب کے لو گ بھی بلا روک ٹوک آسکیں گے جو کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ایک فرقہ یعنی احمدی مسلمان کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں آئینی طور پر احمدیوں / قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیاگیا ہے۔ اب کرتاپور کی اس جانب سے تو قادیانی بحیثیت مسلمان داخل ہوں گے جب کہ حقیقت میں وہ قادیانی ہوں گے۔

اسی طرح سے بنیادی طور پر یہ ویزہ فری انٹری ہے جبکہ پاسپورٹ لازمی ہے اور سکھوں کا قیام صبح سے شام تک ہو گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نرمی ہوتی جائے گی جس کے تحت پاسپورٹ کی شرط ختم، انٹری کی میعاد کو چند دنوں تک بڑھا دیا جائے گا اور مزید رعائتیں بھی دی جائیں گی جس سے سکھوں کے ساتھ قادیانی بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

موجودہ وقت میں پاکستان اور بھارت میں کلی طور پر عداوت کا سا ماحول ہے جبکہ جزوی طور پر صرف پنجاب میں سکھوں کے ساتھ پیار و محبت کے رشتے پروان چڑھائے جا رہے ہیں، کبھی گورنر ہاؤس میں سکھوں کو عشائیے دیے جارہے ہیں تو کہیں وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے سکھوں پر خصوصی نوازشات ہو رہی ہیں۔

الفت کی یہ داستانیں صرف پاکستانی پنجاب میں ہی نہیں بلکہ بھارتی پنجاب میں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ بابا گورونانک کے جنم دن اور کرتارپور راہداری کے افتتاح سے قبل بھارتی پنجاب میں نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی تصویروں کی فلیکسز چھپنا اور اس کے بعد ان پنجابی گانوں کو پذیرائی ملنا جن میں پاکستان کے حوالے سے خاص پیار اور پاکستان کو مردہ باد نہ کہنے کا اعادہ کرنا ہے۔ اسی طرح سے پچھلے چند سالوں میں بھارتی پنجاب کی فلم انڈسٹری میں ایسی فلموں کا بننا ہے جس میں کبھی تو دونوں پنجابوں میں موجود مشترکہ اقدار کو اجاگر کیا جاتا ہے توکبھی ہیرو لاہور سے دلہن بیاہ لاتا ہے اور کبھی آزادی سے قبل متحدہ پنجاب کے کلچر کو (انگریج مووی میں ) اس پیرائے میں دکھایا جاتا ہے کہ بارڈر اس پار بھی اس کو اتنی پذیرائی ملتی ہے جتنی کہ بھارتی پنجاب میں۔

اسی سلسلے کے تناظر میں چند ہفتے قبل جاری ہونے والی قابل ذکر فلم ”چل میرا پت“ ہے جس میں پاکستانی اور بھارتی فنکاروں نے حصہ لیا ہے۔ اس کی کہانی کا محور بیرون ملک بسنے والے دونوں پنجابوں کے باسیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہے۔ اس فلم کے مدعا کلام میں بھی ”متحدہ پنجاب“ کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر اس فلم کے مرکزی کردار امریندر گل کی طرف ادا کیا گیا وہ ڈائیلاگ جس میں وہ کہتا ہے کہ ”سانوں پنجابیاں نو ں وکھ کرنا کیہڑا اوکھا اے، ماڑی جئی چگاتی لادیو اسی چٹ ڈانگاں کڈ لینے آں پر جس دن اے ڈانگاں اکٹھیاں ہو گیاں ناں تے فیر دہلی توں خیبر تک پنجاب ہو وے گا“ ( ہم پنجابیوں کو جدا کرنا کون سا مشکل ہے چھوٹی سی چنگاڑی لگادیں تو ہم فوراً ہتھیار نکال لیتے ہیں لیکن جس دن یہ ہتھیار اکٹھے ہو گئے تو پھردہلی سے خیبر تک پنجاب ہو گا) کو جس جذباتی انداز میں کہا گیا ہے اگر اس ڈائیلاگ کو فلم کی جان کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جس میں متحدہ پنجاب کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسی طرح سے فلم کے ایک آخری منظر میں پاکستانی پنجابی (ناصر چنیوٹی) اپنے باپ کو فون کر کے بتاتا ہے کہ جو رقم اس کے والد نے اس کو بیرون ملک مستقل رہائش اختیار کرنے کے لیے بھیجی تھی وہ اس نے اپنے انڈین پنجابی دوست کو ڈیپورٹ ہونے سے بچانے کے لیے خرچ کر دی ہے تو اس کا والد جذباتی اندا ز میں کہتا ہے کہ ”مینوں لگدا سی کہ چڑھدے پنجاب دی کھچ ہن صرف چند بزرگاں تک رہ گئی اے لیکن تیری ایس قربانی توں پتہ لگا اے کہ چڑھدے پنجاب دی کھچ ہن ساڈے خون وچ وی ہے گی اے“ (مجھے لگتا تھا کہ مشرقی پنجاب کی تڑپ اب صرف چند بزرگوں تک رہ گئی ہے لیکن تمھاری اس قربانی سے پتہ چلا ہے کہ اب مشرقی پنجاب کی تڑپ ہمارے خون میں بھی ہے ) ۔

یہ صورتحال بارڈر کے دونوں اطراف نئے جذبات کو جنم دے رہی ہے جس کے تحت مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان الفت بڑھا ئی جا رہی ہے، باہمی نفرت اور دوریوں میں کمی لائی جارہی ہے۔

لیکن اس تمام صورتحال کے تناظر میں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا یہ سب محض اتفاق ہے یا واقعی اس سازشی تھیوری پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).