دو ٹکے کی عورت


” وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں ر نگ“ اس کو سن کر یہی محسوس ہو تا ہے کہ عورت کے دم سے ہی تو یہ دنیا آباد ہے۔ عورت ایک ماں، بہن، بیٹی کی شکل میں اس بے ر نگ جہاں میں رنگ بھر تی ہے۔ مگر افسوس آج کل عورت کو دو ٹکے سے بھی کم وقعت دئی جا رہی ہے۔ اس بات سے ہی اندازہ لگا لیں لیں کہ پچھلے دنوں سو شل میڈ یا پر ایک ڈرامہ کا ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا جس میں ایک عورت جو اپنی مر ضی سے زند گی گزارنا چاہتی تھی اُس کو دو ٹکے کی کہا گیا۔

اس ڈائیلاگ کو اتنی پذیرائی ملی کہ لو گوں نے اس ڈائیلاگ پر باققاعدہ تالیاں بجاکر اپنی خو شی کا اظہار کیا۔ اس ڈرامے میں یہی تاثر دینے کی کو شش کی گئی کہ جو عورت اپنے شو ہر اور اپنے بچے کو چھوڑ کر جاتی ہے وہ اصل میں دو ٹکے کی ہی ہو تی ہے۔ بات تو درست کی گئی بھئی عورت کی اتنی ہمت کہ وہ اپنی مر ضی کی زند گی گزارنے کے متعلق سو چے۔ اُسکی اتنی ہمت کہ اُس کو شادی کے نام پر جس کھو نٹے کے ساتھ با ند ہا جاے وہ اُس سے آزادی حاصل کر نے کی کو شش کر ے۔

ہمارے معاشر ے میں عورت کچھ دیکھی اور کچھ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی ہو ئی ہے۔ یہ زنجیریں بچپن سے لے کر بڑ ہاپے تک عورت کے پاوں میں بند ہی ر ہتیں ہیں۔ ان زنجیروں کو عورت تب حقیقت میں محسوس کر تی ہے جب وہ اپنی مر ضی سے زند گی گزارنے کا فیصلہ کر نا چاہتی ہے۔ تب اُس کو حقیقت میں احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ان زنجیروں کو کبھی نہیں توڑ سکتی اور اگر وہ ان کو توڑنے کی کو شش کر ے گی تو اُس کی وقعت دو ٹکے سے بھی کم رہ جائے گی۔

عورت ساری زند گی ہی معاشرے کے بنے اُصولوں کے تحت زند گی گزارتی رہتی ہے۔ اُسکی چال ڈھال کیسی ہو نی چا ہیے، اُسکو کتنی اونچی آواز میں بات کر نی چاہیے، اُس کا رویہ کیسا ہو نا چاہیے، اُسکی تعلیم، اُس کی پسند نہ پسند سب کچھ ہی یہ معاشرہ طے کر تا ہے۔ اور اسی معاشرتی د باؤ میں وہ اپنا آپ مار کر زند گی گزارتی چلی جاتی ہے۔ مگر قابل حیرت بات یہ ہے کہ سب قر بان کر نے کے باوجود بھی وہ دو ٹکے کی ہی ر ہتی ہے۔

اُس کا بھا ئی جب چاہتاہے عزت کے نام پر اُس کا سر قلم کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عزت کی اصل ٹھیکدارصرف اور صرف عورت ہی تو ہو تی ہے۔ اور جب کبھی وہ اپنی پسند کی زند گی گزارنے کا فیصلہ لینا چاہتی ہے تو بھائیوں، باپ، شو ہر کی عزت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ اُس سے اُسکی زند گی ہی چھین لی جاتی ہے۔ انسانی حقو ق کمیشن کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی 30 فیصدوارداتوں میں خواتین کے شو ہر اور 20 فیصد میں بھائی ملوث پائے جاتے ہیں۔

اسی لئے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ر جسٹرڈ کیسز کے مطابق ہر سال ایک ہزار عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا تا ہے۔ ظلم کا سلسلہ صرف عورت کو مو ت کے گھاٹ اُتارنے تک ہی محدود نہیں ر ہتا۔ بلکہ اُس کا شو ہر جب چا ہتا ہے اُس دو ٹکے کی عورت جس نے اُس کے مکان کو گھر بنا یا ہو تا ہے اُسکی ساری قر بانیاں بھلا کر کسی دوسری کے عشق میں مبتلا ہو کر اُس کی زند گی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ انہی باتوں کی ہی و جہ سے گھر یلو تشد د کے واقعات میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں نظر آرہا ہے۔

ایکسپریس ٹربیون کی ر پورٹ کے مطابق پاکستان کی 93 فیصدخواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ خواتین پر ہو نے ہو نے گھر یلو جنسی تشدد کے کیسز زیادہ تر رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس لئے صرف صوبہ پنجاب اور سند ہ میں 10 فیصد کیسز رپورٹ ہو تے ہیں۔ جس اولاد کی اُس نے ساری عمر پر ورش کر تے ہو ئے خود کو فراموش کیا ہو تا ہے جب اُس اولاد کے سنبھالنے کے دن آتے ہیں تو وہ بھی اس دو ٹکے کی عورت کو گھر سے یہ کہہ کر نکال دیتے ہیں کہ اب اُنکی بیماری کی و جہ سے اُنکی اولاد کی زند گی ڈسٹرب ہو تی ہے۔

اس کھو کھلے معاشرے کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ عورت کی قدر کو جانچے یا ناپے۔ دو ٹکے کی عورت نہیں ہو تی بلکہ دو ٹکے کی وہ سوچ ہے جو عورت کو اپنا آپ منوانے سے رو کے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایجنڈہ سیٹ ہو چکا ہے کہ اگر عورت کو آزادی دئی گئی تو معاشرے میں خرابی پیدا ہو گی۔ کیو نکہ عورت ہمیشہ سے ہی اپنی آزادی کا غلط استعمال کر تی ہے اسی سوچ ہی کی و جہ سے عورت کی بنیادی آزادی سلب کر لی جاتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ عورت بھی اُتنی ہی انسان ہے جتنا کہ مرد۔

اس لئے جتنا مرد کا زند گی بنانے میں حصہ ہے اُتنا ہی عورت کا بھی حصہ ہے کیو نکہ یہ دو نوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس لئے عورت اور مرد کو ایک جیسا ہی احترام ملنا چاہیے۔ اور اس احترام کو حاصل کر نے کے لئے عورت کو خود اپنا معیار بنا نا ہو گا اور معاشرے کو بتا نا ہو گا کہ اُسے اُسکی، تضحیک، تذلیل کسی بھی ر شتے کی صورت میں منظور نہیں ہے۔ ہمارے ڈرامے کو بھی عورت کی عزت کر نا سیکھنا چاہیے اور عورت کو معاشرے میں بہتر طر یقے سے پیش کر نا چاہیے تاکہ عورت اپنی اصل عزت اور مقام حاصل کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).