انسانیت کو سرفراز کرنے والے لوگ


مجموعی طور پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ مگر یہ جملہ اپنے اندر معنو یت کے اعتبا ر سے بہت سی مبہمجہتیں لیے ہوئے ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کی کیا سب انسان اشرف ہوتے ہیں یا صرف چند ایک لوگ؟ تاریخ انسانی سے جب ہم اِس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں توہمارا سامنا ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جو لباس انسان میں خلاف انسان تھے۔ طاقت ان کا اوڑنا بچھونا تھی اور اپنی طاقت کے بل بوتے پرانہوں نے آدھی دنیا کو خون میں نہلا دیا اور اپنی طاقت کو عروج بخشنے کے لیے انہوں نے شعور کی آماجگاہوں یعنی لائبریریوں کو جلا کر خاکستر کر دیا اور جہاں انہیں چند سوچنے والے دماغ نظر آئے انھیں صفہ ہستی سے مٹا دیا۔

لیکن ان سب مصائب اور ظلم کے باوجودکاروبار ہستی چلتا رہا اور ارتقاء کا پہیہ آگے کی طرف گھومتا رہا اور آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جو ہر لحاظ سے معجزاتی ہے۔ پوری کی پوری کائنات ہمارے سامنے ایک کلک بٹن کے فاصلے پر ہے۔ مگر سوچنے کا مقام ہے کہ اس ارتقائی پہیے کو مہمیز کون دیتا ہے۔ اس کائنات کی رنگینیوں میں مزید خوبصورت رنگوں کا اضافہ کون کر رہا ہے۔ وہ اسی کائنات کے چندسوچنے والے ہیرے ہیں۔ انہی سوچنے والے لوگوں کی بدولت کائنات کے پر اسرا ر راز انسانیت پر منکشف ہو رہے ہیں۔

یہ لوگ حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنے، سمجھنے اورسمجھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ سوچنے والی نابغہ روزگار ہستییاں اپنی سوچ کی گہرائیوں میں اتر کرکتابوں کی صورت میں سوچوں کا ایک ایسا انسائیکلو پیڈیاورثہ میں چھوڑ جاتی ہیں جو نئی آنے والی نسلوں میں سوچنے والے دماغوں کے لیے آب حیات کا کام سر انجام دیتی ہے۔ ہمارے جنوبی پنجاب میں بھی ایک ایساہی بیدار مغزذہن موجود ہے۔ جس پر تقریباًآٹھ سال کی عمر میں ایک ایسی پر اسرار بیماری نے حملہ کر دیاکہ جس کی وجہ سے اُس کا سار ا جسم مفلوج ہو گیا۔

لیکن اس مفلوج جسم پر ایک ایسا دماغ بھی تھاجو سوچنے کا عادی تھا۔ سوچ کے اسی نشے نے اس باہمت انسان کوہار نہیں ماننے دی۔ یہ معذوری کے باوجوداپنے تئیں ہمت کرکے لکھتا اور پڑھتا رہا۔ اور اسی جدو جہد کے دوران اس نے اپنی سرائیکی شاعری کے کچھ مجموعے تشکیل دیے جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ اس عظیم ہیرے کا نام شاکر شجاع آبادی ہے۔ جو اس وقت بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ بیمار جسم مگر بیدا رمغز اس وقت راولپنڈی کے سویٹ ہوم میں زیرِ علاج ہے۔ یہاں پر بہت سے لاوارث اور لاچار لوگوں کو زندگی گزارنے کے لیے چھت اور کچھ بنیادی ضرورتیں مل جاتی ہیں۔ معاشرتی کسمپرسی پران اکا ایک شعر ہے۔

بٹتی ہیں اب نیازیں اس کے مزار پہ

کچھ روز پہلے جو کہ فاقوں سے مر گیا

کچھ روز پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر دیکھی۔ ایک اُجڑے ہوئے گھر میں ایک اُجڑے ہوئے بستر پر ایک آدمی لیٹا ہوا ہے۔

اور اس کو جو ڈرپ لگائی ہوئی تھی وہ ایک خستہ حال دیوار پر لٹکائی ہوئی تھی۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ شاکر شجاع آبادی ہے۔ جن معاشروں میں سوچنے والے لوگوں کے ساتھ ایساسلوک کیا جائے گاتو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہر طرح سے تباہ حال اِس معاشرے میں مزید سوچنے لوگ پیدا ہوں گے؟ ہمارا معاشرہ تو پہلے ہی فکری بونوں کا معاشرہ ہے۔ ہم ایک ایسے معا شرے کے باسی ہیں جہاں سوچنا نہیں سکھایا جاتابلکہ رٹوتوتے بنا یا جاتا ہے۔

یہاں پر جوابات کی بھرمار ہے لیکن سوالات، سوچنے، سیکھنے اور پوچھنے کا کلچر ابھی تک فروغ نہیں پایا۔ سکولز اور کالجز میں اساتذہ بچوں کو امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمار ی درس گاہیں تخلیقی قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی بیدار مغزاور سوچ کے نئے زاویے کھولنے والابطور ٹیچر کسی درس گاہ میں مقرر ہو جاتا ہے تواُس کی آواز اُس درسگاہ کی انتظامیہ اور طلباء بند کر دیتے ہیں۔ ڈرا دھمکا کر اور حتٰی کہ موت کے گھاٹ اُتار کربھی۔ ہماری اس معاشرتی کسمپرسی کو مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر خالدسہیل نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا

ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

ٓآئینہ ہر اک کمرے کا حیراں ہے کہ کیونکر

جس شخص نے دیکھا اسے مڑ کر نہیں دیکھا

بنیاد بھی کمزور ہے دیواریں شکستہ

اس دور میں انسان کا پیکر نہیں دیکھا

لفظوں کی عمارت پہ ہیں آسیب کے سائے

شاعر تو کئی دیکھے پیمبر نہیں دیکھا

اسی درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں

نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا

راتوں کی تو کیا بات ہے اس شہر میں خالد

برسوں سے کبھی دن بھی منو ر نہیں دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).