کالی بلی نے میرا راستہ کیوں کاٹا؟


ہم اکثر بڑے بوڑھوں سے بہت سی ایسی باتیں سنتے ہیں۔ جو کہ ان کے تجربات و مشاہدات پر مبنی ہوتی ہیں۔ جن میں سے کچھ کا تعلق حقیقت سے ہوتا ہے اور کچھ سنی سنائی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ ہم اکثر یہ سنتے ہیں، کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے اجتناب کریں، ورنہ جِلد کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں اگر ہم اس بات پر غور کریں، تو ہو سکتا ہے کہ مچھلی کے کچھ مخصوص اجزاء دودھ کے ساتھ مل کر کوئی جِلد کی بیماری پیدا کر دیں۔ اس کی کوئی کیمیائی دلیل ہو سکتی ہے۔ مگر کچھ سنی سنائی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا اور غور کرنے پر بھی ان کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

قصہ کچھ یوں ہے، کہ دو سال قبل ہمارے گھر والوں نے ہماری آزادی چھیننے کی ٹھان لی۔ چونکہ ان کو ہماری خوشی اور آزادی کھلنے لگی تھی۔ چونکہ فارغ اوقات میں دوستوں یاروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، گھومنا پھرنا معمول اختیار کر چکا تھا۔ ایک خوبصورت لڑکی ڈھونڈ ڈھانڈ کر ہماری شادی کرا دی گئی۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ لڑکی خوبصورت ہو یا بدصورت ہوتی، تو وہ لڑکی ہی ہے۔ شادی کے دو ماہ بعد ہی والدین نے دادا دادی بننے کی خواہش کا اِظہار کر دیا اور کچھ ماہ بعد ہم نے بالآخر ننھے مہمان کی آمد کی خوشخبری سنا دی۔

اور پھر کچھ ایسی باتیں سننے کا آغاز ہوا جو میری سمجھ سے بالاتر تھیں اور ہیں، ۔ ایک دن سورج کو گرہن لگنا تھا اور زوجہ محترمہ معمول کے گھریلو کاموں میں مشغول تھیں، کہ ان سے یہ کہا گیا، کہ آج چھری، چاقو، قینچی یا کسی دھار والی چیز کا استعمال نہ کرنا اور کھلے آسمان تلے نہ جانا۔ ورنہ ہونے والے بچے میں کوئی نقص واقع ہو جائے گا۔ یہ سن کر میں حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

اکیسویں صدی اور گوگل کے دور کا لڑکا ہونے کے ناتے میں نے اس پر بہت تحقیق کی، کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ مگر مجھے اس کی کوئی مناسب وجہ اور منطق سمجھ نہیں آئی۔ چند دن بعد گھر والوں کو یہ بھی کہتے سنا، کہ دلہن کے اگر بال گر رہے ہیں، تو لڑکے کی پیدائش یقینی ہے۔ میں مزید حیرت میں مبتلا ہوگیا، کہ بھلا گرتے بالوں کا بچے کے جنس سے کیا لینا دینا ہوسکتا ہے؟ اسی طرح حاملہ خاتون کو یہ صلاح بھی دی جاتی ہے کہ کمرے میں خوبصورت بچوں کی تصاویر آویزاں کرو اور ان تصاویر کو دیکھا کرو۔ تاکہ ہونے والا بچہ خوبصورت پیدا ہو۔

گھر والوں کے مطابق لڑکے کی پیدائش کی تمام نشانیاں میری زوجہ محترمہ میں ہونے کے باوجود اللہ پاک نے ہمیں بیٹی جیسی رحمت سے نوازا اور ہم دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے۔ مگر پتا نہیں لڑکے کی پیش گوئیاں کرنے والے کیوں نظریں چرا رہے تھے؟ ان سب باتوں کے باوجود بھی سنی سنائی باتوں اور پیش گوئیوں کا خاتمہ نہ ہوا۔ اور ہمارے علمِ لاشعور میں مزید اضافہ ہوا۔ ہمارے گھر والوں نے یہ بھی بتایا کہ جو بچی اپنے پاؤں کا انگوٹھا منہ میں لیتی ہے، وہ بہت خوش قسمت ہوتی ہے، بچی کو ٹیڑھا نہ سلاؤ، ورنہ اِس کے دانت ٹیڑھے نکلیں گے، جن بچیوں کی رال زیادہ ٹپکتی ہے، اس کے ابا بہت مالدار ہوجاتے ہیں، بچوں کے اُوپر سے نہ پھلانگو، ورنہ اُن کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔ اب بھلا ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی ہوسکتا ہے کیا؟ مجھے تو ان سب باتوں کی کوئی وجہ اور منطق سمجھ نہیں آتی اور معلوم نہیں بڑے بوڑھے یہ سب کیوں مانتے اور منواتے ہیں۔

اب کل ہی کی بات لیجیے، کہ ہم نے امی جان سے کہا کہ ”ہماری بچی سوتے میں بہت چونکتی ہے“۔ تو ہمیں ایک بہت ہی غیر سائنسی و غیر منطقی جواب سننے کو ملا، جو سن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وہ جواب اور طریقہ آپ سب کے گوش گزار کرتا ہوں۔ امی جان کا کہنا یہ تھا کہ بچی کے سرہانے کوئی لوہے کی چیز جیسا کہ چابی، نیل کٹر یا چاقو رکھ دو تو اِس سے بچے نیند میں نہیں ڈرتے۔ میں تو یہ منطق سُن کر بس سن سا ہو کر رہ گیا۔ دنیا چاند پر چلی گئی اور ہم چاقو، قینچی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔

مندرجہ بالا سنی سنائی باتوں اور اِس جیسی کتنی ہی سچی، جھوٹی موٹی روایات کو ہم رات دن سنتے ہیں اور کچھ پر عمل بھی کرتے ہیں اور کچھ کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں۔ میرا ماننا تو یہ یے، کہ اس ترقی یافتہ دور میں، ہم سب کو ایسی سنی سنائی باتوں اور لغو روایات پر ہرگز بھی کان نہیں دھرنا چاہیے۔ جس کا کوئی سائنسی جواز اور حقیقت سے تعلق نہ ہو۔ مگر ایک بات آج تک مجھے شدت سے ستاتی ہے کہ جس دن میری شادی تھی کالی بلی نے میرا راستہ کیوں کاٹا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).