آپ بیتی لکھنا آسان اور بھگتنا مشکل ہے


ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں اور کسی حد تک سنتے بھی آ رہے ہیں کہ آپ بیتی کیا ہے چلیں میں پھر بھی بتائے دیتی ہوں جناب جو خود پر بیت رہی ہو اس کیفیت اس احساس کو آپ بیتی کہتے ہیں۔

اب اس میں تو کچھ خاص نہیں آپ بیتی کیا ہے سب کو پتہ لیکن۔

معلوم ہونے میں اور حقیقتاً اس سے واقف ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔

ہم اگر کسی کی پریشانی سنتے ہے کچھ لمحہ اس کے غم گسار بن جاتے ہیں اور اس کے غم کا دوام بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بس کچھ دیر تک ہی وہ احساس ہم میں موجود رہتا ہے اور جونہی وہ شخص چلا جاتا ہے اپنی اپنی رائے ایک دوسرے تک منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہائے اس میں دیکھا صبر ہی نہیں ہے کیسے آہ و زاری کر رہی تھی۔ تھوڑی ہمت دکھاتی۔ اگر شوہر مارتا پیٹتا ہے تو کیا ہو گیا غلطی اس کی بھی ہوگی۔ ایسے ہی تو مرد کا ہاتھ نہیں اٹھ جاتا اور یہ جو کہتی ہے کہ دوسری عورتوں کے پاس جاتا ہے تو اسی میں کمی ہے۔ بھلا شوہر کے لئے سجے سنورے بناؤ سنگھار کرے۔ شکل دیکھی ہے اس کی کچن کے سامنے خود کو جھونک جھونک کر حالت بری بنا رکھی ہے۔ اب ایسے میں مرد کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو تو اور کیا ہو۔

کوئی اس کا قرب اس کے دل کا حال نہیں سمجھتا اور جب اپنا اپنا تجزیہ کر لیتے ہیں۔ تو صرف اس کے زخم کریدنے کی غرض سے اس کا حال پوچھا جاتا ہے۔

جان بوجھ کے اپنی شوہر کا یا کسی اور کے شوہر کا ایک بے مثال مجسمہ دکھا کر اس کے شوہر کے موجودہ رویہ اور حال پوچھا جاتا ہے اور اس کی دکھتی رگ پر اچھے سے ہاتھ رکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ بیچاری دکھوں کی ماری اپنا ہر درد جو اس کے جسم میں دہکتے انگاروں کی طرح سلگتا ہے آتش فشاں پہاڑ کی طرح اگل دیتی ہے۔

اس بات سے بے خبر کہ جنہیں وہ مداوائے غم سمجھ رہی ہے وہ در حقیقت لطف لے رہے ہیں۔ اس نادان کے غم میں چھپی ان کے لئے سکون کی چاشنی سے خود کو بھگو رہے ہیں۔ جب وہ انتہا کر جاتی ہے اور یہ لوگ سیراب ہو جاتے ہیں تو پھر صبر کی تلقین اور خاموشی کا درس دیتے ہیں۔

لیکن جیسے کہ اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ

میں نے اس دنیا کو عجیب پایا ہے کہ جانور تکلیف میں ہوتو افسوس کرتے ہیں اور اگر انسان ہو تو اس کی تکلیف میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔

بالکل ایسا ہی ہے سکون تو لیتے ہی ہیں ساتھ ہی اسے اپنی حد تک نہیں رکھتے بلکہ تمام۔ اطراف میں شائع کر دیتے ہیں۔

اب اگر یہ معاملہ ان کے ساتھ پیش آ جائے تو آہ و بقا شروع کرتی ہیں۔ وہ جو نصیحت دیا۔ کرتی تھیں آج اپنی۔ ان نصیحتوں کے برعکس چیخ بھی رہی ہیں۔ بے صبری بھی ہو رہی ہیں۔

اب کہیں جا کر انہیں احساس ہوتا ہے اس عورت کے دکھ کا جب وہ غم ان پر بیتنا شروع ہوتا ہے۔

ہم ہمیشہ لاعلم رہتے ہیں ہر اس غم سے۔ احساس سے۔ چیخوں کے پیچھے چھپے گہرے سناٹے سے۔ خاموش کے پیچھے چھپے شور سے۔

آہ و بکا کے پیچھے چھپی داستاں۔

تو کہیں آنسو میں چھپی داستان۔

ہم جان ہی نہیں پاتے یہ جو پرندے بارش کے طوفان کا سامنا کر رہے ہیں کیا دشواریاں آئی ہوں گی راہ میں ان کی۔

ایسی ہی انسان اپنی زندگی میں کن دشوار راہوں سے پار ہو کر منزل کو پہنچا یا کیسے پار ہو رہا ہے یہ ہم نہیں جان پاتے۔ جب تک خود ان مراحل سے نہ گزر جائیں۔

کسی کے بارے میں کچھ کہنا۔ اس کے غم میں مزا تلاش کرنا بہت آسان ہے اور یہ سب اپنی زندگی کو دشوار بنانے کے مترادف ہے۔

کیونکہ یہ تو وقت ہے اور اس نے لوٹ کر بھی آنا ہے۔ پھر ہو سکتا ہے وہ شخص سنبھل گیا ہو اور آپ اس کی جگہ ہوں۔

یہ آپ بیتی جو بچپن میں سب سے آسان لگتی تھی لکھنے میں۔ اس فکری زندگی میں یہ جان گئی کہ سب سے مشکل مرحلہ ہی اس آپ بیتی کو جاننا ہے۔ اور اس کے اس مرحلہ دشوار سے گزرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).