پاکستان میں کورٹ میرج کا مکروہ دھندا


گیارہ سال کی عمر میں فیس بک پر اپنی ہم عمر لڑکی سے دوستی ہوئی۔ اس دوستی نے محبت کا چولا اوڑھنے میں کچھ زیادہ ہی سرعت دکھائی اور محبت کے جذبے سے مغلوب یہ کم عمر جوڑا گھر سے بھاگ کر حیدرآباد پہنچ گیا۔ عشق کا سودا ایسا سر میں سمایا کہ یہاں کی سیشن کورٹ سے اجازت نامہ حاصل کر نے کے بعد شادی بھی کرڈالی۔ لڑکی کے گھر والوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے لڑکے پر اغوا کا پرچہ کٹوادیا۔ پاکستانی قانون نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پولیس نے انتہائی چابک دستی سے اپنا فرض نبھایا اور معمولی بھاگ دوڑ کے بعدلڑکی کو برآمد کر لیا۔ یوں میکے کا راستہ واپس لڑکی کا مقدر اور جیل لڑکے کا سسرال بن گیا۔

لگ بھگ تیرہ چودہ سال کی عمر کا یہ قیدی بچہ محبت کی زنجیر میں بندھنے سے لے کر اس چاردیواری میں بند کیے جانے تک کی اپنی پوری داستان بظاہر تو بڑے اعتماد سے سنا رہا تھا، جیسے اسے یقین ہو کہ اس نے جو کیا وہ غلط نہیں تھا، لیکن دورانِ گفتگو وہ ایک پاؤں کے انگوٹھے سے دوسرا پاؤں مسلتے ہوئے اپنی بے چینی چھپانے کی بھی کوشش کر تا رہا۔ بات کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں یوں پھنسی تھیں، گویا کسی اضطراب میں مبتلا ہوں۔ جیل کی ہوا کھانے کے بعد بھی اس کے عشق کا بخار اترا نہیں، اب بھی اس کی یہی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح آزاد ہوجائے اور اپنی کم سن بیوی کے ساتھ دنیا کے کسی بھی محفوظ کونے میں نئی زندگی شروع کردے۔

کراچی سینٹرل جیل کے ریمانڈ ہوم میں موجود چوبیس قیدی بچوں میں سے یہ ایک کی کہانی ہے۔ اس جیسی کتنی ہی کہانیاں ہم آئے دن اپنے اطراف سنتے اور پڑھتے ہیں۔ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے آپ میں سے بھی کوئی تو فیس بُک کی اس دنیا کو کوس رہا ہوگا کہ جس کے طفیل یہ کم سن جوڑا عشق اور محبت کی پگڈنڈی پر چڑھنے کی دُھن میں سب بھلا بیٹھا یا پھر کوئی ان کے والدین کی غفلت کو قصوروار ٹھہرا رہا ہوگا کہ وہ کیوں اولاد کی تربیت اور دیگر معاملات سے ایسے غافل ہوئے کہ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ کون سا راستہ ان بچوں کو ایسی جگہ لے جا رہا ہے جہاں سوائے شرمندگی اور پشیمانی کے اور کچھ نہیں۔

ہوسکتا ہے آپ لوگوں کی سوچ اپنی جگہ درست ہو لیکن میں اس کیس کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہی ہوں اور میرے نزدیک مجرم اس بچے سے زیادہ ریاست کے اہم ترین ادارے ہیں۔ وہ عدالتیں ہیں جہاں معمولی رقوم کے عوض قانون کو جوتوں تلے دھڑلے سے روندا جارہا ہے۔ وہ تھانے ہیں جہاں رشوت کی بیماری وبائی صورت اختیار کرچکی ہے، کہیں کاندھوں پر پھول سجائے تو کہیں کالا کوٹ جسم پر چڑھائے، نوٹ جیبوں میں ٹھونسنے کی ہوس میں قانون کے رکھوالے سچ کو چھپاتے اور بے گناہوں کو پھنساتے ہیں۔

پاکستانی قانون کے مطابق شادی کی کم سے کم عمر لڑکوں کے لیے اٹھارہ اور لڑکیوں کے لیے سولہ سال مقرر کی گئی ہے۔ اس سے کم عمر کی شادی قانون کی نظر میں جرم ہے جس کی سزا جرمانہ اور سال بھر تک کی قید ہے۔ قانون تو موجود ہے، لیکن اس کا نفاذ بھلا کون کروائے گا؟ وہ عدالتیں جو معمولی رقم کے عوض خود ہی کم سن جوڑوں کو نکاح کا اجازت نامہ فراہم کر کے قانون سے کھلواڑ کرتی ہیں۔ ریمانڈ ہوم کے اس قیدی بچے کے پورے کیس میں میرے نزدیک بچے سے بڑے مجرم حیدرآباد کی سیشن کورٹ کے وہ وکیل اور اہلکار ہیں، جو چند ہزار روپے کے عوض قانون سے کھیل گئے۔ بچے سے شناختی کارڈ طلب کرنے، اس کی درست عمر کی تصدیق کرکے گھر کا راستہ دکھانے کے بجائے سودا کر بیٹھے، انہوں نے وقتی طور پر تو بچے کو تمام قانونی رکاوٹوں سے بچاکر اس کے من کی مراد پوری کر ڈالی، اس غیرقانونی شادی کا اجازت نامہ نہایت شفاف طریقے سے فراہم بھی کردیا، لیکن اسے بعد کی ایک بڑی مشکل کی طرف دھکیل دیا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ کورٹ میرج کے بعد ہونے والی گرفتاری کے اکثر واقعات میں لڑکے کو اغوا کے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لڑکی اسٹامپ پیپر پر فری ول لکھ کر دیتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر عدالت نکاح کی اجازت دیتی ہے، تو بعد میں اغوا کا مقدمہ کیسے درج ہوجاتا ہے؟ قانون ہی قانون سے متصادم بھلا کیسے جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ ملک ہے جس میں سب کچھ ممکن ہے۔ مجسٹریٹ آف پیس اور وہ قاضی جو کورٹ میرج کے تمام مراحل میں جوڑے کا ساتھ دیتے ہیں، اپنے دستخط اور مہریں ثبت کرتے ہیں، بعد میں کسی مشکل میں پڑنے کی صورت میں جوڑے کے حق میں گواہ کیوں نہیں بنتے افسوس!

پاکستان کا قانون کورٹ میرج کے تمام دروازے کھولتا تو ہے لیکن ایسے جوڑوں کو کوئی قانونی تحفظ نہیں دیتا۔ یہاں ہونے والے نکاح کا کوئی کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ نہیں ہوتا جو بعد میں کسی مقدمے میں پھنسنے کی صورت میں پیش کیا جاسکے۔ یوں لڑکا تنِ تنہا اسی بات کو ثابت کرنے میں رُل جاتا ہے کہ اس نے اغوا نہیں کیا بلکہ یہ شادی لڑکی کی مرضی سے ہوئی تھی۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ قانون کی چھتری کے نیچے نکاح کرنے والے لڑکے کے سر پر قانون ہی کی تلوار آگرتی ہے اور وہ اغوا کے مقدمے میں جکڑے جانے کے بعد لمبے عرصے تک پیشیاں بھگتتے بھگتتے عمر کا سنہرا دور کھو دیتا ہے۔

ایسے میں اگر جوڑا کم سن ہے تو بھی عدالتیں آسانی سے قانون کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں اور شناختی کارڈ دیکھے یا کسی اور طریقے سے ان کی عمر کی تصدیق کیے بغیر بلوغت کی صرف ظاہری علامات دیکھ کر ہی نکاح کی اجازت دے دیتی ہیں۔ روپے گھسیٹنے کا یہ دھندا کورٹ میں بڑے پیمانے پر چل رہا ہے، اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ کورٹ کے آس پاس موجود تقریباً تمام دفتری عمارتوں میں نکاح خواں قاضیوں کے دفاتر موجود ہوتے ہیں، نوجوان اور کم عمر جوڑے کورٹ میں مجسٹریٹ آف پیس کا اجازت نامہ لے کر انھی کے بتائے ہوئے قاضیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔

ان قاضیوں کے پاس مجسٹریٹ کی مہر ہوتی ہے وہ نکاح پڑھا کر مہر ثبت کردیتے ہیں۔ ایسے ہر قاضی کے پاس کورٹ کی طرف سے روزانہ دس سے پندرہ کورٹ میرج کے اجازت نامے جاتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا ذرا مشکل نہیں کہ کتنی بڑی تعداد میں یہ کاروبار کورٹ کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔ ایک ایسا کاروبار جس میں فرد کے کسی خسارے کی ضمانت عدالت نہیں دیتی۔

گیارہ سال کی عمر میں شادی کر کے اس بچے نے جرم کا ارتکاب تو بے شک کیا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس پر کم عمری کی شادی کا ہی کیس دائر کر مقرر کردہ سزا دے دی جاتی جو چند ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ تک کی قید ہے، کیوں وہ اغوا کے جرم میں ایک عرصے سے قید کاٹ رہا ہے اور اب بھی اسے اپنے مستقبل کا کچھ نہیں پتا۔ عدالت، جج، وکیل اور قاضی سب اپنی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن ان کی سرپرستی میں نکاح کرنے والا بچہ جیل میں اپنی زندگی کی رونق گم ہوتے دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).