سمندری حیات: بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیں


بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے ایک عظیم الجثہ وہیل مردہ حالت میں ملی ہے۔

ماحولیات کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 31 فٹ لمبی وہیل کی ہلاکت ماہی گیروں کی جانب سے بچھائے گئے ایک جال میں پھنسنے کے باعث واقع ہوئی ہے۔ اس کی باقیات جیونی کے علاقے گنز سے ملی ہیں۔

تنظیم کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم نے بی بی سی کو بتایا کہ 26 نومبر کو انھیں اطلاع ملی تھی کہ ماہی گیروں کے جال میں وہیل پھنسی ہے۔ ماہی گیروں نے اس نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دیو ہیکل وہیل بپھری ہوئی تھی اس لیے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم بھی اس وہیل کی تلاش میں گئی لیکن اس کا پتا نہیں چل سکا۔

یہ بھی پڑھیے

وہیل کو کس طرح تولا جاتا ہے

گوادر کے ساحل پر 34 فٹ لمبی مردہ وہیل

پاکستان میں پہلی مرتبہ زندہ بلیو وہیل دیکھی گئی

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اپنا سرچ آپریشن جاری رکھا اور جمعہ کے روز یہ وہیل پہاڑی ٹیلوں میں مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔ مردہ وہیل کی تصاویر سے پتا چلا کہ یہ برائیڈس وہیل ہے۔

محمد معظم کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں بحیرہ عرب میں تین اقسام کی وہیلز پائی جاتی ہیں جن میں برائیڈس کے علاوہ بلیو وہیلز اور عربین وہیل شامل ہیں۔

وہیلز کہاں پائی جاتی ہیں؟

وہیل اینڈ ڈولفن کنزویشن تنظیم کے مطابق یہ وہیل بحرالکاہل، بحر اوقیانوس اور بحیرہ عرب میں پائی جاتی ہے، یہ مچھلی زیادہ تر وقت اکیلے یا جوڑے کی شکل میں رہتی ہے اور انھیں فیڈنگ کرتے ہوئے غول کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس قسم کی وہیل کی رفتار انتہائی سست ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق وہیلز دنیا کے تمام سمندروں میں سفر کرتی ہیں اور ایک پراثرار آواز پیدا کرتی ہیں، سمندر میں رہنے کے باوجود یہ سانس لیتی ہیں اور انسانوں کی طرح گرم خون والی ممالیہ ہیں۔

ایک ہلاکت بھی بڑے نقصان سے کم نہیں

محمد معظم نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال وہیل کی ہلاکت کے ایک سے زائد واقعات پیش آتے ہیں۔ وہیل مچھلی کی اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں جال میں پھنسنا اور جہازوں سے ٹکرانا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ماہی گیروں کو تربیت فراہم کی گئی ہے کہ اگر کوئی وہیل جال میں پھنس جائے تو اس کو کس طرح محفوظ طریقے سے نکالا جائے۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں جال میں پھنس جانے والی چھ وہیلز کو بروقت کارروائی کر کے بچایا گیا ہے۔

وہیلز انتہائی نایاب ہیں اور بہت کم نظر آتی ہیں اور اگر ایک کی بھی ہلاکت ہو جائے تو یہ کسی بڑے نقصان سے کم نہیں۔

پاکستان کی سمندری حدود میں نشونما

محمد معظم کے مطابق عمان، پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجود سمندری حدود میں یہ وہیلز خوراک حاصل کرنے آتی ہیں کیونکہ یہ سمندری علاقے ان کی فیڈنگ اور نشو نما کی جگہیں ہیں۔

عام طور پر جیسے ہی موسم سرما کی ابتدا ہوتی ہے ان دنوں میں یہ وہیل مچھلیاں پاکستان آتی ہیں کیونکہ اس سیزن میں پاکستان میں سمندر کی سطح پر چھوٹے جھینگے باکثرت پائے جاتے ہیں جو وہیل کی مرغوب غذاؤں میں سے ہیں۔

سندھ، بلوچستان میں شکار پر پابندی

سندھ اور بلوچستان حکومت نے وہیل اور شارک کے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ محمد معظم کے مطابق ماہی گیر جان بوجھ کر اتنے بڑے جانور کا شکار نہیں کرتے لیکن حادثاتی طور پر یہ جال میں پھنس جاتی ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہیل اور شارک کے بقا کے لیے موثر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp