فرد کی آزادی، عقیدے کا احترام اور ننھے عزاداران


عقیدہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ عقیدہ ایک خوش گوار وراثتی جبر ہوتا ہے۔ عقیدہ نہ تو دلیل کی بنیاد پر اختیارکیا جاتا ہے اور نہ دلیل کی بنیاد پر ترک کیا جاتا ہے۔ عقیدے کے پیچھے کسی بھی منطق سے بڑھ کر عقیدت کارفرما ہوتی ہے۔ عقیدے کے درست ہونے کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ میرے اجداد اس پر کاربند تھے اور اسی عقیدے نے میری پرورش کی ہے۔ کسی بھی دوسرے عقیدے کے غلط ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرتا۔ عقیدہ کی حرکیات آپ سے شہریوں کے بیچ تفریق کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس تفریق لیے وہ عقیدے کو ہی بنیاد بناتی ہیں۔ عقیدے کے باب میں آپ پہلے رائے قائم کرتے ہیں، پھر اس رائے کے حق میں دلیل تلاش کرتے ہیں۔ منطق کا کوئی ایک بھی قضیہ اگر آپ کی قائم کردہ رائے کی حمایت نہ کرتا ہو تو پھر کوئی ایسا مجہول کلیہ تشکیل دینا ہوتا ہے جس میں الہام کی آمیزش ہو۔ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ پہلے دلیل کی میزان قائم کریں اور پھراس پر اپنی رائے کو پرکھ کر اختیار کریں۔ اول دلیل کی میزان قائم کرنا عقیدے کے کمزور ہونے کی بنیادی علامات میں سے بتایا جاتا ہے۔ عقیدے کی دنیا میں دلیل کے محدود پیمانے تشکیل پائے جا چکے ہوتے ہیں۔ اسی پہ تولنا ہے اسی پر پرکھنا ہوتا ہے۔ عقیدے کے باب میں دلیل ایک ثانوی درجے کی حقیقت ہے۔ اپنی بات اگر قطعیت کے ساتھ نہیں کریں گے تو عقیدے کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔ اپنی بات غلطی کے احتمال کے ساتھ نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے کی بات ٹھیک ہونے کے امکان کے ساتھ سنی نہیں جا سکتی۔ خود کا یہ کمال جاننا ہوگا کہ میں ایک برحق گھرانے میں پیدا ہوا۔ دوسرے کا یہ قصور جاننا ہوگا کہ وہ ناحق گھرانے میں پیدا ہوا۔ ساری دنیا کو میری طرح دیکھ بھال کے ٹھیک جگہ پیدا ہونا چاہیئے تھا۔ اب بے دھیانی میں غلط جگہ پیدا ہوگئے ہیں تو اس کوتاہی کے سبب اس کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا جو مجھے حاصل ہے۔

فرد کسی بھی عقیدے کے ترک و اختیار میں آزاد ہے۔ عقیدے سے کنارہ کشی بھی فرد کا حق ہے۔ معاشرت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنی فکر سے وابستہ رہ کر دیگر عقائد و افکار کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔ عقیدے کے باب میں بحث مباحثے سے گریز ہی دراصل عقائد کا احترام ہے۔ عقائد کے بیچ مباحث کا انجام خونریز تصام کے سوا کچھ نہیں۔ گفتگوکی بنیاد اگر دلیل نہ ہو تو مکالمہ نہیں ہوسکتا۔ عقیدے کی دنیا میں دلیل کی کی بے توقیری کارثواب ہے اورعقل پہ شک کرنا کار خیر۔

محرم کا مہینہ جاری ہے۔ عشرہ بخیر وخوبی گزر گیا۔ عزادار بحفاظت واپس لوٹ گئے۔ زخم بھی اب مندم ہورہے ہیں۔ کوئی بڑا تصادم نہیں ہوا۔ خیر کی بات یہ ہوئی کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر سبھی فقیہانِ بے توفیق ایک مولوی صاحب کی خانگی الجھنوں کو سلجھانے میں مصروف رہے۔ کم سے کم فائدہ بھی یہ ہوا کہ فکری تصادم ٹلا رہا۔ ایک دکھ بہرحال اس محرم نے بھی دیا۔ ہزراہ برادری سے تعلق رکھنے والی ہماری چاربہنوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا۔ بہر طور یہ سانحہ راجہ بازار سے بڑا سانحہ تھا، مگر اس قوم پر شاید مشکلیں اتنی پڑگئی ہیں کہ اب آسان ہوگئی ہیں۔ ساٹھ ستر کی جان لیجیئے تو بمشکل دل دہل پاتا ہے۔ عشرہ گزرگیا، اب ماتم اب زیر بحث آیا۔ جائز ناجائز اور ٹھیک غلط کی بے نتیجہ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ کسی کے گھر میں جھانکنے یا آنکھوں میں گھس آنے کی جسارت ہے۔ ہم میں سے کسی کا حق نہیں کہ وہ ماتم کے ٹھیک یا غلط ہونے پربحث کرے۔ سچ یہ ہے کہ ماتم ایک مکتب فکر کی روایت ہے، جس کا احترام سب پر لازم ہے۔ ماتم کے کچھ منظر گردش میں ہیں۔ ایک عزادار نے بھرے مجمعے میں کلاشنکوف کا ماتم متعارف کروایا ہے۔ عزادار نے نعرائے حیدری بلند کیا اور اپنے سینے میں گولیاں اتاردیں۔ پہلے کی نسبت اب قمعے کے ماتم زیادہ سے زیادہ عکس بند کیے گئے۔ کہیں سینہ کوبی ہے کہیں زنجیر زنی ہے اور کہیں قمعے کا ماتم۔ اس بیچ بحث کا غبار ایسے رجال نے اڑا رکھا ہے جو اس معاملے میں سرے سے فریق ہی نہیں ہیں۔

ہم سینہ کوبی یا زنجیر زنی پر دو ہی صورتوں میں حرف گیر ہوسکتے۔ اول یہ کہ کوئی آپ کو سینہ کوبی پہ مجبور کردے، دوسرے یہ کہ کوئی اپنے سینے کوچھوڑ کر آپ کے سینے کو پیٹنے لگے۔ عزا دار کا ہاتھ آپ کی رضامندی کے بغیر جونہی آپ کے سینے پر پڑے گا آپ قانونی اور اخلاقی طور پر فرد جرم عائد کرنے کے مجاز ہوجائیں گے۔ معاملہ اگر اپنا ہاتھ اپنے سینے تک ہے، تو حدِ ادب حد احترام۔ تشویش کی بات یہ نہیں ہونی چاہیئے کہ عزادار نے خود کشی کر لی، تشویش کی بات یہ ہونی چاہیئے کہ عزا داروں پہ خود کش حملے ہوتے ہیں۔ فکر کی بات یہ نہیں ہے کہ عزادار اپنی زنجیر اپنی پشت پر برسارہا ہے، فکر کی بات یہ ہے کہ عزاداروں کی پشت پر دہشت گرد تازیانے برساتے ہیں۔ ہمیں کسی کے سینے اور خون سے ہمدردی ہے، تو ہمیں اس ہمدردی کا واضح اور دو ٹوک اظہار تب کرنا چاہیئے جب صرف شناخت کی بنیاد پر کسی عقیدے کے پیروکار کو قتل کیا جاتا ہے۔ خود کش حملے سے زیادہ اگر ہم خود کشی پر فکرمند ہیں تو ہم کہیں نہ کہیں قاتل کے ہمدرد ہیں۔

عزادارن سے مگر پورے احترام و دردمندی اورغلطی کے احتمال کے ساتھ یہ بندہ ایک اپیل کی اجازت چاہتا ہے۔ اسے ایک معاملے کی طرف توجہ دلانے کی جسارت بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ معاملہ ہے کمسن بچوں کا۔ ان بے زبان بچوں کا، جو ابھی نہیں جانتے کہ اچھا اور برا ٹھیک یا غلط کیا ہے۔ ہم ان کا مستقبل بھی نہیں جانتے کہ وہ سنِ شعور کو پہنچ کر کس فکر پہ کاربند ہوں گے۔ ان بچوں کے سروں پر عاشورہ کے موقع پر کھلے عام چیرے لگائے گئے۔ کوئی منظر دیکھنے اور سننے میں جذباتی طور پر کتنا ہی تکلیف دہ ہو، مگر ظاہر ہے میرا ذاتی احساس کسی مسلکی روایت پر اعتراض کرنے کا اخلاقی حق مجھے نہیں دیتا۔ یہاں معاملہ ایک دوسرے فرد کے استحقاق سے متعلق ہے اس لیے محسوس کرتا ہوں کہ سوال اٹھانے کی گنجائش موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمسن بچوں کے سروں پر چھری رکھنے کے اس معاملے کو علما و مشائخ ایک بار دیکھ سکتے ہیں۔؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان بچوں کو اس اذیت میں مبتلا کرنے میں والدین کی رضامندی شامل ہے، مگر دیکھنا ہوگا کہ کیا والدین کی رضامندی کسی بچے کا خون بہانے کا جواز بن سکتا ہے۔؟ کیا والدین کی رضامندی اولاد پر تشدد کا جواز بن سکتی ہے؟ کیا بیوی کا خون بہانے کے لیے خاوند کی رضامندی کافی ہوسکتی ہے؟ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایک بچہ میرے مکتب فکر کو اختیار کرچکا ہے۔؟ کیا ایک باپ اپنے بچے کو صرف اس بنیاد پر اپنا ہم مسلک تصور کرسکتا ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے؟ سانس لینے والا کوئی ایسا وجود، جس کا مسلک یا مذھب معلوم نہ ہو، کیا اس پر اپنے مذہب کی کسی ایسی روایت کا اطلاق کیا جا سکتا ہے جس میں خون بہنے اور جان سے جانے کا اندیشہ موجود ہو؟ کیا ہمیں اس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے کہ جب بچہ خود کسی بھی عقیدے کی پیروی پر اپنی رضامندی ظاہر کرے؟ عقیدے پر ہوتے ہوئے بھی اگر وہ بڑا ہونے والا بچہ زنجیر زنی سے انکار کردے تو کیا اس کی رضامندی کے بغیر تب بھی اس کی پشت یا سینہ ہم پیٹ سکتے ہیں۔؟

یہ سارے سوالات کسی روایت کے جائز اور ناجائز ہونے پر نہیں ہیں، یہ دراصل ایک فرد کا اور اس کے استحقاق کا سوال ہے۔ ایک بالکل ننھے پھول سے بچے کے سر پر پٹیاں بندھی ہیں، لباس مکمل خون آلود ہے، سٹریچر پر پڑا شدت درد سے بے حال ہے۔ ایک بچے کے بارے میں اطلاع ہے کہ اس بچے کی سانس زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اکھڑ گئی ہے۔ ایک اور منظر میں نہایت کمسن بچے کی پشت پر آہستہ سے سہی، مگر برچھیاں چلائی جارہی ہیں۔ درد سے بچے کی جان منہ کو آئی ہوئی ہے۔ کیا آپ نے دیکھا؟ بد قسمتی سے ہم نے دیکھا۔ آنکھیں بے ساختہ نم ہوگئی ہیں۔ یہ دل تب سے بجھ گیا ہے، ہزار تاویلیں کرلیں مگر چین نہیں پڑا۔ صرف اس لیے کہ ایک شبنمی سی کلی محض اپنے جذبات کی تسکین کے لیے مسل دی گئی۔ یہ ایک جان کا معاملہ ہے۔ کوئی عقیدہ معصوم جان سے تو بڑھ کر نہیں ہو سکتا نا صاحب کہ جان کی حرمت کے لئے تو حرام کو بھی حلال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ معصوم کلی کو کھلنے دیجیئے۔ اسے مہکنے تو دیجیئے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے تو دیجیئے۔ بس، بات روکتے ہیں۔ معافی چاہتے ہیں۔ اتنا کہتے ہیں کہ خدارا اس مسئلے پر ہر پہلو سے غور کیجیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments