میانمار: آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے عرس کی تقریبات


ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے 157ویں عرس کی تقریبات کا سلسلہ میانمار کے شہر رنگون میں جوش و خروش سے منایا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کو انگریز سرکار نے سنہ 1857 کی بغاوت اور جنگ کو جاری رکھنے کے جرم میں جلا وطن کر کے رنگون بھیج دیا تھا۔

بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈہ کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔

شاہ ظفر کی قبر

بہادر شاہ ظفر سنہ 1857 میں علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ ان کے پیروکاروں کے انگریز حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے خطرے کے پیش نظر انگریزوں نے انھیں بے نام و نشان ان کے گھر کے پیچھلے حصے میں دفن کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بہادر شاہ ظفر دلوں پر آج بھی حکمران

کیا مودی بہادر شاہ ظفر کے اصل مزار پر گئے تھے؟

مالچا محل کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں

سنہ 1907 میں مقامی مسلمانوں نے زینت محل کی قبر کے ساتھ ایک یادگار قبر بنائی اورانگریز سرکار نے بہادر شاہ کے نام کا کتبہ لگایا۔ جس پر لکھا ’اس مقام کے نزدیک آخری مغل بادشاہ دفن ہیں۔‘

تاہم 1991 میں درگاہ میں عورتوں کے علیحدہ کمرے کے لیے کھدائی کے دوران بہادر شاہ کی اصل قبر بھی مل گئی جو کہ درگاہ کے احاطے ہی میں واقع ہے۔

چشتیہ سلسلے سے تعلق

مولوی نذیر احمد پچھلے 20 برس سے درگاہ کے متولی اور امام ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے شاہ ظفر کی درگاہ پر آیا کرتے تھے۔ انگریزوں کے برما سے جانے کے بعد سنہ 1948 سے بہادر شاہ ظفر کا سالانہ عرس باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔

بہادر شاہ ظفر شیخ فخرالدین چشتی کے مرید تھے اور ان کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر نے ان کے شاگرد قطب الدین چشتی سے بیعت لی۔

مولوی نذیر کے مطابق صوفیانہ سوچ اور رب سے لگاؤ کے سبب بہادر شاہ ظفر کا مقام صوفی بزرگ کا ہے۔

مقامی مسلمان بہادر شاہ کو صوفی پیر بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سالانہ عرس کی تقریبات

برما بھر سے لوگ جوق در جوق جتھوں کی شکل میں صوفی بادشاہ کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں اور چار دن اور رات بابا کی قبر کے گرد فاتحہ خوانی کرتے ہیں، منقبت پڑھتے اور منتیں مانگتے ہیں۔ ان کی یاد میں شاعری کا مقابلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔

ایک رات قوالی یا محفل سماع کے لیے مختص ہے جو سحر تک جاری رہتی ہے۔

شاہد عالم رنگون کے جانے مانے اردو شاعر ہونے کے ساتھ قوال بھی ہیں۔ وہ بچہ قوال کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی قوالی پر دھمال تو نہیں نظر آئی لیکن علی دا ملنگ پر حق علی سننے کو ضرور ملا۔

عرس کے دنوں میں درگاہ پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ انڈیا یا پاکستان میں کھڑے ہیں۔ عرس کی رسومات، اردو شاعری، منقبت اور قوالی سن کر ماحول روح پرور اور رونق عید سی ہوتی ہے۔

کھانے پینے کے اسٹال، کپڑے، مہندی، لنگر اور روح افزا کی سبیل کا پورا اہتمام رہتا ہے۔

خواتین، بزرگ اور بچے درگاہ کے احاطے میں گھنٹوں درود پڑھتے اور ڈھولکی کی تھاپ پر بادشاہ کی شان منقبت پڑھتے اور سماع باندھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو اردو بولنا بھی نہیں آتی لیکن شاہ ظفر اور ہندوستان سے ان کی انسیت ہے۔

خدیجہ بی بی میانمار کے شہر کلا سے عرس میں شمولیت کے لیے اپنی والدہ کے ساتھ آئی ہیں۔ کالا شان صوبے کا ہل اسٹیشن ہے اور رنگون سے تقریباً 572 کلومیٹر دور ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ سائیکل، بس، جہاز اور ٹیکسی کا سفر کر کے بابا کے دربار پر حاضری لگانے آئی ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے برعکس میانمار میں قبر پر عورتوں کے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کے لباس اور سر ڈھکنے کو لے کر بھی مسلمان کافی وسیع نظریہ رکھتے ہیں۔ عرس میں وعظ کے دوران خواتین سر ڈھانپنے کے لیے چھوٹے رومال کا استعمال کرتی نظر آئیں۔

درگاہ ظفر شاہ اور سالانہ عرس چندے پر چلتا ہے۔ سنہ 1999 میں میانمار حکومت نے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں چار مقامی مسلمان اور پانچ غیر مسلم حکومتی ارکان شامل ہیں۔ درگاہ میں موجود مسجد میں پانچ وقت کی نماز بھی ہوتی ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp