کاشانہ میں کیا ہوا؟ اصل کہانی اور انکشافات


’ کاشانہ‘ گرین ٹاون لاہور میں یتیم اور لاوارث بچیوں کی پناہ گاہ ہے جس کی سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کی ویڈیوزاور کہانی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ ادارہ نیا نہیں بلکہ ستر کی دہائی سے قائم ہے تاہم مجھے اس کے بارے اس وقت علم ہوا جب عیدالاضحی کے لئے ایک شو ریکارڈ کرنا تھا تو ایک دوست نے تجویز دی کہ یہ پروگرام کاشانہ میں ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس ادارے کو بہترین انداز میں چلایا جا رہا ہے۔

یتیم اور لاوارث بچیوں کے جہاں دینی تعلیم اور امور خانہ داری کی تربیت کا اہتمام ہے وہاں وہ انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھنے بھی جاتی ہیں اور ان کی سیکورٹی کا بھی بہترین انتظام ہے، یعنی مکمل گھر جیسا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ میں نے بہت ساری ویڈیوز اور خبریں دیکھی ہیں جن میں وزیر قانون و بلدیات راجا بشارت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی متحرک ارکان اسمبلی عظمیٰ کاردار، ڈاکٹر زرقا اور سعیہ سہیل رانا وغیرہ بھی اس کی تعریفیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

اس معاملے کا آغاز مبینہ طور پر اس وقت ہوا جب پنجاب حکومت کے ایک وزیر نے ایک بیوروکریٹ خاتون کے ذریعے خواہش کا اظہار کیا کہ کاشانہ میں پانچ مرلے پر تین منزلہ فلیٹ بنائے جائیں، ان بچیوں کی وہاں شادیاں کی جائیں اور وہاں رہائش رکھی جائے۔ کاشانہ کی سپرنٹنڈنٹ نے اس تجویز کی بدبو کو محسوس کیا اور کہا کہ یہ ادارے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے مگراس انکار کے ساتھ ہی ایک جنگ شروع ہو گئی جو بظاہر سوشل ویلفئیر ڈپیارٹمنٹ کے اندر تھی مگر درحقیقت یہ ایوان وزیراعلی ٰ اور چیف منسٹر انسپکشن ٹیم تک پھیل چکی تھی کیونکہ جولائی میں شروع ہونے والے اس تنازعے کے بعد اگست کے وسط میں وزیراعلیٰ کو ایک درخواست دے دی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کاشانہ کی بچیوں پر گندی نظر رکھی جا رہی ہے، وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سی ایم آئی ٹی نے انکوائری کاآغاز کر دیا تھا جس میں اس امر کو بھی دیکھا جا رہا تھا کہ بچیوں کی پناہ گاہ میں رہائش رکھنے والے مرد ملازمین کون ہیں، انہیں وہاں رہنے کی اجازت کس نے دی، وہ کس با اثر شخص کے ساتھ وابستہ ہیں اور انہوں نے وہاں کون سی غیر اخلاقی حرکتیں کی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جب کابینہ میں ردوبدل ہوا تو اسی وزیر کو صوبے کے اعلیٰ ترین دفتر کے لئے تحقیقاتی ادارے کا وزیر بنا دیا گیا جس کے بعد اس انسپکشن ٹیم نے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بجائے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ کاشانہ کی سپرنٹنڈنٹ اپنی الزامات پر مبنی درخواست واپس لے لیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال تھی کہ سی ایم آئی ٹی نے نہ صرف اس گندگی کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بننے والی سپرنٹنڈنٹ کو معطل کر دیا بلکہ عملی طور پر کاشانہ کا چارج بھی خود سنبھال لیا۔

کاشانہ کے مکین بتاتے ہیں کہ اس تنازعے کے بعد کاشانہ کا بجٹ بھی معطل کر دیا گیا جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد بچیوں کی رہائش، تعلیم اور خوراک کے اخراجات کے مسائل پیدا ہو گئے جو تادم تحریر موجود ہیں۔ دباؤ یہ تھا کہ معطل کی جانے والی سپرنٹنڈنٹ اپنی درخواست واپس لیں اور کاشانہ میں رہائش چھوڑ دیں۔ سوشل ویلفئیر کی ڈائریکٹرجنرل اور کاشانہ کی سپرنٹنڈنٹ ہم نام تھیں یعنی دونوں کے نام افشاں، راوی بتاتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھیں مگر اس تنازعے نے ایک دوسرے کے سخت خلاف کر دیا۔ ایک سپرنٹنڈنٹ، ایک ڈی جی کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی لہذا اس نے وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بھی درخواستیں دے دیں۔ اس موقعے پر سیکرٹری سوشل ویلفئیر نے بھی خود آ کر انکوائری کی اور بچیوں کے بیانات قلمبند کیے۔

معاملہ سنگین ہوتا چلا جا رہا تھا اور اب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سپرنٹنڈنٹ کو وہاں سے نکالا جائے تو اس کے لئے ایک بڑے اور طاقت وروزیر نے حکم جاری کیا کہ کاشانہ میں پولیس گھس جائے اور وہاں سے سپرنٹنڈنٹ کو گھسیٹ کر باہر نکالا جائے۔ لاہور کی جری پولیس وہاں پہنچی، کاشانہ کا بڑا سا کالا گیٹ توڑا اور سپرنٹنڈنٹ کو درخواستیں دینے کے جرم میں تھانہ ٹاون شپ پہنچا دیا گیا جہاں ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بچیوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا اور دہشت گردی کی مرتکب ہو رہی تھی۔

پولیس بھیجنے والے وہ وزیر نہیں تھے جن پر الزام لگایا ہے کہ وہ کاشانہ میں پانچ مرلہ پر تین منزلہ فلیٹ بنانا اور وہاں شادیاں رچوانا چاہتے تھے مگر وہ دوسرے وزیر بھی ایک خاتون کے ساتھ شادی کے سکینڈل میں ملوث ہیں۔ وہ اچھے اور منطقی آدمی ہیں اور ان سے پولیس کے اس استعمال کی توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ سرکاری پولیس کوایک سرکاری ادارے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل کروا دیں۔

یہ واقعہ سامنے نہ آتا اگر سپرنٹنڈنٹ کاشانہ اپنے موقف پر مبنی ویڈیوز ریکارڈ کر کے نہ بھیجتیں، انہوں نے عقل اور جرات کا مظاہرہ کیا کہ جس وقت پولیس دھاوا بول رہی تھی انہوں نے اس وقت کی ویڈیو بھی بنا لی۔ افشاں لطیف کو گرفتار کر کے تھانہ ٹاون شپ لے جایا گیا اور وہا ں پولیس والوں نے ان کے موبائل فون سے نامعلوم ثبوت تلاش کرنے کے چکر میں ان کا فون بھی توڑ ڈالا۔ واقعہ سوشل کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی آگیا اور باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ اس میں آئی ایس آئی نے بھی مداخلت کر دی جس پر پولیس کوافشاں لطیف کو رہا کرنا پڑا کہ کسی بھی جرم کی نشاندہی میں درخواست گزار کو گرفتا ر کر لینا کسی طرح بھی عدالت میں درست ثابت کیا جانے والا اقدام نہیں ہے۔ تھانے میں ان سے انڈرٹیکنگ پر سائن کروانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی دی ہوئی درخواست جھوٹی تھی یا کم از کم غلط فہمی پر مبنی تھی۔

مجھے یہ سب حقیقت نہیں بلکہ کسی انڈین فلم کی سٹوری لگتاہے جس میں ایک وزیر ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتا ہے، افسر شاہی اور دیگر وزیر اس کی پشت پناہی کرتے ہیں مگر انڈین فلموں میں دکھایاجاتا ہے کہ وہاں کی سول سوسائٹی اور اپوزیشن اپنا کردارادا کرتی ہے، برے لوگوں کا منہ کالا ہوتا ے اور وہ عہدوں سے ہٹائے جاتے ہیں جس پر پبلک بہت تالیاں بجاتی ہے مگر مجھے یہاں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ سیاسی مجبوریوں کے اس دور میں ا س امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دوسری طرف سے کوئی دوسری فلم بھی بنائی اور چلائی جا سکتی ہے جس میں ثابت کیا جا سکتا ہے کہ درخواست گزار ہی اصل ملزمہ تھی کیونکہ ’ہیپی اینڈنگ‘ اور ’سب اچھا‘ والا کام عام طور پر صرف فلموں اورڈراموں میں ہی ہوتا ہے۔

ہماری حقیقت کی دنیا بہت مختلف اور بہت ظالم ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام بچوں اور بچیوں کی حفاظت فرمائیں جو اپنے ماں باپ کے تحفظ کے بغیر ہیں، خاص طور پر ان بچیوں کی جو ایسے خیراتی اداروں میں جوان ہو رہی ہیں جہاں کی بڑی بڑی دیواریں بھی کچھ لوگوں کے لئے راستے کے معمولی کنکر سے بڑھ کر نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).