کوئی کرے گا وقت کی پابندی ؟


\"sarwat-khan\"

آپ کو بھی یاد ہوگا وہ وقت جب شادی والے گھر پر شادی مبارک کی تختی کے ساتھ برقی قمقموں کی لڑیاں مہندی کے دن سے لٹکا دی جاتی تھیں ۔ سجے سنورے گھر میں دولہا کی سہرہ بندی بعد نماز مغرب رکھی جاتی تھی ۔ تمام قریبی دوست اور احباب بڑھ چڑھ کر اس میں شامل ہوتے ، تصویریں بنواتے، شیروانی پہنائے جانے کی رسم کی نیگ وصول کی جاتی اور پھر دولہا کے بھائی اور دوست نکاح کے چھوہاروں سے بھر ے سرخ تھیلے ہاتھ میں لئے باراتیوں کی بس میں سوار ہوتے اور دولہا کرائے کی کرولا ماڈل کی پھولوں سے سجی کار میں سوار ہوتا،یہ قافلہ مختصر سفر کے بعد رات نو ساڑھے نو بجے کے قریب مقامی شادی ہال پہنچ جاتا ۔ یعنی کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے رات بارہ بجے سے قبل ہی دلہنیا اپنے پیا کے ساتھ اس کی دہلیز پار کرچکی ہوتی تھی ۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج کے شادی کارڈز پر درج اوقات کار کی پابندی صحیح معنوں میں ماضی کی شادیوں کی تقریبات میں ہوا کرتی تھی ۔ آج تو نکاح کی رسم کے دوران اکثر تاریخ بھی بدل جاتی ہے۔

وقت گذرا ، دور بدلا، ہر کام میں جدت آگئی ۔ دولہا دلہن کے پہناوے بدلے ۔ سرخ غرارے کی جگہ دلہن سفید ، جامنی یا گلابی رنگ کی لمبی قمیض اور ٹراوزر بھی پہن رہی ہے تو دولہا روایتی آف وہائٹ شیروانی کی جگہ میرون یا نیلی مخمل کی لانگ اوپن شرٹ تنگ پاجامے کے ساتھ پہن رہے ہیں ، جس کے ساتھ کلہے لگانے اور کھسے پہنے کی کوئی قید نہیں ۔ سونے کے بھاری زیورات کی جگہ اب میچنگ مصنوعی اور ہلکے زیوارت کا رواج ہے ۔ ایسا کرنے میں کچھ ہاتھ ہمارے شہر کے نازک حالات کا بھی ہے ۔ دولہا کی شاہی سواری کی بات کریں تو بات بگھی سے نکل کر آٹو رکشے تک آگئی ، دولہن پالکی سے نکل کر موٹر بائیک پر سوار ہوگئی ۔ ایسا لگتا ہے جیسے شادی میں بابل کی دہلیز سے دلہن کی ڈولی اٹھانے کا رواج ختم ہو چکا ۔ اب نکاح کے بعد چھوہارے ،خوبانی اور مصری کی پڑیا نہیں، چاکلیٹس، ٹافیاں اور سپاری بانٹی جاتی ہے ۔

زبان کے ذائقے بھی وقت کے ساتھ پہلے سے نہیں رہے ۔ شادی پر بریانی، قورمہ،تندور کی روٹی، میٹھے میں کھیر یا زردہ ناپید ہوچکا ۔ اب کھانے سے پہلے جوس، سوپ ، شیک ، سموسے سمیت کئی نمکین آئٹمز مہمانوں کی میز تک پہنچائے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد چائینیز ڈشز میں فرائیڈ رائس، شاشلک، رشین سلاد، پاکستانی کھانوں کی تمام ورائٹی، جن میں وہائٹ کڑاہی، مٹن قورمہ، چکن تکہ ،فش فرائی، جھینگے، زیرہ پلاو، روغنی نان، شیرمال،کم از کم تین سے چار میٹھے اور مختلف چٹنیاں اور اچار رکھے جاتے ہیں ۔ پان، سوفٹ ڈرنکس اور قلفی کا سلسلہ علیحدہ ہے ۔ گویا پاکستانی شادی پیسوں کی بربادی کا مکمل نسخہ ہے ۔ شادی میں شامل ان تمام لوازمات کی موجودگی سے یاد آیا کہ حکومت پاکستان نے سن دو ہزار میں ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت شادی بیاہ کے مواقع پر کھانے کھلانے اور فضول خرچیوں پر مکمل پابندی عائد تھی۔ مہمانوں کی تواضع صرف مشروبات سے کی جاتی تھی ۔

پرانے دور کی یادیں تازہ کرنے کا موقع ہماری سندھ سرکار کی جانب سے جاری تازہ احکامات سے ملا ۔ ساتھ ہی شادی کی تقریبات میں کھانے کے ضیاع ،اصراف اور نمودو نمائش پر توجہ بھی مراد علی شاہ نے خوب دلائی ۔ یہ احکامات کراچی والوں کے لیے نئے نہیں اور ان کی خلاف ورزی ہمارے حکومتی اداروں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ سائیں مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کاموں کے اوقات کار طے کردہ اصول کے پابند ہوں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے ۔ بات کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ کراچی کے بازار آدھی رات تک کھلے رہنے کے باعث شام کے اوقات میں دفاتر سے گھروں کو لوٹنے والے بازاروں کے سامنے مرکزی شاہرایوں پر گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ۔ سندھ کی وزارت اعلی نے شہباز ٹاسک فورس کی طرز پر حلف اٹھاتے ہی پہلے پھرتیاں دکھائیں ، تو کیا ہوا کہ وہ شہر کو صاف ستھری شکل نہ دے سکے ۔ اب شہر کی روشنیاں واپس لانے کی غرض سے صوبے میں توانائی بحران پر قابو پانے کےلیے وہی پرانا حل مارکیٹ میں پیش کردیا۔ کراچی کے کاروباری مراکز اور شادی ہالز کے اوقات کار ان کے نشانے پر ہیں ۔ کاروباری اوقات کار میں تبدیلی کردی گئی، دیر رات تک جاری شادی ہالوں میں تقریبات بھی پابندی لگا دی گئی ۔ شادی ہال رات دس بجے جبکہ دکانیں اور بازار شام سات بجے تک بند کرنے کے احکامات صادر کر دیئے گئے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ہماری عوام نے شادی کے ٹرینڈز، کھانےکے مینو سمیت تبدیلیوں کو تو خوشی سے قبول کرلیا ، کیا ہم چھپوائے گئے روایتی دعوت ناموں پر درج ہوئے اوقات کار پر ہو بہو عمل کریں گے یا نومبر کے مہینے میں بھی ہماری عوام پرانی ڈگر پر چلتی پھرتی نظر آئے گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments