پاکستانی حقہ، جرمن اسٹوڈنٹ یونین اور فیسوں میں اضافہ


ہر جرمن لڑکی اور لڑکا سب سے پہلے آ کر یہی پوچھتا تھا کہ یہ اتنا خوبصورت حقہ (شیشہ) کہاں سے آیا ہے؟ حقہ گھومنے والا تھا۔ لمبے پائپ پر گولڈن تلہ تھا اور چلم بھی رنگ برنگی تھی۔ یہ میں خاص طور پر گوجرانوالہ سے لے کر گیا تھا اور اس احتجاجی کیمپ کی جان بنا ہوا تھا۔ یونیورسٹی آف بون کے وسیع و عریض گارڈن میں یہ احتجاج چھٹے روز میں داخل ہو چکا تھا لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کا رش روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک ڈی جے نے مفت میں ہر رات کو پرفارم کرنے کی حامی بھری ہوئی تھی، کچھ منچلے رات دیر تک ڈانس کرتے رہتے، کچھ تاش کھیلتے اور کچھ گھوڑے بیچ کر سو جاتے۔

کھانا ہر کوئی اپنا خود برداشت کرتا تھا۔ جرمن لڑکے لڑکیوں کی بئیر کی بوتلیں بھی انہی کے خرچے سے نکلتی تھیں۔ حقہ میرا تھا لیکن فلیور والا تمباکو ہر کوئی اپنا خود لاتا تھا۔

درمیان میں بارش بھی ہوتی رہی لیکن ہر کوئی اس بات پر متفق تھا کہ فیسز عائد نہیں ہونے دی جائیں گی۔ روزانہ رات کو آئندہ کی منصوبہ بندی ہوتی، اگلے دن کے لیے احتجاج کا طریقہ کار اور راستہ طے ہوتا، انتظامیہ سے اجازت لینے کی درخواست تیار ہوتی۔ عوامی رائے کو اپنے حق میں کیسے کرنا ہے اور حکومتی فیصلے کو کیسے نا انصافی ثابت کرنا ہے، یہ سبھی بحث رات بھرجاری رہتی۔

کچھ اسٹوڈنٹس نے وہاں خیمے لگا لیے، کچھ نیند پوری کرنے کے لیے ہوسٹلز میں چلے جاتے اور کچھ ”درویش“ وہاں ہی ایک دوسرے کو تکیہ بنا کر لیٹ جاتے۔ یہ احتجاج تھا لیکن ہرکوئی اسے انجوائے بھی کر رہا تھا، نہ کوئی مار دھاڑ تھی، نہ ٹائر جلائے جا رہے تھے، نہ کوئی ڈنڈا پکڑے ہوئے تھا اور نہ ہی کوئی غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔

اسے میری خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، میرے جرمنی آنے کے دو سال بعد ہی صوبے نارتھ رائین ویسٹ فیلیا کی حکومت تبدیل ہوئی اور نئی حکومت کی طرف سے یونیورسٹیوں میں فیسیں عائد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ جرمنی میں یونیورسٹیوں کی فیسیں صوبائی معاملہ ہے اور ہر صوبائی حکومت کو اس حوالے سے فیصلہ سازی کا اختیار حاصل ہے۔ یہ ایسا پہلا موقع تھا جب فیسیں عائد کی جا رہی تھیں۔ جرمن طالب علموں کے لیے 500 یورو فی سمیسٹر فیس رکھی گئی لیکن غیرملکیوں کے لیے 150 یورو اضافی رکھے گئے۔

میرے جرمن پروفیسر کا موقف تھا کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی فیسیں کسی بھی معاشرے میں طبقاتی تقسیم میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس طرح تربیت کے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ مختلف انسان مختلف ذہانت لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن مساوی مواقع فراہم کر کے اس فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر پڑھائی کے یکساں مواقع پیدا نہ کیے گئے تو دولت مند افراد ہر جگہ قابض ہو جائیں گے، معاشرتی ناہمواری بڑھے گی اور غریب طبقہ اعلی پوسٹوں تک نہیں پہنچ پائے گا۔

یہاں سے ان احتجاجی مظاہروں کی یہ جنگ شروع ہوئی اور تقریبا ایک ماہ تک جاری رہی۔ میں پاکستان میں کبھی کسی یونین کا حصہ نہیں رہا تھا۔ میرے جرمن دوستوں نے کہا کہ ڈیڑھ سو اضافی فیس غیرملکی اسٹوڈنٹس کے ساتھ زیادتی ہے۔ سب اسٹوڈنٹ برابر ہیں، چاہیے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔ تمہیں اس کے لیے ہمارا ساتھ دینا ہو گا اور ہم تمہیں ہر جگہ اسپورٹ کریں گے۔

یونیورسٹی آف بون میں پاکستانی اسٹوڈنٹس بہت ہی کم تھے۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ دس ہوں گے شاید۔ خیر یہ احتجاج اور یونین کا حصہ بننا میرے لیے ایک درس گاہ ثابت ہوا۔ پہلی مرتبہ پتا چلا کہ پرامن احتجاج کیسے کرنا ہے۔ میں نے مطالبات نہ مانے جانے پر سڑک بلاک کرنے کا مشورہ دیا تو فلوریان غصے میں آ گیا کہ تم کیسا مشورہ دے رہے ہو؟ ہم باقی لوگوں کی زندگی کو کیوں اجیرن بنائیں گے۔ لوگوں نے وقت پر کام کاج کرنا ہوتا ہے، بچوں نے اسکول جانا ہوتا ہے، مریض ہوتے ہیں، حاملہ خواتین ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ احتجاج کا مقصد دوسروں کی زندگی میں خلل ڈالنا نہیں ہوتا، بلکہ آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے اور اس کا آغاز احتجاج کے طریقہ کار سے ہوتا ہے۔

خیر مقامی اخبارات نے احتجاج کی سرخیاں لگانا شروع کر دیں لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت ڈٹی رہی اور ایک ماہ بعد فیسیں عائد کر دی گئیں۔ لیکن حکومت نے بینکوں کے ساتھ معاہدہ بھی کر لیا کہ ہر اسٹوڈنٹ کو قرض فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ فیسیں ادا کر سکیں۔

ہم سب کو بہت مایوسی ہوئی لیکن میرے جرمن رومیٹس نے کہا کہ ہم یونیورسٹی پارلیمنٹ کا الیکشن لڑیں گے اور وہاں سے موجودہ صوبائی حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ یونیورسٹی الیکشن قریب تھے اور ہم نے اس کی تیاری شروع کر دی۔

جرمن یونیورسٹیوں میں ملک کی تقریبا تمام سیاسی پارٹیوں کی اسٹوڈنٹ سیاسی پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی پارلیمان کا نظام بالکل ویسے ہی چلتا ہے جیسے ایک ملکی پارلیمان میں چلتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں دو طرح کے انتخابات ہوتے ہیں ایک ڈیپارٹمینٹل لیول کے اور دوسرے یونیورسٹی لیول کے۔ جو پارلیمان تشکیل پاتی ہے، اس میں ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ طالب علم بھی بیٹھتے ہیں اور وہ بھی جو یونیورسٹی میں دیگر تمام معاملات دیکھتے ہیں۔ اس طرح یونیورسٹی پارلیمان ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی سطح کے مسائل سے آگاہ رہتی ہے۔ کسی اسٹوڈنٹ کے ساتھ زیادتی، کوئی جنسی ہراسانی کا مسئلہ ہو، جو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، تمام مسائل اسی پارلیمان تک آتے ہیں۔

یونیورسٹی کی کنٹین میں کھانے سے متعلق تمام فیصلے یہ پارلیمان کرتی ہے، اس کے بجٹ کا حساب رکھتی ہے۔ یونیورسٹی کی تمام دکانوں کا حساب رکھتی ہے۔ اسٹوڈنٹس کو رعایتی کھانا، لیپ ٹاپس کی مرمت وغیرہ سبھی امور کی نگرانی یہ پارلیمان کرتی ہے۔ انتظامیہ کے ساتھ اسٹوڈنٹس کو دفاتر ملتے ہیں، فیصلے مشترکہ طور پر کیے جاتے ہیں، یونیورسٹی میں کون سے سیمنار کروانے ہیں، اس کا فیصلہ یہی پارلیمان کرتی ہے، کس ملک سے لیکچر کے لیے کون سا پروفیسر مدعو کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

یونیورسٹی الیکشن آئے تو میں بھی ایک جماعت کی طرف سے کھڑا ہو گیا۔ میں جس فلیٹ میں رہتا تھا، وہ سبھی لڑکے لڑکیاں یونیورسٹی کی سیاست میں ایکٹیو تھے لیکن ہر ایک کے خیالات اور پارٹیاں جدا جدا تھیں۔ مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ اختلاف رائے ہونا ایک اچھی چیز ہے اور اس کی بنیاد پر دشمنی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں میں نے یہ سیکھا تھا کہ جو آپ کے مسلک کا نہیں، یا جو مختلف رائے دیتا ہے، آپ سے اختلاف کرتا ہے، وہ بس آپ کا دشمن ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2