انڈیا کی معیشت میں مسلسل چٹھی سہ ماہی میں گراوٹ، ماہرین کو تشویش


سست روی

لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی یا نہیں لیکن انھوں نے خریدنا کم ضرور کر دیا ہے

انڈیا میں رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار کی ترقی کی شرح میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے۔

خدشات سچ ثابت ہوئے ہیں اور جی ڈی پی کی شرح نمو ساڑھے چار فیصد رہی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے کچھ عرصہ قبل ترقی کی شرح کے پانچ فیصد سے بھی کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن اس جائزے میں خدشات کے باوجود ترقی کی شرح 4.7 فیصد بتائی گئی تھی۔

اب جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ اس خوف سے بھی بدتر ہیں اور پچھلے چھ سالوں میں بدترین ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2013 میں جنوری اور مارچ کے درمیان یہ شرح 4.3 فیصد تھی۔

مزید تشویش کی بات تو یہ ہے کہ جی ڈی پی کی ترقی کی شرح میں یہ مسلسل چھٹی سہ ماہی ہے جس میں گراوٹ نظر آئی ہے۔ صنعت کے شعبے کی شرح 6.7 فیصد سے کم ہو کر محض نصف فیصد رہ گئی ہے جسے اقتصادی ماہرین ایک انتہائی پریشان کن بات کہہ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی معیشت کو مودی کس طرح چلائیں گے؟

’انڈیا کی معیشت صفر کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے‘

اس میں بھی اشیا کی تیاری میں اضافے کی بجائے نصف فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ دوسری طرف زراعت کے شعبے میں اضافے کی شرح 4.9 سے کم ہو کر 2.1 فیصد ہو گئی ہے اور سروسز کے شعبے میں ترقی کی شرح 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.8 ہوگئی ہے۔

گراف

جی ڈی پی کو کیسے سمجھا جائے؟

جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی پورے ملک میں بنایا جا رہا ہے، جو کوئی بھی جتنی کمائی کر رہا ہے، اس سب کا مجموعہ۔ آمدنی کا حساب کتاب آسان نہیں ہے لہذا یہاں حساب کتاب کرنے کے لیے اخراجات کا حساب کتاب کرنا ایک آسان طریقہ ہے۔ اس طرح کسی بھی چیز کو خریدنے پر ہونے والے کل اخراجات ملک کی جی ڈی پی ہے۔

اس میں ہونے والے اضافے کو جی ڈی پی کی ترقی کی شرح کہتے ہیں اور یہی ملک کی ترقی کو جاننے کا پیمانہ ہے۔ اسی کی بنیاد پر فی کس جی ڈی پی طے ہوتی ہے۔ اور اگر یہ فی کس اعداد و شمار کمی کا شکار ہوں تو پھر اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ملک کے شہری مشکلات سے دوچار ہیں، ان کی ضروریات مشکل سے پوری ہو رہی ہیں۔

فی کس آمدن زیادہ ہونے کا مطلب شہریوں کی بہتر زندگی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں غربت یا بھوک نہ ہو، کیونکہ یہ اوسط ہوتی ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں فی کس جی ڈی پی تقریباً 55 ہزار ڈالر ہے لیکن وہاں بھی تقریباً دس فیصد لوگ اپنے کھانے کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں۔

سست روی

درآمدات میں بھی کمی آئی ہے

کتنے پریشان کن اعدادوشمار ہیں؟

انڈیا کی فی کس جی ڈی پی رواں سال 2041 ڈالر یعنی ایک لاکھ 46 ہزار ہندوستانی روپے رہی۔ اتنی سالانہ کمائی میں ممبئی جیسے بڑے شہر میں بہت سے لوگ گزر بسر کرتے ہیں۔ لیکن یہ ملک میں فی کس جی ڈی پی کا اوسط ہے اور اس کا مطلب ہے کہ گنتی کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کا لاکھوں گنا زیادہ کما رہے ہیں اور ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس کا دسواں یا سواں حصہ بھی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ عدم مساوات کی ایک علیحدہ بحث ہے۔

گذشتہ ڈیڑھ سال سے جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ نظر آ رہی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس میں بہتری کے آثار فی الحال نظر نہیں آ رہے ہیں۔

معیشت کے زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر رواں سال کی چوتھی اور آخری سہ ماہی میں بھی زوال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اس میں بہتری لانا مشکل ہوگا کیونکہ حکومت اس میں اصلاح کے لیے کئی اقدام پہلے ہی کر چکی ہے۔

حکومت کا مقصد انڈیا کی معیشت کو پانچ کھرب ڈالر تک لے جانا ہے۔ صرف کیلکولیٹر پر حساب کتاب کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 12 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دس سالوں سے ہندوستان دس فیصد کی ترقی کا خواب دیکھتا رہا ہے اور عموماً ترقی کی شرح سالانہ سات سے آٹھ فیصد کے درمیان رہی ہے۔

پچھلے سال ترقی کی اس شرح میں کمی آئی لیکن پھر بھی وہ تقریباً سات فیصد تھی۔ لیکن اب اگر اس میں مزید کمی آتی ہے تو یہ سنگین پریشانی کی علامت ہے۔

انڈیا

مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بھی سست روی سامنے آئی ہے

یہ پریشانی کی علامت اس لیے بھی ہے کہ لوگوں کے اخراجات میں تیزی سے کمی نظر آئی ہے۔ وہ بھی عام آدمی کے اخراجات میں جسے کنزیومر سپینڈنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی لوگ سامان نہیں خرید رہے ہیں، لوگ اخراجات میں کٹوتی کر رہے ہیں، اور ان کے پاس جو رقم ہے وہ اسے سوچ سمجھ کر خرچ کر رہے ہیں یا زیادہ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کا اثر یہ ہے کہ اگر لوگ خرچ نہیں کریں گے تو سامان فروخت نہیں ہوگا۔ اگر سامان فروخت نہیں ہوگا تو اسے بنانے والی کمپنیاں اور فروخت کرنے والے تاجر مشکل میں ہوں گے۔ وہ مشکل میں ہوں گے تو ان کا عملہ مشکل میں ہوگا۔ لوگوں کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے تنخواہ بھی نہ ملے اور نوکری جانے کا خدشہ قائم رہے۔ بہت سے لوگ ملازمت سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں اور چاروں جانب سے ایسی خبریں آرہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی ترقی پر بھروسہ نہیں ہے۔

ابھی تک حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ سب اس راہ پر ہے کہ بینکوں سے قرض لیے جائيں، نظام میں پیسہ آئے، کاروبار میں تیزی آئے اور ترقی میں اضافہ ہو۔

لیکن قرض میں سود کی شرح کا محض کم ہونا ہی اس پریشانی کا علاج نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی کساد بازاری نہیں ہے۔ علم معاشیات کی رو سے ان کی بات سہی ہو سکتی ہے کہ ‘ریسیشن’ نہیں ہے۔ لیکن انگریزی میں جسے ‘سلو ڈاؤن’ کہتے اس کا مطلب بھی تو مندی اور سست رفتاری ہی ہوتا ہے۔ اور خود وزیر خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ شاید یہ سست روی ہے۔

سست رفتاری کی دوا کیا ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ اس سست روی کا علاج کیا ہے؟ صارفین کے دلوں میں یہ اعتماد کیسے آئے گا کہ وہ جیب میں ہاتھ ڈالیں اور رقم نکال کر خرچ کریں۔ اور اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ملازمت کے شعبے میں تیزی کا آنا۔

جب لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ ان کے ہاتھ میں ایک نوکری ہے اور سامنے دو نوکریوں کی پیشکش بھی تو اسی وقت ان کے دل میں کمانے سے قبل خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔

اس صورت حال کے لیے ماہرین کے پاس بہت سی تجاویز ہیں۔ لیکن اس وقت حکومت کا یہ حال ہے کہ اس کے سامنے جو تجاویز آ رہی ہیں وہ انھیں ہی آزما کر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس سے بازار حصص تو چل سکتا ہے لیکن معیشت کا چلنا مشکل ہے۔

اب حکومت کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں جو لوگ شامل ہوئے ہیں ان کے پاس بہت تجربہ ہے اور کچھ بہت موثر تجاویز بھی ہیں۔ حکومت کو کم از کم ان لوگوں کے مشوروں پر غور کرنا ہو گا۔

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس خدشے کا اظہار نوٹ بندی کے بعد ہی کر دیا تھا کہ جی ڈی پی کی ترقی کی شرح میں ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اب جب ان کی بات سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے تو کم سے کم ان سے بات کر کے اس بیماری کا علاج تو پوچھا جا سکتا ہے۔

لیکن تازہ ترین اعداد و شمار کے سامنے آنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کساد بازاری کی تکنیکی تعریف اور سست روی کی اصطلاحوں میں الجھنے کی بجائے حکومت کو اب سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ صورتحال بہت خراب ہے، اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور جنگی پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp